وہ ٹیلی وژن پر لاہور کا الیکشن دیکھتے رہے !

واشنگٹن میں ملین مین مارچ کی بیسویں سالگرہ گزشتہ ہفتے منائی گئی اور ہزاروں کالے انصاف مانگنے کے لئے ایک ایسے وقت قومی دارالحکومت میں سارے ملک سے وارد ہوئے جب امریکہ میں سیاہ فام مردوں کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں اور لوگ پہلے سے زیادہ ناراض ہیں۔ بیس سال پہلے مطالبہ افریقی امریکی مردوں سے تھا کہ وہ توبہ و استغفار کے ساتھ اپنے کنبوں سے وابستگی کا عہد تازہ کر یں۔ اس مرتبہ بڑا مطالبہ حکو مت سے تھاکہ وہ افریقی امریکیوں کی حفاظت کا اہتمام کرے۔ '' نیشن آف اسلام ‘‘ کے لیڈر لوئس فراخان نے، جو دونوں اجتماعات کے داعی تھے،امریکی سیاہ فاموں پر زور دیا کہ وہ ایسی چیزوں کی خریداری سے اجتناب کریں جن کی ملکیت کچھ وقت کے لئے ٹالی جا سکتی ہو تا کہ اس '' درد ‘‘ کو بانٹا جاسکے جو بہت سے لوگ محسوس کر رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس تشدد کو دبانے کے لئے، جو ہماری بستیوں پر حاوی ہے، دس ہزار '' بے خوف‘‘ مردوں کی ایک آرمی تیار کر یں گے۔ ان دو عشروں میں دنیا بدل گئی ہے ۔ بارک اوباما جو اْس وقت شکاگو سے الی نائے کی سینیٹ کی رکنیت کے امیدوار تھے اور کالے مردوں کے اس اکٹھ میں شریک تھے اب اس ملک کے صدر ہیں اور کیلی فورنیا میں اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے۔کالے لوگ آج انتظامیہ کے علاوہ ملٹری‘ عدلیہ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں مگر پچھلے کچھ عرصے میں گورے پولیس والوں کے پستول سے مرنے والے کالے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور جیلوں میں سیاہ فام مردوں کی تعداد‘ آبادی ( تیرہ فیصد) میں ان کے حصے سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ اجتماع پرانے محل وقوع سے ذرا ہٹ کر جنوب مشرق کی طرف یادگار واشنگٹن کے سائے میں لنکن کے مجسمے کے عقب میں اور عکسی تالاب کے دونوں جانب نیشنل مال پر منعقد ہوا۔اگرچہ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی تعداد ‘ گزشتہ اجتماع سے کم تھی، مگر بڑی عمر کے لوگوں کی جگہ نوجوانوں نے لے لی تھی۔جیسی جیکسن اور ایل شارپٹن سٹیج سے غیر حاضر تھے اور نوری محمد نظامت سنبھالے ہو ئے تھے۔نیشن کے جتنے مقرر لائے گئے ان سب نے حاضرین کو جن میں بھاری اکثریت مسیحی سیاہ فا موں کی تھی، السلامُ علیکم کہا اور اللہ کی توصیف کی۔لوئس فراخان نے دو گھنٹے کی تقریر کے ابتدا میں عربی کو اپنی مذہبی زبان کہا اور حضرت موسیٰ ؑ ‘حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمدﷺ کی مدحت کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت کی۔انہوں نے کہا:''وفاقی حکومت عوام کی حفاظت اور انہیں ضروریات زندگی کی ترسیل میں ناکام رہی ہے۔ دنیا میں کوئی حکومت ایسی نہیں ‘ ایک بھی نہیں جو عوام کو آزادی‘ انصاف اور مساوات دے سکے جن کے لوگ خواہش مندہیں۔ آپ ایک ایسی چیز کے لئے ترس رہے ہیں جو حکومت آپ کو نہیں دے سکتی‘‘۔انہوں نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ اپنی زندگیوں کوبہتر بنائیں اور اللہ پر یقین تازہ کریں۔
'' انصاف یا پھر ‘‘ اس ریلی کا نعرہ تھا۔ فراخان نے ریڈ انڈینز کو یہ کہہ کر ساتھ ملانے کی کوشش کی کہ ساری قوم کولمبس ڈے نہیں مناتی کیونکہ اس نے امریکہ میں داخل ہو کر اس سرزمیں کے اصل باسیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی تھی۔یہ ایک قومی تعطیل تھی جو دو دن بعد آنے والی تھی۔اجتماع میں امریکہ کے اصل باشندے اپنے قومی لباس میں ملبوس موجود تھے۔ اس اجتماع میں بڑ ی تعداد میں میکسیکن بھی شریک تھے جنہوں نے اس مفہوم کا کتبہ اٹھا رکھا تھا '' اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ میں غیر قانونی ہوں کیونکہ میں میکسیکن ہوں تو آپ اس ملک کی سچی تاریخ پر نظر ڈالیں آپ کو معلوم ہوگا کہ میں اپنے وطن میں بے گھر ہوں ‘‘ صف اول کے ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ کو وسیع تر پذیرائی یہ کہنے پر حاصل ہوئی کہ غیر قانونی میکسیکن جرائم پیشہ ہیں۔فراخان نے گزشتہ سال اٹھنے والی ایک تحریک MATTER LIVES BLACKسے بھی اپنا رشتہ جوڑا یہ کہہ کر کہ یہ کوئی '' لمحہ‘‘ نہیں بلکہ ایک'' تحریک‘‘ ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔بلیک لیڈر نے کہا: ''جب فر گوسن میں بھائی اور بہنوں نے سرتابی کی آپ کے پاس پیسہ نہیں تھا۔آپ کے پاس صرف ایک اصول تھا، ایک اصول، جس کے لئے آپ تکلیف اٹھانے کے لئے تیار تھے اور جسے اپنی ذات ‘ زندگی اور درد سہنے پر آمادگی سے بڑا خیال کرتے تھے۔‘‘ فرگوسن ‘ مزوری ان دو درجن سے زیادہ مقامات میں سے ایک ہے جہاں سفید فام پولیس نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران سیاہ فاموں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ مائیکل براؤن اور دوسرے مقتولوں کی مائیں اس اجتماع میں مو جود تھیں اور نیو یارک کے ایرک گارنر کی والدہ بھی، جس نے پولیس کے آہنی شکنجے میں آکر شکایت کی تھی کہ اس کا سانس رک گیا ہے۔وہ سٹیٹن آئی لینڈ کے گلی کوچوں میں منشیات فروخت کرتا تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی روزگار نہ تھا۔افریقی امریکیوں میں بے روز گاری کی شرح بھی گوروں کی نسبت زیادہ ہے۔ گارنر کا آخری جملہ‘ ان بہت سی ٹی شرٹس پر کندہ تھا جو اس اجتماع میں دیکھی گئیں۔
فراخان کی جانب سے گو صلائے عام تھی اور ہزاروں سیاہ فام ذاتی گاڑیوں،بسوں اور ہوائی جہا زوں میں دور و نزدیک سے ایک پْر امن مظاہرے کے لئے واشنگٹن پہنچے تھے مگر پاکستانی امریکی اس اجتماع میں دکھائی نہیں دیے۔ وہ غالباً اتوارکی ہفتہ وار تعطیل کے پیش نظر گھروں میں اپنے ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے ایا ز صادق اور علیم خان ( نواز شریف اور عمران خان) کا مقابلہ دیکھ رہے تھے۔انہوں نے یہ ضمنی الیکشن امریکہ میں نہیں دیکھا ہو گا جس کا آغاز گولیوں کی تڑا تڑ‘ قتل کی دھمکیوں اور دھینگا مشتی کی آوازوں کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ تارکین وطن کا واحد گروپ ہے جس نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی شاخیں قائم کی ہیں اور جو امریکہ کے ''دورے‘‘ پر آنے والے سیاسی لیڈروں کی تواضع دیسی ریستورانوں میں کرتے ہیں۔ مارچ کی سلور جوبلی میں ان کے سیکھنے اور کرنے کو بہت کچھ تھا۔
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے اس مظاہرے کا رد عمل بھی سامنے آیا اور کم از کم بیس شہروں میں جوابی مظاہرے بھی ہوئے مگر کسی جگہ کوئی بڑا نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہر چند کہ ان مظاہروں کے منتظمین نے شرکا سے اپیل کی تھی کو وہ '' اپنے دفاع کے لئے ‘‘ اپنا اسلحہ ساتھ لائیں۔ انتہا پسندوں کے ایک گروہ کی طرف سے جو بیان جاری ہو ا اس میں ایک نعرہ تھا :'' مساجد کو بْل ڈوز کر دو‘‘ مگر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کوئی نہیں آیا۔مسلمان خواہ امریکہ میں ہوں یا پاکستان میں وہ بہت سے فرقہ وارانہ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، مگر جب غیر مسلم ان پر حملہ کرتے ہیں تو وہ ان کا مسلک نہیں دیکھتے۔نائن الیون کے بعد وہ غلط فہمی میں دو سکھوں کوبھی موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔
ڈینس محمد ‘ عمر45 سال ‘ جو اپنی کمیونٹی کے35 ارکان کو ایک بس میں لے کر اٹلانٹا جارجیا سے اس اجتماع میں شریک ہوا '' سب لوگوں کے لئے انصاف کے مقصد سے دوسرے حاضرین کے ساتھ کھڑا تھا بالخصوص اپنے ان لوگوں کے لئے جو پولیس کے جوشیلے پن یا ظلم کا نشانہ بنے۔‘‘ اس نے ساؤتھ کیرولا ئنا کے والٹر سکاٹ کا ذکر کیا جسے پولیس نے نارتھ کیرو لائنا میں جا مارا اور قانونی تصفیے میں مقامی حکومت نے اس کے لواحقین کو معاوضے کے طورپر6.5 ملین ڈالر ادا کئے۔ اگلے دن ایک سیاہ فام نوجوان کو ایک گوری ماں کے شبہے کی بنا پر پولیس نے واشنگٹن کے علاقے میں پکڑا اور اسے گرفتار ظاہر کرنے کی بجائے نظر بند لکھا۔سماجی لیڈر پولیس پر نکتہ چینی میں احتیاط سے کام لیتے ہیں کیو نکہ ان کے بغیر معاشرتی سکون کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تا ہم ان کی وردی میں کیمرے شامل کے جا رہے ہیں جو چھا پے پر ان کی روانگی سے قبل خود بخود چالو ہو جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں