ووٹ کی طاقت

کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کے کم سے کم پچا س شہروں میں بھوکے کو کھانا کھلانا جرم ہے۔ملک کے آدھے شہروں میں کاروں کے اندر سونا منع ہے اور کچھ شہروں میں بنچوں پر بیٹھنے اور لیٹنے کو بھی جرم قرار دیا جاتا ہے۔بہت سے شہروں کی لائبریریوں میں ایسے پنجرے رکھے ہیں جہاں آپ اپنا سازو سامان ناپتے ہیں، یہ جاننے کے لئے کہ وہ اندر آنے کے قابل ہے یا نہیں؟ یہ پنجرے ہوائی اڈوں پر عام دکھائی دیتے ہیں۔جب ساغر صدیقی بے گھر ہوئے تھے تو وہ اپنے بوریا بستر سمیت موری دروازہ (لاہور) کی میونسپل لائبریری کے گول برامدے میں آ پڑے تھے، تو لائبریرین محمدشفیق نے اسے نظر انداز کیا تھا۔اگلے روز ایک اردو ٹیلی ویژن چینل پر سپریم کورٹ کے ایک با ریش وکیل کو ساغر کا ایک شعر پڑھتے سنا ؎
جس شہر میں لْٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس شہر کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ہے
اس ملک میں گودام گھر (سٹوریج) بکثرت ہیں۔لوگ کرائے پر ایک گودام حاصل کرتے ہیں اور اس میں اپنا فالتو سامان رکھ آتے ہیں۔ ان گوداموں کا کرایہ برائے نام ہے، اس لئے اکثر بے گھر بھی انہیں کرائے پر لینے لگے ہیں، اس امید میں کہ وہ رات کا کچھ حصہ ان میں گزاریں گے، مگر گودام گھروں کے مالک ان کے ارادے بھانپ گئے ہیں اور رات ہونے پر انہیں وہاں سے نکالنے لگے ہیں۔اب سنتے ہیں کہ ریگن نیشنل ایئر پورٹ پر ساڑھے گیارہ بجے رات سے ساڑھے چار بجے صبح تک کوئی سوتا پایا گیا تو اسے گرفتار کیا جا سکے گا۔اس ملک میں سرمایہ داری عروج پر ہے، جس میں کسی بے گھر کا زندہ رہنا محال ہو گیا ہے۔کوریا‘ ویت نام اور مشرق وسطی کی لڑائیوں میں ہوش و حواس کھو نے اور بے گھر ہونے والے لوگ بکثرت ہیں اور انہیں اس سردی میں سر چھپانے کے لئے جگہ درکار ہے مگر سرکاری عمارتوں اور نیم سرکاری جگہوں کے مسلح چوکیدار انہیں جینے نہیں دیتے کیونکہ وہ بھی بلدیہ کے منظور کردہ قانون کے تحت کام کرتے ہیں۔
سوشلزم کا نام لینا گناہ ہے۔ اسی طرح جس طرح پاکستان میں یہ نام لے کر پیپلز پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی۔پنجاب اور کے پی کے میں اسے دیس نکالا ملا ‘ بلوچستان میں اس کے قدم کبھی جم نہ سکے اور سندھ میں وہ ذات برادری کی طرف لو ٹ گئی۔جزوی طور پر یہ لیڈروں کی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔انسان فرو گزاشتیں کرتے ہیں۔پنجاب اور سندھ میں لوکل باڈیز کے انتخابات پر نظر ڈال لیجئے۔سوشلزم‘ اقتصادی نظم و نسق کا نظریہ ہے مگر یار لوگوں نے اسے خدا کے وجود سے انکار سمجھ لیا ہے۔ سویت یونین ‘ پاکستان اور امریکہ کو یہ نظام پسند نہ آیا مگر کینیڈا اور یورپ کو راس آ گیا۔ گزشتہ ہفتے خطے اور شمالی امریکہ کے سینکڑوں شہروں میں سرمایہ داری‘ کرپشن‘ گرانی اور جنگ کے خلاف عوامی مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہل من مزید کا نعرہ لگا رہے ہیں۔صدر اوباما کو الی نائے کی سینیٹ کی سیٹ کے لئے ایک سوشلسٹ نے تیار کیا تھا جو انہی دنوں سوویت یونین میں ایک کانفرنس میں حصہ لینے کے بعد لوٹی تھیں، مگر اوباما کو قومی سینیٹ اور پھر ملک کی صدارت کے الیکشن میں شریک ہونے سے پہلے اپنے سوشلسٹ نظریات کو ترک کرنے کا بالواسطہ اعلان کرنا پڑاتھا۔ اب ڈیمو کریٹک ٹکٹ کے لئے ورمانٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز امیدوار ہیں، جو اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹ کہتے ہیں اور جنہوں نے اوباما کی طرح عراق کی ناجائز جنگ میں حصہ لینے کے خلاف ووٹ دیا تھا مگر انہیں ہلری راڈم کلنٹن کے مقابلے میں نظر انداز کیا جائے گا ہر چندکہ ان کی پارٹی بغداد پر حملے کا قصور وار ریپبلکن پارٹی اور اس کے لیڈر صدر جارج بش کو قرار دیتی ہے۔دوسرے ملکوں کی سرزمین پر (امریکی فوجی) بوٹ رکھنے کی مخالفت صدارتی الیکشن کے اس موسم کا میوہ ہے، یہاں تک کہ ریپبلکن ٹکٹ کے قدامت پسندامیدوار ڈانلڈ ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر صدام حسین اور معمر قذافی زندہ ہوتے تو آج مشرق وسطیٰ کے حالات نسبتاً پر سکون ہو تے۔
جب بھی پاکستان میں کوئی آفت سماوی نازل ہوتی ہے غریب لوگ‘ حکومت کی طرف تکنے پر لگتے ہیں۔حکومت مرنے والوں کے لئے پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کے لئے دو لاکھ روپے کا اعلان کرتی ہے، اور جن کے گھروندے زلزلے‘ سیلاب یا آگ سے تباہ ہو جاتے ہیں انہیں نئی رہائش گاہیں بنانے کے لئے مالی امداد دیتی ہے۔ذرائع ابلاغ کسی نادار ‘ بیمار یا معذور کی حالت زار بیان کرتے ہیں تو ارباب بست و کشاد ان کے سر پر ہاتھ رکھنے اور تصویر بنوانے کے لئے پہنچ جاتے ہیں، مگر جانے سے پہلے اپنے تعلقات عا مہ کے لوگوں کو تاکید کرتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر '' نو ٹس لینے ‘‘ یا ''کمیٹی بٹھانے‘‘ کی پٹی چلوانا مت بھولیں۔بیشتر ایف آئی آر حکام بالا کی اجا زت سے کٹتی ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں بیشتر داخلے‘ حکمرانوں کے ایما پر ہوتے ہیں ،جن کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔یہ سب کیا ہے ؟ سوشلزم یا اس کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں جو وہ لیڈر روا رکھتے ہیں اور اس نظام کو گالی بھی دیتے ہیں۔ایک بار جالب نے کہا تھا:چین اپنا یار ہے، اس پہ جاں نثار ہے، مگر وہاں جو ہے نظام، اس کو دور سے سلام۔
بعض چیک کیش نہیں ہوتے اور لوگ نقدی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں یا یاد رکھنا نہیں چاہتے کہ حکومت کی مالی استعداد اتنی ہی ہے جتنا کہ وہ ٹیکس دیتے ہیں۔حکومت کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ اگر 2013ء میں انتخابی مہم کے دوران میاں محمد نواز شریف نے مری ‘ سیالکوٹ یا لودھراں میں بلٹ ٹرین چلانے ‘ موٹر وے کو توسیع دینے یا بین الاقوامی سطح کے ہسپتال یا یونیورسٹیاں بنا نے کا وعدہ کیا تھا، تو اس وقت ضربِ عضب اور اقتصادی راہداری نہیں تھے۔حکمران سیاسی جماعتوں کو مبینہ طور پر جب الیکشن کا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے تھانیدار اور پٹواری پر ہی انحصار کرنا ہے تو پھر وہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی مہمیں کیوں چلاتے ہیں؟
ادارے کام نہیں کر رہے یا انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے وگرنہ حکومت اپنے محکموں کو رقوم جاری کرنے اور انہیں مشتہر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرے۔امریکہ میں بھی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔سڑکوں کے کنارے اس مضمون کے سائن بورڈ دکھائی دیتے ہیں کہ یہاں آپ کے ادا کردہ ٹیکس کام کر رہے ہیں۔روپیہ یہاں بھی پانی کی طرح بہا یا جاتا ہے مگر فرق یہ کہ اس ملک میں الیکشن چندے سے لڑتے ہیں اور پاکستان میں انتخاب امیدوار کے خرچ پر منعقد ہو تا ہے۔میاں نواز شریف کا جاتی عمرہ ‘ آصف علی زرداری کا بلاول ہاؤس ‘ عمران خان کا بنی گالہ اور چوہدریوں کاوائٹ ہاؤس خدانخواستہ ڈھے جائیں تو ان کی پارٹیاں بھی تتر بتر ہو جاتی ہیں۔امریکہ میں صدارتی نظام ہے اور یہاں دو ہی سیاسی جماعتیں ہیں جو ایک دوسری سے ہار تو جاتی ہیں مگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کبھی نہیں ہو تیں۔ یہاں بھی جرائم اور دہشت گردی کی وارداتیں بکثرت ہو تی ہیں مگر لیڈر کی سکیورٹی کا خرچ کم ہے اور رائے دہندگان ایسی شکایت کرتے سنائی نہیں دیتے کہ الیکشن سے پہلے سیاسی امیدوار آیا تھا اور بہت سے وعدے کر گیا تھا مگر جب سے منتخب ہوا ہے اس کی شکل نہیں دیکھی۔امریکہ کو دنیا کا امیر ترین ملک سمجھا جاتا ہے مگر یہاں ‘ مصیبت کے وقت لوگ حکومت کے ہاتھوں کی طرف نہیں دیکھتے، اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔جرنیل ‘ سفیر اور سپریم کورٹ کے جج بھی اس موسم میں لان میں گرے ہوئے پتے سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی تو اس ملک میں سوشلزم کا نام لینا گناہ ہے مگر وہ آہستہ آہستہ اس نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شادی کے ادارے کو کمزور کرنا اور مذہب کو سیاست سے دور رکھنا اس کی علامات ہیں۔ دائیں بازو کے وزیر اعظم نواز شریف نے پہلی بار لبرل کا لفظ بولا ہے، اور کراچی میں ایک ہندو تقریب میں شرکت بھی کی مگر جنرل راحیل کے دورہ امریکہ کے موقع پرفوج اور حکومت میں شکوہ اور جواب شکوہ اور جواب الجواب بھی منظر عام پر آیا ہے۔خدا خیر کرے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں