’’وزیر اعظم کا دورہ گہنا گیا‘‘

جنرل راحیل شریف کے پانچ روزہ دورے پر امریکہ روانگی سے قبل خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چوہدری نے اسلام آباد میں جو بیان دیا‘ اس سے ظاہر ہوا کہ کم از کم ملٹری اور خارجہ آفس ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ انہوں نے دو دن پہلے پیرس میں داعش کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں‘ اور نہ ہم اس کی موجودگی چاہتے ہیں۔ بلوچستان کی حکومت گزشتہ سال اس خیال کی نفی کرتے ہوئے اس خطرے کا اظہار کر چکی ہے کہ داعش دس تا بارہ ہزار لڑاکا اس علاقے سے بھرتی کرے گی۔ پھر محمد سعید اورک زئی کون ہے؟ وزیر اعظم نواز شریف کے بعد ایک ماہ سے بھی کم مدت میں آرمی چیف کے دورۂ امریکہ کا جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دورے سے ''ملٹری ٹْو ملٹری‘‘ تعلقات گہرے ہوں گے اور یہ دورہ امریکہ اور پاکستان کے فوجی افسروں کے معمولات میں سے ایک ہے۔ اس روز پیرس پر ہولناک حملہ ہو چکا تھا۔
داعش عربی مخفف ہے ''دولت اسلامی در عراق و شام‘‘ کا۔ بزرگانِ دین کے مزاروں اور دوسری یادگاروں کو ڈھانے کے علاوہ داعش نے عراق اور شام کی سرحدوں کو بھی مٹا دیا ہے۔ مانا کہ یہ خط سامراج نے کھینچا تھا مگر ایسا ہی ایک خط ڈیورنڈ لائن بھی ہے۔ ماناکہ بیشتر افغان اس خط کو تسلیم نہیں کرتے اور پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر پاکستان آتے جاتے ہیں مگر ڈیورنڈ لائن کو ختم کرنا کون چاہے گا؟ طالبان سے لے کر جماعت الدعوۃ تک انتیس گروپ ایسے ہیں جنہیں حکومت نے غیر قانونی قرار دیا ہے اور جو سب دائیں بازو کی مذہبی انتہا پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن کے خلاف ضرب عضب شروع کی گئی ہے۔
داعش رضاکار‘ جنہیں جنت میں جانے کی جلدی تھی‘ پیرس کے علاوہ G-20 سمٹ کے موقع پر استنبول میں حملہ کرنا چاہتے تھے‘ مگر ترک پولیس نے انہیں بروقت گرفتار کر لیا۔ استنبول خلافت کا آخری ٹھکانہ تھا، جسے جنرل کمال اتاترک نے ختم کر کے جدید ترکی کی بنیاد رکھی تھی۔ داعش‘ ابوبکر بغدادی کی خلافت یا خلافت کے احیا پر یقین رکھتی ہے اور یوں مسلم اکثریت کے تمام ملکوں پر دیوانی دعویٰ رکھتی ہے۔ پوپ فرانسس نے پیرس پر داعش کی یلغار کو تیسری جنگ عظیم کا آغاز کہا ہے‘ مگر اس بار یہ نہیں ہو گا کہ ایک طرف مسلم قومیں اور دوسری جانب پوپ کی قیادت میں مسیحی حکومتیں‘ یہ کوئی نئی صلیبی جنگ نہیں ہو گی۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور امید کی جاتی ہے کہ داعش کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں صف اول کا حلیف ہو گا۔ نیٹو کے ارکان نے اس حملے کو act of war یعنی ایک جنگی کارروائی قرار دیا ہے‘ اور وہ معاہدہ اوقیانوس کی شق پانچ کو بروئے کار لائے ہیں۔ یہ شق نیٹو کے ارکان کو یہ اختیار دیتی ہے کہ ایک ممبر پر حملے کو پورے یورپ پر حملہ سمجھیں گے، جس میں ترکی بھی شامل ہے۔
داعش نے ایک تیر سے تین نشانے حا صل کیے۔ اول، اس نے انطالیہ میں جمع ہونے والے لیڈروں کو، جن میں روس کے صدر پوٹن بھی شامل تھے‘ یہ پیغام دیا کہ مشرق وسطیٰ کی فضاؤں میں ان کے طیاروں کی ہر پرواز دشوار ہو گی۔ دوم‘ خلافت کے خلاف پیرس میں نیٹو کی منصوبہ بندی مشکل بنا دی جائے گی اور سوم، شام سے نکلے ہوئے اقتصادی اور نظریاتی مہاجرین کو یورپ میں پناہ نہیں ملے گی اور ان سب کو ''اسلامک سٹیٹ‘ میں ان کے زیر تسلط رہنا ہو گا۔ کچھ جہادی ان مہاجرین کے ساتھ یورپ کی نادیدہ سرحدوں کو پار کرنے کی کوشش میں پکڑے بھی گئے ہیں۔ مغربی یورپ نے اپنی سرحدوں پر حفاظت کے قواعد زیادہ سخت کر دیے ہیں اور امریکہ میں بھی ہر جگہ نائن الیون طرز کے ایک اور حملے کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ گو یورپ کے کئی ملکوں میں قتل عام اور پیرس سے 129 سے زیادہ لاشیں اٹھنے کے بعد نیٹو پر اپنی کارروائی کو وسیع کرنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے‘ لیکن صدر اوباما شام میں فوجیں اتارنے اور شامیوں کو پناہ نہ دینے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''یہ اقدام غیر امریکی ہو گا۔ امریکہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اگلے سال دس ہزار شامیوں کو آباد کرے گا‘‘۔ دو درجن سے زیادہ ریپبلکن گورنر (چیف ایگزیکٹو) کہتے ہیں کہ وہ شامیوں پر اپنی ریاستوں کے دروازے بند رکھیں گے۔ ان میں مشی گن کے گورنر بھی شامل ہیں جو کل تک نئے شامی تارکین وطن کے خیر مقدم میں بیانات دے رہے تھے۔ رقہ (شام) پر فرانس کے تابڑ توڑ ہوائی حملوں اور امریکہ کی جانب سے ان کی تائید کے بعد اسے ایک ''سکیورٹی رسک‘‘ کہتے ہیں۔ مشی گن سٹی کے مضافات میں شامی اور عربی بولنے والے دوسرے مہاجر بکثرت آباد ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں نسلی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ اس کا ایک ثبوت وہ مجسمہء آزادی ہے‘ جو امریکہ کی سویں سالگرہ پر فرانس نے تحفتاً نیو یارک بھیجا تھا۔ مغربی یورپ میں مساجد گرائی جا رہی ہیں اور جرمنی اور نیدرلینڈز کے مابین فٹ بال میچ‘ جسے دولت مشترکہ کے ملکوں میں معروف کرکٹ سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے‘ منسوخ کرنا پڑا ہے۔ امریکہ میں حفاظتی انتظامات بالخصوص ٹرانسپورٹ کے نظام کو مؤثر کیا گیا ہے۔ داعش کی جانب سے جاری ہونے والے ایک ویڈیو میں واشنگٹن پر پیرس نما حملے کا انتباہ کیا گیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے سپہ سالار سے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی کوئی ٹھوس کوشش تو نہیں ہو سکتی؛ البتہ ٹمپا فلوریڈا میں وسطی کمان کے (بلیک) سربراہ لائڈ جے آسٹن سے‘ جو پاکستان اور افغانستان سمیت بیس ملکوں میں امریکی حفاظتی مفادات کے ذمہ دار ہیں‘ جنرل راحیل کی ملاقات بامعنی ہے۔ امریکہ‘ پاکستان کو اس کے جغرافیائی محل وقوع اور وسائل کے اعتبار سے افغانستان کے ساتھ امن کے کسی سمجھوتے کا بنیادی پتھر سمجھتا ہے۔ جنرل راحیل‘ جو دو سال قبل منصب سنبھالنے کے بعد ایک ماہ میں کم از کم دو بار کابل جا چکے ہیں‘ پاکستان میں افغان امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے طالبان لڑاکوں کے کئی گروہوں کے لیڈروں کے ہتھیار ڈالنے کے واقعات دہرائے اور یہ خوش خبری سنائی کہ نظریاتی طور پر طالبان سے الگ ہونے والا ایک گروپ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ عورتوں کے تعلیم اور روزگار حاصل کرنے کی مخالفت نہیں کرے گا اور اس بنا پر کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تیار ہو گا۔گروپ کے ڈپٹی لیڈر عبدالمنان نیازی نے بی بی سی کو بتایا: ''ہمیں اب احساس ہوا ہے کہ ا سلامی نظام کے تحت تمام انسانوں 'مردوں اور عورتوں‘ کے حقوق کو سو فیصد نافذ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ گروپ گزشتہ مہینے مغربی فراح میں طالبان کے ایک اجتماع میں ابھرا اور اس نے سابق گورنر محمد عبدالرب رسول کو اپنا لیڈر چنا۔ وہ نوے کے عشرے میں طالبان کی یلغار میں اقتدار پر قبضہ کرنے والی چھ پارٹیوں میں شامل تھے جنہیں امریکہ نے نائن الیون کے بعد معزول کیا اور خانہ جنگی چھڑ گئی۔ یہ دنیا کی طویل ترین لڑائی ہے اور امریکی اس لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برنن سے دو گھنٹے کی میٹنگ میں خبر کی صداقت پر گفتگو ہوئی تو جنرل راحیل نے علاوہ دوسری باتوں کے میزبانوں کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے اچھے برے کا امتیاز ختم کر دیا ہے اور سب انتہا پسندوں کے خلاف ملٹری آپریشن جاری ہے؛ تاہم جنرل راحیل نے گلہ کیا کہ پاکستان نے جس شدّ و مدّ سے انتہا پسندوں کا قلع قمع کیا ہے کسی اور ملک نے نہیں کیا۔ پاکستان نے کابل حکومت اور افغان طالبان میں صلح کے مذاکرات میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا، اور جنرل راحیل‘ مسٹر برنن کو بتاتے ہیں کہ ٹوٹے ہوئے مذاکرات کی بحالی کے لئے سازگار ''ماحول‘‘ درکار ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری سے بھی ملاقات کی اور کشمیر کے مسئلے میں امریکی کردار کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر اوباما پاکستانی جنرل کے واشنگٹن میں قیام کے دوران ملک سے باہر رہے‘ مگر جنرل نے ایک ایسا کام کیا جو شاید وزیر اعظم کے ذہن میں بھی نہ آئے۔ انہوں نے تھنک ٹینکوں کے سربراہوں اور دوسرے دانشوروں کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا۔ اس دوران دو اخبار زیادہ سرگرم عمل رہے۔ راڈ نارڈلینڈ نے نیو یارک ٹائمز میں کہا کہ پاکستانی فوج نے اپنے اختیارات میں توسیع کی ہے اور ایسا کرنے پر وہ شکریے کی مستحق ہے اور سعید شاہ نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ طاقت ور جرنیل نے پاکستان کے وزیر اعظم کا دورہ گہنا دیا ہے۔ ''سپاہی مدبر‘ دہشت گردی اور جرائم پیشہ گروہوں سے لڑ کر ایک جادوئی (کلٹ) ہیرو بن گئے ہیں‘‘۔ جنرل راحیل شریف نے پینٹاگان کے دوسرے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور کیپیٹل ہل کا دورہ بھی کیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ کانگرس کے بااثر ارکان کے سامنے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے بیان کے بعد پاکستان کے لیے ''کولیشن فنڈ‘‘ جاری رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں