کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

دو سال کی کاوش کے بعد بالآخر امریکہ اور ایران میں ایٹمی معاہدہ طے پاگیا‘ جو پاکستان اور دوسرے ملکوں سے ایرانی کاروبار کے دروازے کھول رہا ہے۔ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے۔ سب سے پہلے شاہ نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ ایران ریل کے ذریعے چمن سے جڑا ہوا ہے۔ اب پاکستان کو فوری طور پردونوں ملکوں کے مابین قدرتی گیس کی پانچ سو میل لمبی پائپ لائن تعمیر کرنی ہے اور اس کا آغاز گوادر نواب شاہ لنک سے ہو نا ہے۔پاکستان کو توانائی کے بحران کا سا منا ہے اور اس نے اسی دن گیس کے نرخوں میں بیس فیصد اضافے کی تجویز کا اعلان کیا ہے جو گرانی کے مارے ہوئے پاکستانیوں کے لئے نا قابل برداشت ہو گا۔اس معاہدے کی رو سے ایران کی تجارت پرامریکہ اور یورپی یونین کی اقتصادی پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور اس کے عوض ایران پندرہ سال تک بم نہیں بنائے گا۔وہ جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کے عالمی عہد نامے پر دستخط کرنے والا واحد ملک تھا۔اسرائیل‘ بھارت اور پاکستان نے اس معاہدے سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا۔
وی آنا میں ہونے والے نئے سمجھوتے کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ صدر اوباما نے وائٹ ہاؤس سے پندرہ منٹ کے نشرئیے میں سات بجے صبح اس کا اعلان کیا‘ جب ملک کے مغربی ساحل کی آبادی ابھی سو رہی تھی۔نائب صدر جو بائڈن اثبات میں سر ہلانے کے لئے ان کی دائیں جانب کھڑے تھے۔ صدر نے سمجھوتے کو ناگزیر کہا اور کانگرس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے نوے دن میں توثیق نہ کی تو وہ اس کا اقدام ویٹو کر دیں گے‘ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں اور دوسرے خلیجی ملکوں کو اس پر خوشی نہ ہوگی۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یا ہو تو اسرائیلی انتخابات سے پہلے وائٹ ہاؤس کو اطلاع دیے بغیر واشنگٹن آئے‘ کانگرس سے خطاب کیا اور مجوزہ معاہدے کی بھرپور مخالفت کرنے کے بعد واپس لو ٹ گئے۔ری پبلکن پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے تقریباً سب کے سب پندرہ امیدوار اس معاہدے کی‘ جو مشرق وسطیٰ کے حالات پر اچھا اثر ڈال سکتا ہے‘ مخا لفت کر رہے ہیں۔ پاکستان‘ ایران اور سعودی عرب دونوں کا دوست ہے۔ اسے بھی اپنی پالیسی کو متوازن کر نا ہو گا۔فوری طور پر اسے جنداللہ کو زیادہ قابو میں لانا چاہیے جو آئے دن ایرانی بلوچستان کے علاوہ بلوچستان میں بھی مار کرتی ہے۔سعودی اور اسرائیلی چاہتے تھے کہ امریکہ ‘ تہران پر بم باری کرے مگر اس نے دوسرے ملکوں میں فوج بھیجنے کی روایت کے باوجود ایسا نہیں کیا۔
وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور دوسرے ایرانی حکام اپنے جوہری منصوبے پر سلامتی کونسل کے پانچ ارکان‘ جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں‘ اور جرمنی سے گفتگو کر رہے تھے۔مغرب کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا (یورپ) میں اس گفت و شنید کی قیادت کی۔ پیچیدہ مذاکرات کے نازک مرحلے میں انہوں نے ایرانیوں کو چیلنج کیا تھا کہ ہم لا متناہی عرصے کے لئے دیار غیر میں نہیں بیٹھیں گے۔آخری سترہ دن میں دو بار لین دین میں توسیع ہوئی۔مسٹر کیری بائیسکل پر صبح کی ورزش کے دوران ایک ٹانگ تڑوا بیٹھے اور ایک دن کے لیے بیساکھیوں پر واشنگٹن آئے اور پھر واپس چلے گئے۔صدر اوباما نے ان کو کام مکمل ہونے کی مبارک باد دی۔ایرانیوں کا موقف تھا کہ وہ نیوکلیئر بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے‘ ان کا منصوبہ پُرامن ہے۔ مذاکرات میں اس وقت رکاوٹ پڑی جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ پْر امن مقاصد کے لئے ٹیکنالوجی کو ترقی دینا ہر آزاد ملک کا حق ہے۔امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں نے یہ حق تسلیم کیا ہے۔ نیتن یاہو کے علاوہ جان کیری اور علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر کہا تھا کہ سودا نہ ہونا ایک بْرے سودے سے بہتر ہو گا۔
لائے اس بت کو آشنا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
امریکہ اور ایران میں پھر سے صلح ہو گئی ہے۔اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی لیڈر امریکہ کو '' شیطانِ بزرگ‘‘ کہتے رہے اور امریکیوں نے ایران کو '' بدی کا محور‘‘ قرار دیا۔صلح کا ماڈل ساری دنیا کو اپنانا چاہیے۔مکالمہ جنگ و جدل کا اچھا نعم البدل ہے۔امریکہ اور یورپی یونین کے بینکوں نے ایران پر اقتصادی اور معا شی تعزیریں عائد کرتے وقت اربوں ڈالر کے ایرانی اثاثے ضبط کر لئے تھے جو بتدریج واگزار کر دیے جائیں گے۔ نو کروڑ ایرانی عوام‘ جوعالمی مقاطعے کی چکی میں پس رہے تھے پھولے نہیں سماتے۔ منگل کو افطار کے بعدوہ تہران اور دوسرے شہروں کے گلی کوچوں میں نکلے اور بستی بستی جشن کا سماں بندھ گیا۔ صدر حسن روحانی نے اس معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔خلیج سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اس پر فریقین کو مبارک باد دے رہے ہیں۔پاکستان خوش معلوم ہو تا ہے اور ایران کے ساتھ اپنی تجارت کو توسیع دینے کے منصوبے بنا رہا ہے۔امریکی وزیر دفاعAshton Carter اسرائیل کو اس کا قائل کرنے کے لئے تل ابیب روانہ ہو گئے ہیں جس کے وزیر اعظم اب بھی اس معاہدے کو ساری دنیا کی تاریخ ساز غلطی کہتے ہیں۔ مسٹر اوبامانے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیزکو فون کرکے معاہدے کی وضاحت کی۔ایران اور امریکہ کی کشیدگی ‘ داعش پر فتح پانے میں مانع تھی۔
مذاکرات '' کچھ لو کچھ دو‘‘ کے اصول پر کئے جاتے ہیں۔امریکہ اور ایران نے اس سمجھوتے کے لئے بہت کچھ کھویا ہے۔ مثلاً اس گفت و شنید کے دوران اوبامااور ان کے عہدیداروں نے یہ اصطلاح'' کوئی سودا نہ ہونا ایک بْرے سودے سے بہتر نہیں‘‘ با ر بار استعمال کی مگر منگل کی صبح سویرے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بولے: ''کوئی سودا نہیں ہو گا‘ کا مطلب ہے مشرق وسطیٰ میں جنگ‘‘۔ یہ کانگرس کو سمجھوتے کا قائل کرنے کی کوشش تھی جس کے بہتّر ریپبلکن اس کی تائید کر بھی چکے ہیں اور اقلیتی ڈیموکریٹوں کے ووٹ ان کی جھولی میں ہیں۔ علاوہ ازیں اس نے اسرائیل اور سعودی عرب جیسے دوستوں کی ناراضگی مول لی ہے۔دو سال پہلے حسن روحانی نے اعلان کیا تھا کہ افزودہ یورینیم کے موجودہ ذخائر کو ہٹانا ایک ایسی سرخ لکیر ہے‘ جسے وہ پار نہیں کریں گے۔سودا ایران سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے افزودہ یورینیم کے ذخائر کو دس ہزار کلو گرام سے کم کرکے تین سو کلو گرام پر لے آئے گا۔گویا وہ اپنے سنٹری فیوجز کی تعداد انیس ہزار سے گھٹا کر چھ ہزار کرنے پر مجبور ہو گا۔سنٹری فیوج وہ مشین ہے جویورینیم کو انرچ کرتی ہے۔جو چیز مغرب کے ہاتھ آئی‘ وہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کو ایران کے خلاف اقتصادی تعزیروں پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے‘ جیسا کہ اوبامانے اپنی تقریر میں کہا‘ یہ سودا اعتماد کی بجائے تصدیق پر مبنی ہے۔اگر ایران اس معاہدے پر عمل درآمد میں ناکام ہوتا ہے تو پینسٹھ دن کے اندر تعزیریں دوبارہ لگ جائیں گی‘ تہران کو اسلحے کی رسد مزید پانچ سال معطل رہے گی اور ایران کے بیلسٹک ( دور مار) میزائل پروگرام پر پا بندیاں آٹھ سال چلیں گی۔اس میں ثالثی کی شق بھی رکھی گئی ہے۔
اب جب کہ تجارتی پابندیاں ختم ہو گئی ہیں پاکستان‘ ایران سے قدرتی گیس لینے کے لئے دو ملین ڈالر کی پائپ لائن بنا سکتا ہے جو بلوچستان‘ سندھ اور پنجاب سے ہوتی ہوئی نئی دہلی تک جا سکتی ہے۔ گویا پاک چین اقتصادی کوریڈور کے بعد اس پائپ لائن کی تعمیر سے سارے جنوبی ایشیا کو فائدہ پہنچے گا۔صارفین کو سستے داموں گیس کی ترسیل اور حکومتوں کے محصول میں بیش بہا اضافہ اس کے نمایاں پہلو ہیں۔ سمجھوتے کے نتیجے میں امریکی کمپنیاں ایران سے بحیرۂ کیسپین کے کیویار ( مچھلی کے قیمتی انڈے)‘ پستہ ‘قالین اور زیادہ کچھ درآمد کر سکیں گی۔صارفین کے لئے اس میں تیل مزید سستا ہونے کی نوید ہے مگر ایک سال سے پہلے نہیں‘ جب ایرانی خام تیل (کروڈ) تجارتی پابندیوں سے آزاد ہو گا۔امریکہ قدرتی گیس میں پہلے ہی خود کفیل ہے اور شیل ٹیکنالوجی کی ترقی کے بل پر تیل کے معاملے میں بھی جلد خود کفیل ہو جائے گا؛ اگرچہ ماحولیات کے علم بردار اس ٹیکنالوجی کو انسانی بود و باش کے منافی سمجھتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں