دوسرے درجے کے شہری

''جہادی دہشت گردی‘‘ شمالی امریکہ کے ملکوں بالخصوص امریکہ اور کینیڈا میں تارکین وطن کے حقوق کی تحدید کا جواز بن گئی ہے۔یہ وہ ملک تھے جو قانونی اور غیر قانونی آبادکاروں کو فراخدلی سے پناہ دیتے رہے ہیں۔ اقتصادی‘ مذہبی یا سیاسی وجوہ کی بنا پر لوگ ان ملکوں کا رخ کرتے رہے اور ان میں سے کچھ‘ مقامیوں کی امداد سے سیاسی یا تبلیغی کام کرتے رہے ہیں۔ان ملکوں کی شہریت حاصل کرنا ممکن تھا‘ جو اب مشکل کر دیا گیا اور اس کے پیچھے نائن الیون یا دہشت گردی کے دوسرے واقعات کار فر ما ہیں جو رکنے کا نام نہیں لیتے اور جن میں مقامی دہشت گرد بھی ملوث ہو گئے ہیں۔
کینیڈا اپنی زمین کی وسعت‘ آبادی کی قلت اور معیشت کی پہنائی کے پیش نظر ‘ امریکہ کی نسبت مہاجروں کے لئے زیا دہ سازگار تھا۔ اس نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سمیت لاکھوں پاکستانی اور ہندوستانی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ اور روزگار دیا۔قادری صاحب نے ان چالیس برسوں میں ادارہ منہاج القران کے نام سے ایک عالمی نیٹ ورک کی تعمیر کے بعد دو بار اسلام آباد پر دھاوا بولا اور دوسری بار بیمار ہو کر واپس ٹورانٹو آگئے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مطمئن رہیں کہ وہ شاید ایک بار پھر ''انقلاب‘‘ کا نعرہ لے کر دھرنے کارخ نہیں کریں گے۔ اس میں علامہ کی بیماری سے زیادہ‘ کینیڈا کے نئے قوانین بالخصوص 24سی کا دخل ہے۔
کینیڈین پارلیمنٹ نے پچھلے دنوں خاموشی سے یہ قانون منظور کیا۔ ایوان نے کھلی بحث کی بجائے ایک پریس نوٹ جاری کیا جس میں شہریوں کو اول اور دوم درجے میں بانٹنے کی '' نوید‘‘ سنائی گئی۔ نئے قانون کی رو سے امیگریشن حاصل کرنے والے لوگ کینیڈین شہریت اختیار کرنے میں دشواری پائیں گے مگر ان کے لئے ایسی شہریت سے محروم ہونا آسان ہو گابالخصوص اگر ان کے پاس دوہری شہریت ہے تو ان کا کینیڈین شہریت سے ہاتھ دھونا ممکن ہو گا۔ اس کے لئے جواز Terrorism Jihadi بتایا گیا جو دنیا میں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
قانون کے نتیجے میں دوہری شہریت اور نقلِ وطن کے ذریعے کینیڈا میں آباد ہونے والے لوگوں کی سٹیزن شپ واپس لی جاسکتی ہے۔ ان میں تارکین وطن کی اولاد بھی شامل ہے اور وہ لوگ اور ان کے بچے بھی جو افریقہ پر برطانوی راج ختم ہونے پر انیس سو ساٹھ کے عشرے میں دولتِ مشترکہ کے ملکوں میں دوبارہ آباد ہوئے تھے‘ مگر دوسرے لوگوں کو شہریت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔با الفاظ دیگر جو کینیڈین ‘ دوسرے ملکوں کی شہریت کے حق دار ہیں انہیں کینیڈین سٹیزن شپ سے محروم کیا جا سکتا ہے اور دوسروں کو نہیں۔لاکھوں پاکستانی اور ہندوستانی‘ جن میں پنجابی مسلمان‘ ہندو اور سکھ شامل ہیں‘ اس امتیازی قانون کی زد میں آئیں گے۔یہ رنگدار اور گورے کو تقسیم کرنے کا نظام ہے جس کی کینیڈین آئین اجازت نہیں دیتا اور اس قانون کو غیر دہشت گرد کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکے گا مثلاً ایک ایسے صحافی کے خلاف جو انسانی حقوق کی سرکاری خلاف ورزیوں کی خبریں دیتا ہے۔ کینیڈین حکومت نے نئے نظام میں غیر جانبدار جج کو نکال کر اس کی جگہ سرکار کا وفادار ملازم رکھ دیا ہے اور یہی اس قانون کا خاصا ہے۔ برطانوی حکمران بھی کینیڈین پارلیمنٹ کی پیروی کے ارادے کا اظہار کر رہے ہیں۔وہ انگلستان کی آبادی کو یورپین اور غیر یورپین میں تقسیم کریں گے۔جہاں تک شمالی امریکہ کے بچوں کا سوال ہے اب تک ان کی پہچان انگریزی زبان اور ان کے لہجے کی یکسانیت تھی جو اب مستند نہ ہو گی۔
کینیڈا اور امریکہ میں شہریت ہمیشہ محفوظ رہی ہے۔ آپ یہاں پیدا ہوئے ہوں یا امی گرینٹ ہوں۔ ایک دفعہ شہریت مل جائے تو وہ عمر بھر برقرار رہتی ہے۔ امریکہ میں شہریت سے محروم کئے جانے کی ایک ہی نمایاں مثال ملتی ہے۔ رابرٹ ای لی کو غلامی کے حق میں لڑنے والی فوجوں کی کمان کرنے پر امریکی شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ان کی شہریت‘ خانہ جنگی کی سوویں برسی پر چند سال پہلے بحال کی گئی۔ واشنگٹن سے جنوب کا رخ کریں تو دریائے پوٹامک پار کرتے ہی بلندی پر لی کا گھر دکھائی دیتا ہے جو آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں مقتول کینیڈی برادران کے آتشکدوں کے بعد سیاحوں کی دلچسپی کا بڑا مرکز ہے۔ کینیڈا کے قانون کے تحت ایک شہری کی شہریت چھینی جا سکتی ہے جو اس نے فریب دہی سے حاصل کی ہو‘ وہ دہشت گردی یا جاسوسی کی شکل میں ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہو یا غداری کی صورت میں اپنے ملک سے ناوفاداری کا مظاہرہ کرے مگر قانونی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ''جرائم ‘‘ کی یہ فہرست طویل ہو سکتی ہے۔ نیا قانون ان جرائم کی سزا جلاوطنی قرار دیتا ہے جس کی موجودہ جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں۔
کینیڈا کی شہریت حاصل کرنا اب زیادہ مشکل ہوگا۔ نقلِ وطن کرنے والوں کو شہریت کی درخواست دینے سے پہلے زیادہ طویل انتظار کرنا ہو گا۔ نوجوانوں اور بزرگوں کو اب زبان دانی اور معلومات کا امتحان پاس کرنا ہو گا جو سب بچوں اور بوڑھوں کے بس میں نہیں۔ کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی سرکاری زبانیں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک زبان میں معلومات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ بڑی عمر کے لوگ بہ آسانی زبان دانی اور معلومات کا امتحان پاس نہیں کر سکیں گے۔ امیگریشن کی فیس تین گنا کر دی گئی ہے۔ درخواست گزار کو اپیل کا حق نہیں ہو گا۔ کل تک امیگریشن کے درخواست گزار کو چار سے چھ سال انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اب آپ کو مستقل رہائش (امریکی گرین کارڈ کے اجرا) کے دن سے آٹھ تا دس سال انتظار کھینچنا ہو گا۔ اس سے پہلے کا وقت بطور طالب علم‘ پناہ گزین یا ملازم پیشہ چار سال کے عرصے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اس لئے کہ حکومت‘ دہشت گردی کا توڑ کرنے میں ناکام رہی ہے اور اسے امیگریشن کے قانون میں رد و بدل کے سوا کچھ نہیں سوجھا۔
امریکہ میں بھی بظاہر سرحدوں پر قابو پانے کی غرض سے قانون میں تبدیلیاں ضروری سمجھی گئی ہیں۔ ملک میں غیر قانونی آبادکاروں کی تعداد کے تخمینے تین کروڑ تک جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی تارکین وطن کے بچے‘ جو اس ملک کی سر زمین پر پیدا ہوئے اور ہر لحاظ سے امریکی شہری ہیں ڈی پورٹیشن کے خطرے سے دو چار ہیں۔صدر اوباما نے انہیں اس خطرے سے بچانے اور امریکیوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لئے ایک ایگزیکٹو آرڈر ( آرڈنینس) جاری کیا‘ جوقانونی چارہ جوئی کے ایک لمبے سلسلے کی کامیابیوں کے سبب سست روی کا شکار ہے۔ تارکین وطن کی اکثریت جنوبی امریکہ کے غریب ملکوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہ آرڈ یننس انہیں شہریت کا راستہ دکھاتا ہے۔ چونکہ امریکہ میں آبادی کا ایک حصہ ہسپانوی بولتا ہے اس لئے اقتصادی پناہ گزینوں کو بہت سے گرجا گھروں اور دوسری تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے ایک ارب پتی جارج سو روز نے اسی لاکھ ڈالر اس کوشش کو تیز تر کرنے کے لئے مختص کئے ہیں اگرچہ بعض عدالتوں کے فیصلوں اور ریپبلکن قیادت کی مخالفت کے پیش نظر اس کوشش کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں