موسم کا حال

ایسے دنوں میں جب واشنگٹن ڈھائی سے تین فٹ برف میں دبا ہو اور لاہور میں درجہ حرارت گرتے گرتے منفی تین سنٹی گریڈ رہ جائے‘ تاریخ کے گرم ترین سال کی بات کرنا مضحکہ خیز لگتا ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ 1915ء ایسا ہی تھا اور امریکہ اور پاکستان میں غیر معمولی سردی بھی اسی مظہر کا ایک شاخسانہ ہے۔
موبی‘ اپنی بیوی اور دو بچوں کو لئے نماز جمعہ کے بعد چار میل جنوب میں ہمارے گھر آ پہنچا تھا‘ کیونکہ اسے اندیشہ تھا کہ اگلے دن ان کے مکان کی بجلی سب سے پہلے جائے گی۔ دیبا کی ایک گٹھڑی میں اس کے فریج کا سامان بندھا تھا جو بجلی نہ ہونے کے باعث ردی ہو جاتا۔ برف اور ہوا کے عدیم المثال طوفان کی آمد کی اطلاعات تین دن سے نشر ہو رہی تھیں۔ طوفان جوناس عین وقت پر آیا اور سائوتھ کیرولائنا سے نیو یارک تک مشرقی اور وسط مغربی پندرہ ریاستوں کا کوئی ایک ہزار مربع میل کا علاقہ متاثر ہوا۔ سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔ شہر شہر ریل اور بس کا نظام تتربتر ہوا۔ ہزاروں پروازیں منسوخ ہوئیں۔ موبی اور دیبا کے اندیشے کے مطابق اس علاقے میں لاکھوں گھر بجلی سے محروم ہو گئے‘ جن میں ان کا مکان بھی شامل تھا۔ ہمارے علاقے میں بجلی اور ٹیلی فون کے تار زیر زمین ہیں جبکہ کئی دوسرے علاقوں میں تار سر کے اوپر ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی یہ وجہ عام فہم تھی۔ بجلی کی رسد بند ہو تو گھر کو گرم رکھنے کا نظام اور باورچی خانے کے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں۔ موبی نے بتایا کہ صدر اوباما کے قافلے کو برف پر پھسلتے‘ وین کی سکرین پر دیکھا گیا۔ گویا دنیا کا سب سے طاقتور انسان بھی قدرت کی طاقت کے مقابلے میں بے بس تھا۔ سارا ویک اینڈ طوفان کی نذر ہوا اور بیشتر لوگ پیر اور منگل کو بھی کام کاج پر جانے سے قاصر رہے۔ وہ اپنے گھروں کے باہر ڈرائیو ویز اور راستوں کی کھدائی میں مصروف تھے یا رضاکاروں پر انحصار کر رہے تھے۔ ایک ہمسائے نے ٹیلی وژن پر ایک چرچ کی چھت گرنے کا دلخراش منظر دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر برف ہٹا رہا تھا۔
نیو یارک سے اعجاز قریشی نے فون کیا تو اس کی زبانی معلوم ہوا کہ اس مرتبہ‘ طوفان مشرق سے مغرب کی طرف نہیں بلکہ شمال سے جنوب کی طرف آیا تھا۔ یہ جان کر افسوس ہوا کہ مفلوج کن جوناس ہمارے علاقے سے اس کے شہر کی طرف بڑھا تھا۔ ہر شے جامد تھی مگر نیو یارک کے میئر نے اپنے شہریوں کے سفر پر پابندی لگا دی تھی۔ اعجاز سے پتہ چلا کہ کئی شہری گھر سے نکلنے کے لئے بیتاب تھے اور کچھ لوگ تفریحات میں شریک ہونے کے لئے سنٹرل پارک کا رخ کر رہے تھے۔ ایسی صورت میں ہنگامی امداد کی گاڑیوں کو منزلوں تک پہنچنے میں دشواری پیش آتی۔ ہمارے علاقے میں تو ایسی گاڑیوں کی آمد و رفت بھی بند تھی۔ ڈاکٹر اعجاز نے بتایا کہ اس کا کلینک تو جمعہ کے دن سے بند ہے اور وہ اور فوزیہ سکارزڈیل میں اپنے گھر میں بند ہیں۔ میں نے پوچھا کہ بفلو والے کس حال میں ہیں؟ تو اس نے حشر کاشمیری کے انداز میں جواب دیا: ''شیر لوہے کے جال میں ہیں‘‘۔ جب برف ڈاکٹر اعجاز میاں اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر نشاط کے گھر کی چھت تک پہنچ جاتی تو میاں فون اٹھا کر مجھے دھمکی دیتے کہ ہم‘ نیو یارک سے فلوریڈا منتقل ہو جائیں گے۔ پانچ سال پہلے بالآخر انہوں نے واقعی کلیر واٹر میں ایک اپارٹمنٹ خرید لیا۔ اس لئے سیل فون کرتے ہوئے اس سے پہلا سوال یہ کیا گیا: ''نیویارک میں ہو یا فلوریڈا میں؟‘‘ وہ بولا: ''فلوریڈا میں مگر یہاں بھی کلفی جم رہی ہے‘‘۔ اسے دوسرے ڈاکٹر کے اس خیال سے اتفاق تھا کہ نیو یارک سے آگے شمال میں طوفان کا زور کم ہے۔ اب تو سرمائی بفلو یاد آ رہا ہے۔ کلیر واٹر کی کشش کم ہو گئی ہے۔ بوسٹن‘ پورٹ لینڈ اور ٹورانٹو (کینیڈا) میں جو سب سے پہلے برف باری کی زد میں آتے تھے‘ نسبتاً سکون ہے۔
فلوریڈا میں کبھی برف نہیں پڑی۔ اس کے مغربی ساحل پر تو اتنی سردی بھی کبھی نہیں پڑی، اسی لئے اسے ریٹا ئرڈ لوگوں کا بیڈ روم یا بوڑ ھوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ ہمسایہ ریاستیں بالخصوص کیلی فورنیا‘ ٹیکسس‘ کینسس اور اوکلاہوما وغیرہ کل تک آگ اور سیلابوں کی زد میں تھیں‘ آج نا رتھ کیرولائنا‘ ویسٹ ورجینیا‘ میری لینڈ‘ ورجینیا‘ پنسلوانیا اور نیو جرسی اور نیو یارک وغیرہ طوفان کی لپیٹ میں آئیں۔ ساڑھے آٹھ کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ اٹھارہ لوگ مارے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق 32 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا۔ یہ تاریخ کا گراں ترین طوفان تھا۔ ہزاروں گاڑیاں برف میں پھنس گئیں اور بیشتر ڈرائیور پیدل چلتے گھر پہنچے۔ اوقیانوس اچھلا تو ساحلی علا قوں میں سیلاب آئے اور بیچ پر بیش قیمت گھر بسانے والوں کی خوشی‘ غم میں تبدیل ہوئی۔ چار دن اخبار نہیں آئے مگر اگلے دن سورج چمک رہا تھا۔ گھر کے باہر گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ‘ نجی ملکیت شمار ہوتی ہے اس لئے مقامی حکومت اس میں مداخلت نہیں کرتی مگر اواخر ہفتہ برف اس قدر زیادہ تھی کہ مالک‘ اسے ہٹا کر سڑکوں تک پہنچنے سے قاصر دکھائی دیتے تھے۔ رات سر پر آ گئی تھی اور ساری برف کے جمنے اور شیشہ برف ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے کاؤنٹی‘ شہریوں کی امداد کے لئے اپنے ساز و سامان کے ساتھ باہر نکلی اور اس نے ڈرائیو ویز صاف کرنے اور گاڑیاں نکالنے میں ان کی امداد کی۔ جو لوگ ویک اینڈ منانے کے لئے گھروں سے نکلے تھے ان میں سے بعض نے رات اپنی گاڑیوں میں گزاری اور ایک خاتون تو تیسرے دن باہر آئیں۔
موسموں کی یہ الٹ پلٹ معنی خیز ہے۔ یہ ایک سائنسی صداقت ہے کہ پچھلے سال نے 2014ء کا ریکارڈ توڑا اور جب سے قابل اعتبار ریکارڈ کیپنگ شروع ہوئی ہے یہ سال گرم ترین بن گیا۔ اقوام متحدہ کو کرہ ارض کے سال بہ سال گرم ہونے کی فکر زیادہ ہے۔ شاید اس لئے بھی کہ وہ دنیا کی نمائندگی کرتا ہے‘ اچھی یا بری۔ اس نے گزشتہ سال رکن ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس بلا رکھی تھی؛ چنانچہ یہ کانفرنس یکم د سمبر کو پیرس میں شروع ہوئی اور اس میں طے پایا کہ دنیا کے درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں دو ڈگری سیلسیئس سے بڑھنے نہیں دیا جائے گا بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری سیلسیئس پر روک دیا جائے۔ 2015ء کے ریکارڈ کے مطابق ہم پہلے ہی دو ڈگری کی آدھی منزل کو پہنچ چکے ہیں۔
مشرق اور مغرب میں اس عالمی نصب العین پر بہت کم توجہ دی گئی۔ پاکستان اور بھارت میں میڈیا اور سیاست نے کانفرنس کی قرارداد پر دھیان دینے کی بجائے اس بات کی ڈفلی بجائی کہ اس کی ''سائڈ لائنز‘‘ پر وزرائے اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہوئی ہے‘ جو باہمی مذاکرات کے طویل انجماد کے بعد برف پگھلنے کے مترادف ہے۔ امریکہ میں بھی‘ جہاں ماحولیات کی لابی مضبوط اور لوگ زیا دہ خود آگاہ ہیں‘ اس عالمی مقصد پر کم توجہ دی گئی۔ ملک میں صدارتی الیکشن 2016ء کا زور ہے اور صف اوّل کے ری پبلکن امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ آب و ہوا کی تبدیلی کو ایک ''واہمہ‘‘ کہہ کر رد کر چکے ہیں جبکہ پارٹی کے کئی دوسرے ارکان کو اس سائنسی حقیقت پر شک ہے کہ انسانی سرگرمیاں‘ کرّے کے گرم ہونے کا باعث ہیں‘ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ امریکہ‘ چین اور بھارت صنعتی مقاصد کے لئے کوئلہ جلاتے اور آلودگی پھیلاتے ہیں۔
دراصل زمین کی گردش اتنی سست ہے کہ کسی کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ سیاستدانوں کو اگلے سو سال کی کیا فکر جب گلیشئر پگھلیں گے‘ سمندروں کی سطح بلند ہو گی۔ گوادر‘ کراچی‘ ممبئی اور سورت غرق ہو جائیں گے۔ یہاں چھتیس گھنٹے میں سنو‘ تین فٹ سے زیادہ تھی اس پر ہوا کا طوفان مستزاد‘ حد نگاہ صفر تھی۔ جن عمارتوں میں بجلی کی رو موجود تھی ان کی رو شنیاں تین بجے سہ پہر ہی جل اٹھی تھیں۔ کھدائی میں مزید تین دن لگ گئے۔ اگر آپ آئے دن کی دھند اور سردی سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ماحول کی لابی بنائیں اور سیاسی منصب کے لئے کھڑے ہونے والے امیدواروں کو اپنے ماحول کے مطابق ووٹ دیں۔ پاکستانی سائنسدانوں کو اس سوال کا بھی جواب مہیا کرنا چاہیے کہ زلزلوں کی کثرت کہیں کرہ ارض کے گرم ہونے سے تو نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں