انسانی بھگدڑ

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک دن میں بھی جمرات کے اوپر کھڑا تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک کنبہ تھا جو بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے آ یا تھا۔ یہ کنبہ اپنے لباس کی وجہ سے پاکستانی لگتا تھا۔ منیٰ میں ہجوم نہ ہونے کا سبب یہ تھا کہ وہ حج بیت اللہ کے دن نہیں تھے۔ عمرہ تو تقریباًسارا سال ہوتا ہے۔ اوپر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے رمی کی دوسری منزل سمجھنا چاہیے۔ سڑکیں یا راہداریاں زیر تعمیر تھیں اور نیچے تین پتھر نظر آ رہے تھے۔ یہ اولیٰ‘ وسطی اور عقبی نام کے ابلیس تھے جو حضرت ابراہیمؑ کو راہ حق سے بہکانے کے لئے آئے تھے اور خدا کے حکم کی تعمیل سے اجتناب کا مشورہ دے رہے تھے۔ وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو کر علامتیں بن گئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کے بندوں کی سنگ باری کا ہدف ہو کر رہ گئے۔
اصل میں یہ پتھر گول اور چھوٹے تھے اور زائرین انہیں کنکریاں مارنے میں دشواری محسوس کرتے تھے۔ 2004ء میں ان پتھروں کی جگہ مدور دیواریں بنا دی گئیں۔ 2007ء میں ان پتھروں کو پْل میں تین راہداریوں سے اوپر کی جانب وسعت دی گئی۔ اب زائرین پانچ میں سے کسی ایک سطح سے شیطانوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں‘ جو چھ مناسک حج میں سے ایک ہے۔ جمرات کا پْل دنیا بھر میں پیدل چلنے والوں کے لئے سب سے بڑا پْل ہے۔ یہ پْل 1963ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کئی بار اسے توسیع دی گئی ہے۔ 2006ء میں اس کی ایک بْرجی (سپین) ڈھا دی گئی اور ایک سے زیادہ سطحوں کے پْل کی تعمیر شروع ہوئی‘ جو بھاری اژدحاموں کو بہ حفاظت آگے جانے کی سہولت دینے کے لئے بطور خاص ڈیزائن کیا گیا تھا۔
اسی شام‘ میں مسجدالحرام میں بے ہوش ہو کر گرا اور اہلکاروں نے اٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا۔ حج کے حالیہ موسم میں جمرات کی بھگدڑ کے بعد‘ جس میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے‘ بہت سے زخمیوں کو النور میں داخل کرایا گیا۔ یہ وہی ہسپتال ہے‘ جہاں سے مجھے پیس میکر کا تحفہ ملا تھا۔ گھر والوں کو اصرار تھا کہ میں مکہ معظمہ سے واپس آ جاؤں مگر ڈاکٹر محمد مورسی نے کہا: جس نے بلایا ہے اگر اسے سلام کئے بغیر لوٹ گئے تو قیامت کے دن کیا منہ دکھاؤ گے۔ ایک ہفتے کے بعد ہسپتال سے چھٹی ملنے پر مدینہ طیبہ پہنچا۔ مسجد نبوی کی زیارت کی اور چند دن دیار حبیبؐ میں گزار کر جب جدہ واپس جا رہا تھا‘ تو مکہ شریف کو قریب پا کر میں نے خدا سے ایک دعا مانگی جو گرین ٹاؤن لاہور کے بزرگ محمد عارف کی دعا سے‘ جو بھگدڑ میں شہید ہوئے‘ مختلف تھی۔ سفید ریش عارف صاحب کے ایک بیٹے نے ٹیلی وژن کے ناظرین کو بتایا کہ حج پر روانگی سے پہلے انہوں نے اہل خانہ سے کہا تھا کہ اگر میں وہاں کا ہو کر رہ جاؤں تو کتنا مزہ آئے۔ عارف کی دعا قبول ہوئی۔ میں نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا تھا کہ اب تک کوئی وصیت نہیں لکھوائی‘ گھر کے کئی اور کام باقی ہیں‘ دفتر سے بھی فارغ خطی لینی ہے‘ اگر مجھے واشنگٹن پہنچا دیا جائے تو اچھا ہو۔ یہ دعا بھی منظور ہوئی۔ جو لوگ حج یا عمرے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے انہیں یاد ہو گا کہ مسجدالحرام سے جنازے کے اعلانات مسلسل نشر ہوتے رہتے ہیں۔ کراچی کے ایک بزرگ ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ میں نے انہیں نہیں دیکھا‘ مگر ان کی دیکھ بھال پر مامور ان کے صاحبزادے سے اکثر ملاقات ہوتی تھی۔ جس دن میں ہسپتال سے فارغ ہوا اور مزدلفہ روڈ پر ٹیکسی میں بیٹھنے لگا‘ تو وہ شخص بھاگتے ہوئے آیا اور اس نے اطلاع دی کی والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور والدہ کی اجازت سے انہیں مکہ کے قبرستان میں دفن کیا جا رہا ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے 'مکہ ڈائری‘ شائع کردہ سنگ میل)
کنبھ میلے کے بعد‘ انسانوں کا یہ اکٹھ سب سے بڑا ہے اور ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وجہ؟ نصف صدی میں مسلمان بڑی تعداد میں ترک وطن کرکے مغرب میں آباد ہوئے اور نسبتاً خوشحال ہیں۔ ہوائی سفر آسان اور سستا ہے اور مکہ و مدینہ میں ہوٹل سستے ہیں۔ مسلم اکثریت کے ملکوں میں بالعموم متوسط طبقے میں توسیع ہوئی ہے اور ایک سے زیا دہ حج کرنے کا رواج ہے ۔ گو صاحب ِ استطاعت لوگوں پر زندگی میں ایک بار حج فرض ہے مگر میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو ہر سال حج پر جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ ہر سال سعودی عرب کا سفر اختیار کرنا لازم ہے۔ ہندوستان‘ حکومت کے منظور نظر شہریوں کو ہر سال حج کراتا ہے۔ پاکستان بھی اپنے کئی سو شہریوں کو حج پر بھجواتا ہے اور وہ مفت یہ سعادت حاصل کرتے ہیں۔ سعودیہ اس رجحان پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک جگہ پر بیس لاکھ انسانوں کا انتظام آسان نہیں۔ بالخصوص اس اندیشے کے تحت کہ حاجیوں سے دنیا میں کوئی وبا بھی پھیل سکتی ہے اور حفاظتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ بھگدڑ انسانی تھی۔ وہ سب منیٰ میں اپنے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سفید گول خیموں سے نکلے تھے اور پاس ہی پانچ منزلہ عمارت سے شیطان کو کنکریاں مارنے کی رسم ادا کر رہے تھے۔ یہ خیمے سارا سال لگے رہتے ہیں ۔یہاں کوئی مستقل آبادی نہیں۔ ڈھانچے کی شمالی طرف کنگ فہد روڈ اور جنوبی جانب کنگ عبدالعزیز روڈ ہے۔ سڑکوں یا گلیوں کے لئے عربی مترادف 'مکتب ‘استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ہجوم مکتب 223 پر جنوب مغرب کی طرف جا رہا تھا اور دوسرا مکتب نمبر 204 پر شمال مغرب کی جانب بڑھ رہا تھا۔ چوراہے میں دونوں کا ٹاکرا ہوا اور بھگدڑ میں زائرین کچلے گئے یا دم گھٹنے سے شہید ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ تقریباً 131 ایرانی اور 52 پاکستانی تھے۔ بھگدڑ کا پس منظر المناک طور پر سادہ ہے۔ انسانوں کا ایک اژدحام، جسے ایک مخصوص جگہ میں سختی سے بند کر دیا گیا ہو‘ آگے بڑھتا ہے جبکہ حادثے کی صورت میں ان کے لئے مڑنے یا واپس ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ وہ منظر ہے جو اکثر ہولناک ثابت ہوا ہے‘ نہ صرف مکہ شریف میں بلکہ سیاسی جلوسوں‘ موسیقی کی محفلوں‘ کھیلوں کے اجتماعات اور مذہبی تقریبات میں بھی۔ جب لوگوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے دبایا جاتا ہے تو محققین کے بقول یہ ضروری ہے کہ جو لوگ سامنے ہوں وہ تیزی سے چلتے رہیں بصورت دیگر پیچھے آنے والے افراد جو آگے چلنے والوں کو دیکھنے سے قاصر ہوں گے‘ مزید جگہ پانے کی خاطر آگے بڑھیں گے‘ یہ فرض کرکے کہ ان سے آگے جانے والے خود ان کے لئے جگہ بنانے کے لئے حرکت میں رہیں گے۔ اگر دونوں کے قدم آپس میں نہ ملیں تو سامنے والے کچلے جاتے ہیں۔ ہجوم کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو مار ڈالتی ہے، خواہ وہ کسی بھی جگہ کھڑے ہوں۔
تقریباً ہر سال حج کے موقع پر بھگدڑ‘ آتشزدگی‘ زہر خورانی اور ایسے اندوہناک واقعات رونما ہوتے ہیں‘ مگر حالیہ المیہ اس ربع صدی میں سب سے زیادہ اموات کا سبب بنا ہے‘ بالخصوص دو ہفتے قبل خانہ کعبہ میں کرین گرنے کے حادثے کے بعد‘ جس میں ایک سو سے زیادہ لوگ شہید ہوئے۔ 2006ء میں ایسی ہی ایک بھگدڑ میں 340 افراد مارے گئے۔ 1997ء میں خیموں میں آگ لگنے سے 340 لوگ شہید ہوئے۔ 1994ء میں مزید 270 لوگ کام آئے۔ 1990ء میں ایک سرنگ میں حد سے زیادہ بھیڑ ہو جانے کے باعث 1426 زائرین جاں بحق ہوئے۔ ''میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں‘‘ سعودی حکام نے تحقیقات کا نتیجہ سامنے آنے سے پہلے‘ حاجیوں پر یہ الزام لگا دیا کہ انہوں نے ہدایات پر دھیان نہ دیا اور صدر حسن روحانی نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا دیا۔ دونوں میں سے کسی نے اسلامی ملکوں کی تنظیم سے رجوع نہ کیا۔ سانحہ بہت بڑا تھا مگر اس سے خود کش حملوں کے دور میں زندگی کی قدر و قیمت ایک بار پھر اجاگر ہو گئی ہے۔ آخر یہ انسان کو قدرت کا انمول تحفہ ہی تو تھا‘ جسے بچانے کی کوشش میں اتنے زیادہ لوگوں نے اپنی جانیں دیں۔ حالیہ المیے کے بعد دو ہمسایہ ملکوں میں الفاظ کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اس سانحے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے تو بہتر ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں