بھارت: اکھنڈ یا سیکولر؟

یہ دیسی سیاحوں کی بس تھی اور تاج محل سے واپس نئی دہلی جا رہی تھی۔ آگرہ سے چند میل دُور وہ متھرا کا موڑ مڑ گئی جہاں کرشن مہاراج کا بڑا مندر ہے۔ اب وہ بندرا بن سے گزر رہی تھی جہاں ہندو دیوتا ''جمنا کے تٹ پر‘‘ بنسی بجایا کرتے اور اپنی گائیاں چرایا کرتے تھے۔ یہ علاقہ تیرتھ استھانوں سے پُر ہے۔ ایک شخص نے‘ جو بظاہر گائیڈ تھا‘ مائک سنبھالا اور یاتریوں کو بندرا بن کی اہمیت بیان کرنے لگا۔ جب اس نے یہ کہا کہ ان سب مندروں کی ''سیوا‘‘ (تجدید و آرائش) نریندر مودی نے کرائی ہے تو بس کے کچھ مسافر بھڑک اٹھے۔ ایک بولا: رہنے دو سارا اتہاس‘ ہم سب یہ باتیں پہلے بھی سن چکے ہیں۔ اس ہنگامے میں یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ معترض‘ مودی کا مخالف ہے یا تاریخ پر اپنا اعتراض جڑ رہا ہے۔ مودی اس وقت ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ دُور گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور ودودھرا (سابق بڑودا) کے قتل عام کی صدارت کر چکے تھے۔ امریکہ نے اسی بنا پر ان کے داخلے پر پابندی عائد کی۔ اب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں‘ واشنگٹن میں مقبول ہیں‘ اور ان کے چھپر تلے ملک کی انتہا پسند جماعتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔
بارک اوباما اور نواز شریف کی میٹنگ کا ایجنڈا بالواسطہ طور پر انہی جماعتوں نے ترتیب دیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ جو اس وقت اقتدار میں ہے‘ کا انتہا پسند دھڑا 'شو سینا‘ راشٹریہ سیوک سنگ اور وشوا ہندو پریشد ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور ان کے بالمقابل ہمسایہ پاکستان میں طالبان‘ لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ وغیرہ ابھری ہیں۔ پاکستان کا جوہری پروگرام بھی بھارت کے ایٹم بم کے تجربے کا جواب تھا‘ اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی خاطر شروع کیا گیا تھا۔ پاکستان اپنے منصوبے کے فوجی پہلو کو ہاتھ نہیں لگانے دے گا‘ مگر وہ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا اسی طرح طلب گار ہے‘ جس طرح ہندوستان تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کی مخاصمت دراصل اڑسٹھ سال پہلے برصغیر کی تقسیم کا نتیجہ ہے‘ جو دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگوں کا باعث بن چکی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کوئی اور جنگ نہ ہو‘ جو بڑھ کر ایٹمی تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی انتہا پسند پارٹیاں‘ جو ایٹمی تصادم کے نتائج سے بے خبر ہیں‘ یا بے خبر رہنا چاہتی ہیں دونوں ملکوں میں لڑائی چاہتی ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنا دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘ مگر ان ملکوں کی حکومتوں کا رویہ جدا جدا ہے۔ پاکستان میں ضرب عضب جاری ہے‘ جبکہ ہندوستان میں حکومت بوجوہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو شُدھی یا پاکستان چلے جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور یہاں امریکہ میں بھی مسجدوں کو بلڈوز کرنے کے انتباہ کئے جاتے ہیں‘ مگر بھارت اور پا کستان کی نسبت امریکہ میں قانون زیادہ سرگرمی سے مجرموں کا تعاقب کرتا ہے۔ کئی سندھی ہندو‘ وڈیروں کے مظالم سے تنگ آکر کھوکھرا پار کے راستے بھارت جا چکے ہیں‘ اور اسی طرح بغیر پاسپورٹ اور ویزا لاکھوں افغان ڈیورنڈ لائن کے پار پاکستانی علاقے میں جا بسے ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی سکھ بھارت میں گورو گرنتھ صاحب کی بے حُرمتی پر نالاں ہیں۔پاکستان میں بھی مسیحی جوڑے پر مذہبی توہین کا الزام لگا کر زندہ جلانے کا واقعہ رونما ہو چکا ہے۔ 
کارگل کی جنگ میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی‘ جب نواز شریف یوم آزادی کی تعطیل کی پروا کئے بغیر واشنگٹن آئے تھے‘ اور صدر کلنٹن سے یہ توقع وابستہ کی تھی کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے خلاف ایک مکمل جنگ چھیڑنے سے باز رکھیں گے۔ اب کے حالات ایسے گمبھیر نہیں مگر انتہا پسند ہندوئوں نے میکال حسن اور غلام علی کے کنسرٹ منسوخ کرا کے‘ گائے کا گوشت کھانے یا بیچنے کے شبہے میں ہم و طنوں کو ہلاک کرکے‘ خورشید محمود قصوری کی کتاب کے ناشر کا منہ کالا کرکے اور اب دونوں ملکوں میں کرکٹ کی ہیئت حاکمہ میں ملاقات اور دو ماہ بعد ممکنہ پاکستان انڈیا کرکٹ سیریز منسوخ کرا کے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ ہندوستان غیر ملکی سیاحوں کا بھی مکہ ہے‘ بالخصوص پراچین بھارت دیکھنے کے خواہش مندوں اور سستے علاج معالجے کے لئے نئی دہلی کا رخ کرنے والوں کے لئے بھارتی دہشت پسندوں کے آسٹریلوی اور آسٹروی سیاحوں پر حملے دنیا بھر کے سیاحوں کو اچھا پیغام نہیں دیں گے۔ کم و بیش چالیس اہل قلم کا ایوارڈ واپس کرنا اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بعض دوسرے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں کچھ سیاست گری بھی کارفرما ہے۔ گجرات میں الیکشن ہونے والے ہیں اور کانگرس نے دلت کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔ اگر کانگرس اس ریاست میں جیت جاتی ہے تو مودی سرکار کی بنیادیں ہل جائیں گی اور ایک بار پھر اکھنڈ بھارت کی جگہ سیکولر ہند کا بول بالا ہو گا۔
اودھم پور‘ جموں میں نوجوان ٹرک ڈرائیور زاہد رسول کا قتل‘ مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں میں دیرینہ چپقلش کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ امریکی‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ بیف کھاتے ہیں‘ حیران ہیں کہ ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کیوں ہے؟ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسی طرح جیسا کہ پاکستان میں سور کھانا ممنوع ہے۔ قدامت پسند ہندو گائے کو گئو ماتا کہتے ہیں۔ نوآبادیاتی حکمرانوں نے دونوں بڑی برادریوں کے مذہبی احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے پرنسلی سٹیٹس میں ان دونوں جانوروں کے کاٹنے پر پابندی لگا دی تھی‘ جو اب تک چلی آ رہی ہے اور انتہا پسند ہندو مطالبہ کر رہے ہیں کہ گائے کے ذبیحہ پر پورے ملک میں پابندی لگائی جائے‘ اور جب سے مودی برسر اقتدار آیا ہے‘ یہ مطالبہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی جھڑپیں اس پر مستزاد ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں صدر بارک اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کی میٹنگ گو دو طرفہ تھی مگر اس میں بالواسطہ ہندوستان اور افغانستان سے متعلق پاکستان کی شکایات بھی زیر بحث آئیں‘ اور خطے میں سلامتی اور استحکام کے معاملات پر بھی بات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق توانائی کے قحط نے سٹوو کی پچھلی ہانڈی کی صورت اختیار کر لی تھی گو امریکہ اس مد میں تیرہ سو میگاواٹ کا اضافہ کر چکا ہے۔ یہ سب رسمی میٹنگیں تھیں۔ اس روز امریکہ کے نزدیک بڑی خبر تیسری بار کانگرس کے سامنے ہلری راڈم کلنٹن کی پیشی تھی‘ جس میں ان سے بن غازی میں تین سال پہلے چار امریکیوں کے قتل کے بارے میں سیاسی نوعیت کے مزید سوال کئے گئے اور جس کے دوران انہوں نے کہا کہ پشاور سمیت کئی شہروں میں تعینات امریکی اہلکاروں نے سبق حاصل کیا۔ مسز کلنٹن اس وقت سیکرٹری آف سٹیٹ تھیں اور اب صدارت کے لئے ڈیموکریٹک ٹکٹ کی سرکردہ امیدوار ہیں۔ ایک دن پہلے نواز شریف نے ایوان اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کے ارکان سے ملاقاتیں کی تھیں جب کانگرس‘ جن میں ری پبلکن اکثریت کے دونوں ایوان شامل ہیں‘ ہاؤس کے سپیکر کی تلاش میں تھی‘ جو صدر اور نائب صدر کے بعد تیسرا بڑا منصب ہے اور اوباما سے مل کر نوازشریف سامنے سرکاری مہمان خانے بلیر ہاؤس پہنچے اور پاکستانی پریس کو صدر سے اپنی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے اخبار نویسوں کو بتایا گیا کہ نوازشریف نے لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات کے بارے میں بتایا اور دونوں لیڈروں نے فریقین پر زور دیا کہ کشمیر سمیت باہمی مسائل پُرامن مذاکرات سے طے کریں۔ اوباما نے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی میز پر لانے کا شکریہ ادا کیا‘ اور کہا کہ پاکستان جنگجوئوں کو کابل کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش جاری رکھے۔ وزیر اعظم نے لشکر طیبہ اور دوسری کالعدم تنظیموں کے خلاف پاکستانی اقدامات سے باخبر کیا۔ علاوہ ازیں ''باہمی دلچسپی‘‘ کے امور پر‘ جن میں اقتصادی نشوونما‘ تجارت اور سرمایہ کاری‘ عالمی صحت‘ تبدیلی آب و ہوا‘ نیوکلیئر سکیورٹی‘ دہشت گردی کے توڑ اور علاقائی استحکام شامل ہیں‘ بات ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں