سرخ گوشت

ایک ایسے وقت جب پاکستان میں مٹن اور بیف کے نام پر گدھے اور خنزیر کا گوشت فروخت ہونے کا شبہ ہے‘ اور ہندوستان میں ''گئو ماتا‘‘ کا ماس کھانے کے شبہے میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ عالمی ادارہ صحت نے صارفین کو ہر قسم کے گوشت کی کھپت کم کرنے کا مشورہ دیا ہے‘ سرخ گوشت اور سرطان میں ایک تعلق قائم کیا ہے اور مہک بڑھانے اور زیادہ دیر گاہکوں کو پیش کرنے کی غرض سے نمک لگانے‘ محفوظ کرنے اور خمیر اٹھانے کے ایک عمل سے گزرنے والے گوشت Processed Meat کو بڑی آنت کے کینسر کا سبب گردانا ہے۔ پاکستان میں یہ بیشتر چیزیں حرام ہیں۔ ان سے ملتا جلتا جو گوشت وہاں دستیاب ہے وہ ہنٹر بیف کہلاتا ہے‘ جو اونچے طبقوں میں سینوچ بنانے کے کام آتا ہے۔ عام پاکستانی کلو یا آدھ کلو تازہ گوشت خریدتے اور پکا کر کھاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے خیال میں یہ گوشت بھی سرطان پیدا کرتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب افغانستان‘ پاکستان اور بھارت میں ایک عدیم المثال زلزلے نے تباہی پھیلادی ہے‘ جس کے پیش نظر وزیر اعظم نواز شریف کو واشنگٹن سے لوٹتے ہوئے اپنا لندن کا قیام مختصر کرنا پڑا‘ اور انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو ایک اور آفتِ سماوی کے پیش نظراپنا واشنگٹن کا دورہ قطع کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسی دوران سائنسدانوں کے حوالے سے یہ وحشت اثر خبر آئی کہ صدی کے آخر تک دبئی‘ ابوظہبی‘ قطر اور خلیج فارس کے بعض دوسرے شہروں میں درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہو جائے گا کہ کسی انسان یا جاندار کا وہاں بچ رہنا محال ہو گا‘ اور میں سائنسدانوں کا یہ انتباہ قارئین تک پہنچا چکا ہوں کہ گلیشیئرز پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہو گی اور کراچی اور ممبئی جیسے ساحلی شہر غرق آب ہو جائیں گے‘ مگر ان پیشگوئیوں کا وقت ابھی دْور ہے۔ صدر ''جوکووی‘‘ کو اطلاع ملی تھی کہ جنگل کی آگ نے نہ صرف انڈونیشیا بلکہ ملائشیا اور سنگاپور پر بھی کاربن ڈائی آکسائڈ (مضر صحت گیس) کی ایک چادر تان دی ہے‘ جو کوئلہ پر انحصار کرنے والے چین اور جاپان کی سالانہ آلودگی کے برابر ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ خطرناک کہر کئی عشروں سے چھائی ہوئی ہے‘ جو اس خطے میں جانے والے دوسرے پاکستانیوں نے بھی دیکھی ہو گی۔ وائٹ ہاؤس نے اس بلا سے نبٹنے کے سلسلے میں انڈونیشیا کی امداد کے لئے ایک لائحہ عمل کا اعلان کیا‘ حالانکہ نقصان دہ گیس کا یہ اخراج (ایمشن) ساری امریکی اکانومی کے یومیہ خرچ سے بھی زیادہ تھا۔
یہ سب تو دْور کی باتیں ہیں اور بھونچال سے متاثر ہونے والوں کو جو دس سال پہلے آنے والے ایک زلزلے کی تباہ کاریوں سے اب تک نہیں سنبھلے‘ اپنی بحالی کے لئے نہ جانے کتنا انتظار کرنا پڑے گا مگر ڈبلیو ایچ او کے کینسر ونگ کا اعلان‘ فوری طور پر پڑھے لکھے امریکیوں کی خوراک پر اثر انداز ہوا ہے۔ امریکہ میں بیف کی صنعت پچانوے بلین ڈالر کے بقدر ہے‘ جو ظاہر ہے کہ اس رائے کو جھٹلائے گی مگر حکومت بہرحال سائنس کا ساتھ دے گی اور صارفین کے استفادے کے لئے جو ''مخروطی‘‘ چارٹ شائع کرتی ہے‘ اس پر نظر ثانی کرے گی۔ محکمہ صحت کے‘ جو محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر یہ رہنما اصول مرتب کرتا ہے‘ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی عالمی ادارے کی تحقیق کے نتائج ان تک نہیں پہنچے۔ بائیس بین الاقوامی سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں چونتیس ہزار اموات کا باعث‘ عمل سے گزارے گئے گوشت کا زیادہ استعمال ہے جس میں بیکن‘ ہاٹ ڈاگ‘ بیف جرکی‘ ہیم‘ ساسیج‘ کارن بیف‘ ڈبہ بند گوشت‘ ٹرکی یہاں تک کہ چکن کے کولڈ کٹ بھی شامل ہیں۔ ریڈ میٹ میں بکرے‘ دنبے‘ گائے‘ بچھڑے‘ سور‘ بھینس اور گھوڑے کا گوشت شمار ہوتا ہے۔ ''کیا ہم سب سبزی خور ہو جائیں؟‘‘ ہیم برگر کے امریکی متوالے پو چھتے ہیں۔ ''جی نہیں‘‘ سائنسدان جواب دیتے ہیں‘ ''ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ ریڈ میٹ کم کھائیں اور پروسیسڈ میٹ نہ کھائیں‘‘ بہ الفاظ دیگر آپ پودے زیادہ اور جانور کم کھائیں۔ قدرت نے سبزیاں‘ پھل اور دالیں بھی تو آپ کی بقا کے لئے پیدا کی ہیں۔
ادارہ صحت نے جو رپورٹیں بطور نظیر پیش کیں‘ وہ یہ تاثر دیتی ہیں کہ ہر روز تین اعشاریہ پانچ فیصد زائد سرخ گوشت کا استعمال کولوریکٹل کینسر (بڑی آنت کے سرطان) کا خطرہ سترہ فیصد بڑھا دیتا ہے اور عمل سے گزرا ہوا ایک اعشاریہ آٹھ فیصد زائد گوشت سرطان کے خطرے میں اٹھارہ فیصد اضافہ کرتا ہے۔ یہ بڑے خطرات ہیں۔ ادارے نے یہ اعلان کر کے صبح کے ناشتے میں بیکن کھانے والوں اور بیف کی صنعت میں کھلبلی مچا دی ہے کہ اس کے نزدیک پروسیسڈ میٹ تمباکو کی طرح سرطان پیدا کرتا ہے اور غالباً ریڈ میٹ کے اثرات بھی ایسے ہی ہیں۔ سگریٹ کے پیکٹ اور تمباکو کی دوسری مصنوعات پر اس مضمون کی ایک وارننگ درج ہے‘ اب بیف کے پیکٹوں پر بھی ایسا ایک انتباہ متوقع ہے۔
گوشت کے استعمال کی بے خطر سطح کون سی ہے؟ سائنسدانوں نے الکوحل کے استعمال کی تو عمومی سفارشات دی ہیں یعنی ایک ڈرنک یومیہ‘ مگر گوشت کے لئے اب تک ایسی کوئی تجویز نہیں ہے۔ کسی شخص کی ذاتی حیا تیات (بیالوجی) ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور ایک فرد کی بے خطر سطح‘ دوسرے کے لئے بے خطر شاید نہ ہو۔ اس کا انحصار آپ کی باقی خوراک پر ہے۔ آپ ورزش کتنی کرتے ہیں۔ آپ کے جینز کس قسم کے ہیں یعنی والدین نے آپ کو کیسا حیاتیاتی ورثہ دیا ہے اور اس میں کئی دوسرے عناصر بھی کارفرما ہیں۔
امریکن کینسر سوسائٹی کے نزدیک بہت سی تحقیقی رپورٹوں میں سرخ گوشت کی کھپت اور کولوریکٹل کینسر میں ایک ''لنک‘‘ پایا گیا ہے مگر وہ لوگوں کو یہ بتاتے بتاتے رہ جاتی ہے کہ گوشت‘ سرطان کا سبب بنتا ہے۔ کچھ خوراکیں‘ جن میں بہت سی سبزیاں اور پھل شامل ہوں اور ان میں ریڈ اور پروسیسڈ میٹ کم ہوں‘ اکثر سرطان کے کم خطرے سے وابستہ کی جاتی ہیں‘ مگر سوسائٹی کے بقول ''یہ پوری طرح واضح نہیں کہ اس خوراک کے کون سے اجزا اہم ہیں‘‘۔ اسی طرح امریکی حکومت اپنے شہریوں کو پروٹین والی اشیائے خوردنی مثلاً صحت بخش غذا کے طور پر کم چربیلے گوشت کھانے کی ترغیب دیتی ہے۔ خوشبو کے عمل سے گزرنے والے گوشت کے بارے میں البتہ حکومت کی جانب سے یہ عبوری انتباہ کیا جاتا ہے: ''اعتدال کے ساتھ اس امر کا ثبوت موجود ہے کہ زیادہ پروسیسڈ گوشت‘ بڑی آنت کے سرطان اور دل کے عوارض کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔ امریکی حکومت کا ہدایت نامہ یہ اصرار نہیں کرتا کہ پروسیسڈ میٹ‘ کینسر کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں گوشت مہنگا ہے اسی لئے ہوس زر والے دو نمبر کا گوشت صارفین کو کھلا رہے ہیں‘ خواہ اس میں خنزیر‘ گدھے یا کسی اور حرام جانور کا گوشت ہی شامل کیوں نہ ہو۔ امریکیوں نے مہنگائی کا توڑ دریافت کر لیا ہے۔ آپ کئی معاملات میں امریکیوں کی نقل کرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر چاہیں تو اس معاملے میں بھی امریکیوں کی تقلید کر سکتے ہیں۔ اس میں ایڈ یا کوئی اور سرکاری امداد (سبسڈی) درکار نہیں ہو گی۔ امریکی جس شے کو حد سے زیادہ گراں خیال کرتے ہیں‘ اس کی خریداری کم کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج یہاں پٹرول (گیس) دو ڈالر فی گیلن سے کم پر دستیاب ہے‘ جبکہ گزشتہ سال ان دنوں گیس کا بھاؤ تین ڈالر سے زیادہ تھا۔ چینی‘ آٹا‘ چاول‘ دالیں اور دوسری اشیائے خوردنی کے نرخ بھی عام آدمی کی پہنچ میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں