واٹر گیٹ

ذوالفقار علی بھٹو یہاں نیشنل پریس کلب میں پندرہ منٹ کی تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ ایک صحافی نے پوچھا: واٹر گیٹ کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟ بچے کھچے پاکستان کے وزیر اعظم نے جواب دیا: ہمیں واٹر لاگنگ کا سامنا ہے‘ جو ملک کے نہری نظام کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے‘ ہمارے لئے یہ مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے۔ واٹر گیٹ کے معاملے کو خوبصورتی سے ٹالنے پر کلب کے تیرہویں فلور پر جمع صحافیوں میں ایک زوردار قہقہہ گونجا اور بات آگے بڑھ گئی۔ رچرڈ نکسن‘ صدارت سے مستعفی ہو کر گھر جا چکے تھے‘ اور نامزد نائب صدر جیرلڈ فورڈ ان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ہر چند کہ بھٹو نے طالب علمی کے زمانے میں کیلی فورنیا سے سینیٹ کی ایک سیٹ کے لئے نکسن کے کھڑے ہونے کی مخالفت کی تھی‘ مگر اس مرحلے پر جب وہ امریکہ کی ریپبلکن ایڈمنسٹریشن کے مہمان بن کر آئے تھے‘ اس کے لئے کسی خفت کا باعث نہیں بننا چاہتے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کے باب وڈورڈ اور کارل برنسٹائن کے دم قدم سے واٹر گیٹ ابھی زندہ تھا‘ اور اس کے کئی کردار جیل جا رہے تھے۔ رپورٹروں نے ان کرداروں پر ایک کتاب بھی ترتیب دی‘ جس پر مبنی ایک فیچر فلم‘ نمائش سے کوسوں دور تھی: All the President's Men نکسن کا قصور کیا تھا؟ یہی ناں کہ صدارت کی دوسری مدت سے پہلے وائٹ ہاؤس کے پانچ افسروں نے واٹر گیٹ نامی عمارت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹرز میں سیندھ لگانے کی کوشش کی‘ اور صدر نے اس کارروائی کی پردہ پوشی کی تھی۔ تیسری دنیا میں یہ کام تو تقریباً ہر حکمران کرتا ہے اور اپنے اقتدار کو طول دیتے ہوئے دوبارہ مسند حکومت پر براجمان ہو جاتا ہے۔ نکسن کو اس عمل میں اپنے حصے کو چھپانے کی سزا ملی‘ اور وہ استعفا دینے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔ بھٹو کے میزبان فورڈ تھے‘ جو پہلے نامزد نائب صدر اور پھر نامزد صدر بن گئے تھے‘ اور اسی حالت میں دنیا سے چلے گئے تھے۔ گویا مقابلہ‘ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور امریکہ کے پہلے غیر منتخب صدر کے مابین تھا‘ جس میں مہمان کی شائستگی جیت گئی۔
واٹر گیٹ نے اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کر لئے ہیں۔ گزشتہ دنوں خاموشی سے وائٹ ہاؤس کے بعد اس مشہور ایڈریس کی گولڈن جوبلی منائی گئی۔ جب میرا اس عمارت سے تعارف ہوا‘ یہ شہر کے اندر ایک شہر تھا۔ میرے باس یوسف نذیر اپنے کنبے کے ہمراہ اسی عمارت میں رہتے تھے اور انہوں نے مجھے اور میرے کنبے کو رات کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ میں جب واٹر گیٹ کی ایسٹ بلڈنگ میں پہنچا تو مجھے وہاں پاکستانی ماحول محسوس ہوا۔ نور نغمی‘ جو کالج کے پہلے سال میں تھے‘ استقبالیہ میز پر براجمان تھے۔ انہوں نے ایک ایلی ویٹر سے نذیر صاحب کے اپارٹ منٹ تک پہنچایا۔ اس وقت بلڈنگ کو وہ شہرت حاصل نہیں تھی‘ جو سیاحوں کی کشش کا سبب بنتی۔ اب یہ کمپلیکس 640 رہائشی فلیٹ‘ ایک آفس بلڈنگ اور ایک لگژری ہو ٹل پر محیط ہے۔ نقب زنی آفس بلڈنگ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹرز میں ہوئی تھی‘ جبکہ ریپبلکن وائٹ ہاؤس یہ جاننے کے لئے بے تاب تھا کہ مخالف جماعت نے اگلے الیکشن کے لئے کیا تیاریاں کی ہیں، کشور ناہید پہلی دفعہ واشنگٹن آئیں تو واٹر گیٹ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ عمارت کو دیکھنے دکھانے کا اب بھی کوئی اہتمام نہیں ہے۔ کشور‘ بلڈنگ پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ہمسائے میں کینیڈی سنٹر (برائے فنون اظہار) منتقل ہو گئیں‘ اور گرمیوں کی ایک شام اس مرکز کی چھت پر گزاری۔ دریائے پوٹومک دونوں عمارتوں کے قدموں کو چھو کے گزرتا ہے۔ جرمن اور جاپانی سیاح‘ جنہیں امریکی سیاست سے دلچسپی ہے‘ شہر کی سیر کرانے والی گاڑیوں میں واٹر گیٹ پہنچتے ہیں‘ تو اپنے فوٹو فون کا رخ واٹر گیٹ کی جانب کر دیتے ہیں۔
واشنگٹن میں اب اتنی اراضی کہاں جس میں یہ سب کچھ سمویا جا سکے۔ عمارت میں نہانے کے چار تالاب‘ سات ریستوران‘ دو شاپنگ مال ،21 سٹور اور ایک ڈاک خانہ ہے۔ جب میں پہلی بار واٹر گیٹ میں گیا تو اس کا ڈرگ سٹور‘ پیپلز کہلاتا تھا۔ اب زنجیر نے اپنا نام CVS فارمیسی رکھا ہوا ہے۔ ایک لکر سٹور ''واٹر گیٹ وہسکی‘‘ فروخت کرتا ہے۔ ایک گفٹ شاپ ہے جہاں چینی کے برتن‘ کرسٹل‘ سلور اور سونے کے خلال ملتے ہیں۔ نیو یارک‘ پیرس‘ لندن اور روم کے بوتیک ہیں۔ ڈاکٹروں اور دندان سازوں کے دفاتر الگ ہیں۔ میں نے ایک ضعیف العمر عورت کو اپنا ڈسکاؤنٹ کوپن سنبھالتے ہوئے اندر جاتے دیکھا۔ وہ سپریم کورٹ کی جسٹس روتھ بیدرگنس برگ (عمر 83 سال) تھیں۔ اس عمارت کے فلیٹس میں وی آئی پی کی رہائش ہے‘ مگر وہ سب کوپن سنبھالنے والے لوگ نہیں ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے کچھ نقب زن بھی یہیں رہتے تھے۔ کسی وزیر کو سرکاری خرچ پر رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔ اس لئے ایک زمانے میں قانون‘ نقل و حمل‘ تجارت اور ٹیکسال کے وزرا یہاں کنڈومینئم کے مالک یا کرائے دار تھے۔ مونیکا لونسکی بھی اس کی باسی رہیں‘ اور واٹر گیٹ ہوٹل‘ جو رابرٹ ریڈ فورڈ اور الزبتھ ٹیلر جیسی نامور شخصیتوں کی آماجگاہ رہا‘ اب مرمت اور تزئین کے نئے مرحلوں سے گزر رہا ہے‘ اور ایک بار پھر حکومت‘ سیاست‘ تجارت اور فلم کے لوگوں کے قیام کی منزل بننے والا ہے۔
اگر آپ لائف میگزین (1969ء) کا شمارہ اٹھا کر دیکھیں تو دو عورتیں‘ ایسٹ بلڈنگ کے بیوٹی پارلر سے لطف اٹھاتی نظر آ ئیں گی۔ مارتھا مچل اور کیتھلن سٹائن کے وزیر شوہر چند سال بعد نکسن سکینڈل کی لپیٹ میں آئے۔ مچل تو نقب زنی اور جرم کی پردہ پوشی میں جیل گئے‘ اور سٹائن نے اقبال جرم کر لیا اور ان کو جرمانہ بھرنا پڑا۔ پانچ اگست 1974ء کو اعلیٰ عدالتوں نے نکسن کو وہ آڈیو ٹیپ جاری کرنے پر مجبور کیا‘ جن سے ثابت ہوا کہ وہ جرم کو چھپانے میں ملوث تھے۔ اس پر وہ استعفیٰ دے کر کیلی فورنیا میں اس گاؤں کو واپس لوٹ گئے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ میں نے یول ولنڈا میں ان کی لائبریری اور عجائب گھر دیکھے ہیں‘ جو انہوں نے 1994ء میں نیو یارک سٹی میں وفات پانے سے قبل قانون کے مطابق سرکاری خرچ پر بنوائے تھے۔ عجائب گھر میں نکسن کا ایک مجسمہ ہے‘ جو سیاحوں کے سوالوں کے جواب انہی کی آواز میں دیتا ہے۔ اس مجسمے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود دنیا میں خرابیاں پیدا کر سکتا ہے۔ واٹر گیٹ کی مالک کوئی امریکی نہیں بلکہ ایک یورپی کمپنی ہے۔
رچرڈ نکسن‘ بھٹو کی طرح خارجہ امور کے ماہر تھے مگر دونوں کے منصب کی دوسری مدت کے انتخابات ان کی بصیرت کو چاٹ گئے۔ ان دونوں کو حد سے زیادہ نشستیں جیتنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ویسے ہی مقننہ میں اکثریت حاصل کر رہے تھے‘ مگر ایک کو امریکی قانون اور دوسرے کو پی این اے‘ کھا گئے۔ چین کے حوالے سے نکسن کے عروج میں کچھ حصہ پاکستان کا بھی ہے۔ جنرل محمد یحییٰ خان‘ پاکستان کے ناکام ترین صدر تھے‘ مگر انہوں نے نکسن کے ایلچی ہنری کسنجر کے چینی دارالحکومت کے سفر کے راز کی حفاظت خوب کی۔ نکسن نے پیکنگ کا سرکاری دورہ کیا اور تجارت کے لئے دنیا کے دروازے امریکہ اور یورپ پر کھولے۔ بالآخر وہ واٹر گیٹ سے مات کھا گئے۔ امریکی صحافت نے واشنگٹن اور اس عمارت کے تعلق کو سکینڈل کا درجہ دیا ہے اور اب امریکہ سے نکلنے والے ہر سکینڈل کو ''گیٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسے پاکستان اور امریکہ کے حوالے سے ''میمو گیٹ‘‘۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد، جب پی پی پی کے حکمرانوں نے ملک میں مارشل لا کا اندیشہ محسوس کیا‘ تو ایک امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے مبینہ طور پر امریکی حکام کو ایک ''میمو‘‘ لکھا‘ جس میں ان سے سویلین حکومت کے خلاف اس بغاوت کو روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ منصور کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس وقت کے سفیر حسین حقانی کے کہنے پر یہ خط لکھا تھا۔ حقانی اس دعوے کی تردید کرتے ہیں مگر پی پی پی کو اب بھی فوجی بغاوت کا خطرہ ہے اور اسی لئے سابق صدر آ صف علی زرداری (فوج کی) اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد ملک سے باہر جا بیٹھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں