اب عورت کی باری ہے!

گنجان آباد میری لینڈ اور پنسلوینیا سمیت پانچ شمال مشرقی ریاستوں اور پھر نیو یارک کے ابتدائی (''پرائمری‘‘) انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر ایسا لگتا ہے کہ نومبر میں آخری صدارتی معرکہ ہلری راڈم کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ہو گا۔ ساڑھے سات سال پہلے امریکہ نے ایک سیاہ فام کو اپنا صدر چنا تھا‘ اب یہ ملک ایک عورت کو سربراہ منتخب کرنے کے لئے تیار معلوم ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے حریف سینیٹر ٹیڈ کروز نے‘ جو ان سے بہت پیچھے ہیں‘ ایک تکنیکی فرم کی سابق سربراہ اور مدمقابل خاتون کارلی فیورینا کے نائب صدر ہونے کا اعلان قبل از وقت کر دیا ہے‘ اور ٹرمپ نے اسے ان کی ''بے تابی‘‘ سے تعبیر کیا ہے‘ مگر انہیں معلوم ہے کہ ریپبلکن قیادت مسٹر ٹرمپ کو انتخابی مہم سے نکال باہر کرنے پر تلی نظر آتی ہے۔ بیشتر تارکین وطن کی طرح میں بھی ڈیموکریٹک امیدواروں کے حق میں ووٹ دیتا رہا ہوں‘ اس لئے گزشتہ مہینے بڑے منگل کو منہ اندھیرے ابتدائی الیکشن میں ووٹ دینے پولنگ سٹیشن جا پہنچا۔ قطار میں تین ووٹر میرے آگے تھے اور پیچھے کوئی نہیں تھا۔ کوئی فوجی یا پولیس والا بھی نہیں تھا۔ نہ کوئی بندوق نہ ڈھول‘ بس زیادہ تر رضاکار عورتیں تھیں‘ جو چھ سے چھ تک اپنی ڈیوٹی پر آ چکی تھیں۔ شناخت پر ایک خاتون نے پوچھا: کس پارٹی کو ووٹ دیجیے گا؟ جواب دیا: ڈیموکریٹک پارٹی کو۔ اس پر خاتون نے ایک کاغذ میری طرف بڑھا دیا‘ جس پر تینوں امیدواروں کے نام درج تھے۔ سرفہرست نام مسز کلنٹن کا تھا۔ میں نے ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے ریپبلکن امیدواروں کا کاغذ دیکھا بھی نہیں۔ نہ ہی کسی نے وہ کاغذ میری جانب بڑھانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی دوسرے رضاکار کی میز پر گیا تو اس نے ڈیموکریٹک کاغذ ایک فولڈر میں رکھا‘ اور میرے حوالے کر دیا۔ پاس ہی نشان لگانے کا سامان رکھا تھا۔ میں نے اپنے کاغذ پر نشان لگایا اور اس کاغذ کو ایک الیکٹرانی پریس میں دبا دیا۔ ایک خاتون نے خا لی فولڈر میرے ہاتھ سے لیا اور ایک گول سٹکر مجھے پیش کیا‘ جس پر فخریہ لکھا تھا: ''میں نے ووٹ ڈالا‘‘۔ میرا ووٹ ہو چکا تھا اور اس عمل پر دو منٹ صرف ہوئے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی پر ایک تقریر میں گلوبل ازم کو رد کر دیا‘ اور صدر اوباما کو براہ راست مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے‘ چین کے عروج اور روس کی مخاصمت کا ذمہ دار قرار دیا۔ اوباما نے اپنی پارٹی کی امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا: مسز کلنٹن کل ہی وائٹ ہاؤس کا کام کرنے لگیں گی‘ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو تربیت میں کئی ماہ بلکہ سال لگیں گے۔ خاتون 2008ء میں ڈیموکریٹک نامزدگی کے لئے اپنی پارٹی کے بارک حسین اوباما کی حریف تھیں۔ ٹرمپ نے امریکی سیاست میں وہ رجحان متعارف کرایا ہے‘ جو الابامہ کے نسل پرست گورنر جارج والس1919-98ء کا خاصہ تھا یعنی گورے ووٹروں سے ووٹ مانگو اور اقلیتوں کو گالی دو۔ٹرمپ نے مسلمان تارکین وطن کا داخلہ بند کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ صدر اوباما دشمن کا نام لیتے ہوئے ڈرتے ہیں جبکہ ''ریڈیکل اسلام‘‘ کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک انتخابی جلسے میں جارج بش کے دور کے سفیر زلمے خلیل زاد نے ان کا تعارف کرایا‘ اور ان کے خیا لات میں ایک ''ارتقا‘‘ دیکھا۔ امریکہ میں پناہ کے متلاشی ایک کروڑ سے زیادہ لاطینو باشندوں کی آمد روکنے کے لئے میکسیکو کی دو ہزار میل لمبی سرحد پر ایک دیوار بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے یہ کہہ کر نیٹو کی مخالفت کی کہ وہ تو سوویت یونین کے اشتراکی بلاک کے جواب میں بنائی گئی تھی۔ جنوبی کوریا اور جاپان کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے کی حمایت کی مگر سعودی عرب کو اپنے دفاع کا یہی حق دینے کے بعد مکر گئے۔ انہوں نے اوباما‘ ہلری کلنٹن کی خارجہ پالیسی پر حملہ کیا‘ اور کہا کہ ابوبکر بغدادی کی خلافت (داعش)کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انہوں نے چین کی درآمدات پر ٹیرف میں اضافے کے لئے کہا‘ اور انکم ٹیکس کا ایک ایسا نظام پیش کیا‘ جس سے ان کے ہم عصر ارب پتیوں ہی کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے حفظان صحت کے موجودہ نظام پر کڑی نکتہ چینی کی مگر کوئی متبادل نہیں بتایا۔ بایں ہمہ وہ صف اول کے ریپبلکن امیدوار ہیں اور صدر کے لئے ہلری کلنٹن کے مقابلے میں اگلا الیکشن لڑنے کے لئے تیار‘ ٹرمپ انڈیانا اور کیلے فورنیا بھی لے جائیں گے۔ یہ امریکی جمہوریت میں ایک نیا رجحان اور اس قوم کی بدقسمتی ہے۔
الی نائے سے زیادہ شکاگو مشہور ہے۔ بارک اوباما بھی‘ جو ایک مسلمان افریقی کی اولاد ہیں‘ اسی شہر سے پہلے سینیٹ کی ایک نشست کے لئے اور پھر صدر کے الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے۔ امریکہ میں اسلام کے علمبردار الیجا محمد مشی گن سے فارغ ہونے کے بعد اسی شہر میں آ بسے اور ان کے فرزند وارث دین محمد بھی اس شہر سے اللہ کو پیارے ہوئے ہیں۔ الیجا کے شاگرد لوئس فرخان‘ جو استاد کی وفات کے بعد ان کے ورثے کے امین سمجھے جاتے ہیں‘ اسی شہر میں رہتے ہیں۔ تارکین وطن کی سب سے بڑی جماعت اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اثنا)‘ جس کا ہیڈکوارٹر بھی ہمسایہ ریاست انڈیانہ کے گاؤں پلینز ول میں ہے‘ لیبر ڈے پر اپنا سالانہ جلسہ شکاگو میں کرتی ہے۔ دوسری بڑی پارٹی اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ بھی اپنے بیشتر سالانہ اجلاس اسی شہر میں کرتی ہے۔ اب ان جماعتوں میں افریقی امریکی بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ امریکہ کے دوسرے بڑے شہر کو اسلام کا دارالخلافہ کہا جاتا ہے۔
شکاگو میں سینتالیس فیصد سفید فام رہتے جبکہ سیاہ فاموں کی آبادی تینتیس فیصد ہیں‘ چونکہ وہ رنگدار ہیں اس لئے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر‘ خواہ وہ نقل وطن کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں‘ اکثریت میں ہو جاتے ہیں۔ وہ‘ ورکنگ کلاس وائٹ کو خوش کرنے اور ان کے ووٹ چھیننے کے لئے مسلمانوں کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات سے ناخوش تھے۔ ایک موقعہ پر انہوں نے کہا: دنیا کے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے ''بڑے حصے‘‘ میں (ہمارے خلاف) ''شدید نفرت پائی جاتی ہے‘‘۔ ''تاخیر ہونے سے پہلے‘ ہمیں‘ یہ مسئلہ حل کرنا ہے‘‘۔ شکاگو والے‘ جن میں کالے اور گورے سبھی شامل تھے‘ بڑی تعداد میں باہر نکلے اور ٹرمپ کے حواریوں سے گتھم گتھا ہو گئے اور ٹرمپ کیمپ کو یونیورسٹی آ ف الی نائے میں اپنا یہ انتخابی اجتماع منسوخ کرنا پڑا۔ وہ سینٹ لوئس (مزوری) میں ایسا ہی ایک جلسہ کرکے شکاگو آ رہے تھے‘ جہاں سیاہ فام اکثریت میں ہیں۔ (چونتالیس فیصد بمقابلہ اڑتالیس فیصد) لاطینی امریکہ کے لوگوں کی اکثریت‘ بوقت ضرورت رنگدار لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔ ڈیٹن‘ اوہایو میں ایک شخص سٹیج کی جانب لپکا تو خفیہ سروس کے دو آدمیوں نے بڑھ کر مسٹر ٹرمپ کو اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا‘ اور ٹرمپ بولے: میں نہ کہتا تھا کہ ہر قسم کے حملے کے لئے تیار ہوں۔
میں نے چار ریپبلکن اور چار ڈیموکریٹ وائٹ ہاؤس میں آتے جاتے دیکھے ہیں‘ مگر جو دھینگا مشتی اور خون خرابہ سابق پیشہ ور پہلوان ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی جلسوں میں دیکھا پہلے نظر نہیں آیا۔ مسٹر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کا پیغام امن ہے اور یہ کہ وہ تقسیم کرنے والے نہیں متحد کرنے والے ہیں‘ مگر انہوں نے جنوبی امریکہ سے امریکہ کا رخ کرنے والے اقتصادی پناہ گزینوں اور مسلمانوں کے خلاف جو بیانات دیے اور جس طرح اپنے حامیوں کو احتجاج کرنے والوں ''کے منہ پر گھونسا رسید کرنے‘‘ اور عدالتوں میں ان کی پیروی کا یقین دلایا‘ وہ ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ نامزدگی کا امریکی امیدوار‘ خواہ وہ ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ انتخابی مہم کے دوران ایسی باتیں کرتا ہے جو ایک قوم کے لیڈر کو زیب نہیں دیتیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا عروج ظاہر کرتا ہے کہ ہر ملک میں قانون کی حکمرانی‘ احتساب‘ شفافیت اور شرف انسانی کا احترام اور دوسری لبرل اقدار ماند پڑ رہی ہیں‘ اور ہلری کلنٹن کو اس پسپائی کا احساس ہے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسلام آباد میں ایک بار انہیں ''پاکستان کی ساس‘‘ کہا گیا تھا اور انہوں نے یہ بات ایک قہقہے میں اڑا دی تھی۔ کسی امریکی عہدیدار سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنے ملک کے مفاد کے خلاف بات کرے گا‘ بعید از قیاس ہے؛ البتہ میرے خیال میں پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کو خاتون سے زیادہ کوئی امیدوار نہیں سمجھتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں