نیوکلیائی ہتھیاروں کی حفاظت

بر سلز میں حالیہ بم دھماکوں کے بعد‘ جس میں 35 فراد ہلاک اور 270 زخمی ہوئے (مرنے والوں میں پانچ امریکی تھے) اور جس کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبو ل کی‘ ریپبلکن صدارتی ٹکٹ کے دو امیدوار اپنا ''غصہ‘‘ امریکی مسلمانوں پر اتار رہے ہیں‘ مگر باہمی رقابت میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب دوستوں کو دشمن بنانے کی ترکیبیں ہیں۔ دنیا کے بیشتر مسلمانوں کے طرح امریکی مسلمان بھی انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں‘ مگر ان کو خاطر خواہ داد نہیں ملتی۔ ان کو تو ابوبکر بغدادی کی خلافت اور طالبان سے بھی شاباش نہیں ملتی‘ جو انہیں ''کافر‘‘ کہتے ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی کا تخمینہ پینتالیس لاکھ ہے‘ جو یورپ کی نسبت بہت کم ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیڈ کروز نے مسلمانوں کو بْرا بھلا کہنے کے بعد ایک دوسرے کی بیویوں پر حملے کئے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کی سیا ست میں وہ کتنی دور تک جا سکتے ہیں۔ ان نازیبا حرکات کی وجہ سے مسلمانوں اور جنوبی امریکہ کے تارکین وطن کے علاوہ‘ وہ اپنی انتخابی مہم کے انچارج کا دفاع کرکے اور اسقاط حمل پر عورت کو سزا دینے کی تجویز پر عورتوں کے بہت سے ووٹ بھی گنوا بیٹھے ہیں‘ مگر پارٹی میں اب بھی انہیں نمبر ایک اور نمبر دو کی حیثیت حاصل ہے‘ اور یہ بات ملک میں ایک نئے رجحان کا پتہ دیتی ہے‘ جو افسوسناک ہے۔ بلجیئم کے واقعہ کا سن کر ٹرمپ بولے: میں نہ کہتا تھا کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ اس وقت تک بند کر دیا جائے‘ جب تک ہمارے ملک کے نمائندے یہ جائزہ نہیں لے لیتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ مسلمانوں پر سختی کرنے میں کون زیادہ تیز ہے؟ سیاسی معرکہ آرائی کے سلسلے میں کروز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپیل کی کہ مسلمانوں کے محلّوں (نیبرہُڈ) کا گشت کریں اور انہیں محفوظ (سکیور) بنائیں۔ جب امریکی مسلمانوں نے شور مچایا کہ یہ ان کی ناکہ بندی کی تجویز ہے تو ان کی مہم کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی کہ وہ تو حکام کو انتہا پسندی کا سراغ لگانے‘ اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کی تلقین کر رہے تھے۔ ٹرمپ نے یہ بیان پیرس اور کیلے فورنیا میں گولی چلنے کی وارداتوں کے بعد دیا تھا‘ اور اسی زمانے سے رائے عامہ کا ایک قومی جائزہ شروع ہوا جو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتیں انہیں خاصا فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ برسلز کے واقعہ پر اپنا ردعمل ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈنگ یا تفتیش میں ایذا دہی کا قانون منسوخ ہونا چاہئے۔ اس پر اْن ووٹروں نے خوشی کا اظہار کیا‘ جنہوں نے ٹیلی وژن پر یہ خبر سنی تھی کہ صلاح عبدالسلام نے بلجیئن پولیس کے تمام سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ یہ قانون ایک جنیوا کنونشن کی تعمیل میں بنایا گیا تھا‘ جسے امریکہ سمیت 136 ملکوں نے منظور کیا تھا۔
امریکہ میں انتخابی مہم کا زور ہے‘ اور ہر واقعہ سیاست کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ سانحہ لاہور میں 72 افراد کی ہلاکت پر ردعمل گو شدید تھا‘ مگر اس واقعہ کی بھی ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے نقطہ نظر سے مذمت کی گئی۔ ڈیموکریٹک دفتر خارجہ نے جو بیان دیا‘ اس میں ایسٹر سنڈے یا مسیحیت کا ذکر نہیں تھا۔ اس پر ریپبلکن مہم سے ڈراپ آؤٹ ہونے والے سیاہ فام قدامت پسند سرجن بن کارسن بولے کہ ہمارے فارن آفس کے سامنے یہ ذکر ضرور کرنا چاہئے تھا کہ گلشن اقبال میں خود کش دھماکہ اس وقت ہوا جب کرسچیئن‘ اپنے بال بچوں سمیت ایسٹر کا مسیحی تہوار منا رہے تھے۔ اخبارات نے اس قتل عام کے بارے میں جو خبریں شائع کیں‘ اس میں بھی یہ نکتہ نمایاں کیا گیا تھا‘ مگر ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی مجلس قائمہ کے ڈیموکریٹک رکن ایلیٹ انگل اور دوسرے امریکیوں اور پاکستانی امریکیوں نے جو ردعمل ظاہر کیا‘ اس میں مسیحی بچوں کی زبوں حالی کا بیان نہیں تھا‘ کیونکہ اس سانحہ میں مارے جانے والے سب بچے اور دوسرے لوگ پاکستانی تھے۔ سولہ دسمبر 2014ء کو پشاور کے ایک سکول پر جو دہشت خیز حملہ ہوا اس میں ہلاک ہونے والے 132 بچوں کی مذہبی شناخت بھی مفقود تھی۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں کالعدم تحریک طالبان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار کے (مبینہ) ترجمان احسان اللہ احسان کے ایک بیان پر مبنی تھیں‘ جس میں کہا گیا تھا کہ لاہور میں ایسٹر منانے والے مسیحیوں پر حملہ ہمارے آدمیوں نے حملہ کیا ہے‘ حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ تفریحی پارک میں جمع ہونے والوں کی اکثریت مسلمان تھی‘ جو سردیوں اور بارشوں کے طویل موسم کے اختتام پر اتوار کی چھٹی منانے کے لئے وہاں آئے تھے۔ ان میں سانگھڑ کا ایک خاندان بھی شامل تھا‘ جس کے آٹھ افراد کی نماز جنازہ سندھ میں ادا کی گئی۔ پاکستان میں مسیحی باشندے کْل آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ موقع پر مرنے والوں میں چودہ مسیحی اور چوالیس مسلم تھے۔ اخبارات نے احسان اللہ احسان کی اس دھمکی کو خاصی اہمیت دی ہے کہ ان کے عسکریت پسند‘ پنجاب پر مزید حملے کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان اور پنجابی حکومت کے درمیان مبینہ طور پر جو مفاہمت ہوئی تھی‘ وہ ختم ہو چکی ہے اور فوج کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ پنجاب میں ضرب عضب شروع کیا جا رہا ہے‘ جبکہ دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف فوجی مہم جاری ہے۔ احسان نے واضح طور پر کہا کہ جب تک ملک میں شرعی نظام نافذ نہیں ہوتا‘ ان کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ ایک شرعی نظام تو پاکستان میں نافذ ہے‘ اور اس کا ثبوت آئین کا وہ دیباچہ ہے جو قرارداد مقاصد کہلاتا ہے۔ طالبان بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پاکستان میں مذہب کے پردے میں فرقہ وارانہ نظریے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ اسی دن اسلام آباد کے حفاظتی (مرکزی) زون میں ہزاروں افراد کا تشدد آمیز دھرنا تھا۔ اگرچہ چار دن بعد یہ بحران بقول وزیر داخلہ ''بخیر و خوبی‘‘ ختم ہوا‘ مگر وہ ایک قوم کے دولخت ہونے کی تلخ یادیں چھوڑ گیا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: یہ رجحان دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے‘ اور اس کی مثالیں پیرس‘ انقرہ‘ استنبول‘ برسلز اور دوسرے مغربی شہروں میں مل سکتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم کا دورہء امریکہ منسوخ ہو گیا‘ وگرنہ اندیشہ تھا کہ واشنگٹن میں ان سے پاکستان کی ایٹمی قوت کو محدود کرنے کی یقین دہانی لے لی جاتی۔
کل ہی صدر اوباما کے جہاں گشت سفیر کا یہ بیان نشر ہوا کہ برسلز میں ہمارے دوستوں کی ایٹمی تنصیبات‘ بین الاقوامی معیاروں کے مطابق محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ سفیر موصوف نے یہ بیان ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں دیا کہ برسلز کے ہوائی اڈے سے ایک بمبار کا جو کمپیوٹر ملا اس پر بلجیئم کے وزیر اعظم کے دفتر اور گھر کی تصویریں بھی ہیں‘ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ دہشت کاروں نے ملک میں لگی ایٹمی تنصیبات کی ''ریکی‘‘ بھی کی ہو گی۔ دارالحکومت کے ایک موقر روزنامے نے آج ایک ادارتی نوٹ شائع کیا‘ جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستا ن کے جوہری ہتھیار لاہور پر حملہ کرنے والے دہشت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے تھے۔ واشنگٹن میں چین سمیت تقریباً پچاس ملکوں کی حکومتوں کے سربراہوں کی چوتھی کانفرنس کے موقع پر بڑے امریکی اخبارات میں صفحے بھر کا ایک اشتہار چھپا‘ جس میں بین الاقوامی شہرت کی تقریباً ایک سو شخصیتوں کی جانب سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ تباہ کن نیوکلیائی دہشت گردی کو روکنے اور بین الاقوامی معیاروں کی تشکیل‘ محاسبے اور تمام نیوکلیائی مواد کی حفاظت کی کوششں تیز کر دیں۔ اس پر پاکستان کے ریٹائرڈ خارجہ سیکرٹری ریاض محمد خان‘ امریکی اکابر جمی کارٹر اور ہنری کسنجر تو نظر آتے ہیں‘ مگر ہندوستانی والدین کی اولاد پروفیسر امرتیا سین (ہارورڈ) کے سوا کسی بھارتی نژاد کے دستخط نہیں‘ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی یہاں موجود ہیں۔ پاکستان کی نمائندگی‘ وزیر اعظم کے مشیر طارق فاطمی کر رہے ہیں۔ صدر اوباما نے دو روزہ اجتماع کی میزبانی کرنے سے پہلے نواز شریف کو فون کیا‘ جس میں پاکستان کے جانی نقصان پر یک جہتی کا اظہار اور برسلز اور لاہور کے سانحات کو انتہا پسندی کی زنجیر کی کڑیاں کہا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں