چلے کنبھ میلے

رانجھے نے جوگ لینے کے بعد سہتی سے کہا: ہمی گنگ باسی چلے کنبھ میلے‘ ہمی پکھی (پنچھی) سمندروں پار کے جی۔
اجین‘ مدھیہ پردیش (سی پی) میں یہ میلہ ہر چار سال بعد لگتا ہے اور اس میں لاکھوں یاتری اور سادھو سنت شریک ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ ہندوستان کے ہیجڑے‘ جنہیں خسرے بھی کہا جاتا ہے‘ بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ وہ انڈین سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے سرشار ہیں‘ جس میں انہیں انسان کی تیسری جنس تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انہیں ایسا ہی مانا تھا‘ اور ان کو نوکریوں میں جگہ دئیے جانے کا حکم دیا تھا‘ مگر ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی اب تک ان سے غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ٹیلی ویژن کے بعض اینکر تو ان کا نام آتے ہی مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی تیسری جنس سے مخول کرنے والوں کی کمی نہیں‘ اور امریکی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق حکومت نے میلے میں اپنا کیمپ لگانے کے لئے انہیں جگہ الاٹ کر دی ہے؛ تاہم مذہبی گرو جو ہندوئوں کے بارہ مسلکوں (اکھاڑوں) کی سربراہی کرتے ہیں‘ اور میلے میں شرکت کرتے ہیں‘ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ہیجڑوں کا تیرہواں ''اکھاڑہ‘‘ تسلیم نہیں کریں گے۔ نریندر گری مہاراج‘ جو آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے صدر ہیں‘ کہتے ہیں: ہم معاشرے میں تیسری جنس کا احترام کرتے ہیں‘ مگر ہم انہیں مقدس غوطہ لگانے کی اجازت نہیں دیں گے‘ یہ ہندو قانون کے خلاف ہے‘ ہم انہیں کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اس لئے ہیجڑے یہ عزم رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے باوصف ملازمتوں اور تعلیم کے لئے ان کو لڑنا پڑے گا۔ پشپا گڈوانی نے‘ جو جے پور میں تیسری جنس کے ساتھ مل کر سماجی کام کرتی ہیں‘ کہا: سپریم کورٹ کا فیصلہ فائلوں میں دبا ہے اور زمین پر حقائق کچھ اور ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ شہر میں ان کی کمیونٹی کے ارکان کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے اور ان میں سے ایک ہزار اب بھی اپنی جنس کو پوشیدہ رکھتے ہیں‘ اور ان میں سے بہتے بھیک ما نگتے یا کم تر ملازمتیں کرتے ہیں۔
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی ایک مخصوص قسم کی تالی (گِدا) خسروں کا ٹریڈ مارک ہے۔ وہ شادی بیاہ کے موقع پر ناچتے گاتے یا بیٹا پیدا ہونے کی صورت میں بھیک مانگتے ہیں۔ زنانہ لباس پہنتے اور الگ تھلگ رہائش اختیار کرتے ہیں۔ ہیجڑے مل کر رہتے ہیں کیونکہ اکثر والدین ان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ ان کی قبروں کا نشان بھی مشکل سے ملتا ہے۔ چونکہ انہیں زنانے اور مردانے میں یکساں رسائی حاصل ہوتی ہے‘ اس لئے دنیا کے بادشاہوں بالخصوص ترک اور مغل حکمرانوں میں ان کی پذیرائی ہوتی رہی۔ بعض ہیجڑے‘ جو خواجہ سرا (محل کا سردار) کہلاتے تھے‘ ترقی کرتے کرتے شاہ کے رازداں بن گئے‘ اور بادشاہ گر کہلائے۔ اب وہ وہی مرتبہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور منظم ہو رہے ہیں۔
انڈین سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد یہ پہلا کنبھ میلہ ہے جس میں ایک ماہ تک ہندو یاتری پوجا پاٹھ کریں گے‘ بھجن گائیں گے اور شپرا دریا کے مقدس پانیوں میں‘ جہاں شیوجی مہاراج کے ہاتھ سے آب حیات گرا تھا‘ غوطہ لگائیں گے۔ ہندوستانی ہیجڑے بھی اس پانی میں نہانا اور اپنے گناہوں کو دھونا چاہتے ہیں۔ یہ میلہ تو صدیوں پرانا ہے‘ مگر اس میں نئی ٹیکناولوجی کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں‘ مثلاً وائی فائی کے ہاٹ سپاٹ‘ بجلی سے چلنے والے رکشا اور دولت مندوں کے لئے ٹینٹ سٹی‘ بہتے دریا میں جگہ جگہ پانی صاف کرنے کے آلات (floating filtration devices) نظر آتے ہیں‘ جو آلودگی کو الگ کرکے مقدس غسل کے شائقین کے لے مصفا پانی مہیا کرتے ہیں۔ اب ہندوستانی ہیجڑے اس مقدس پانی میں نہانا اور اپنے گناہوں کو بخشوانہ چاہتے ہیں۔
امریکہ میں ہیجڑے بکثرت ہیں۔ وہ زنانہ لباس نہیں پہنتے۔ انہوں نے شہر شہر اور ملکی سطح پر اپنی تنظیمیں قائم کی ہیں‘ جو قانونی فتوحات سے ہم کنار ہیں۔ LGBT مخفف ہے لزبین‘ گے‘ بائی سیکسوئل اور ٹرانس جنڈر کا‘ جو ہیجڑوں کے چار بڑے زمرے ہیں۔ حال ہی میں پنسلوینیا نے قرار دیا کہ سکول کے بچے اپنی پسند کا غسل خانہ استعمال کر سکتے ہیں‘ مگر نارتھ کیرولائنا نے کہا کہ بچے‘ اپنے برتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق باتھ روم استعمال کریں گے۔ ساؤتھ ڈکوٹا بھی ایسا ایک قانون بنا رہی ہے۔ ریاستیں ایسے معاملات میں قانون سازی کی مجاز ہیں۔ یہاں بھی ''گے اور لزبین‘‘ کو تفریق و امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قانون عام طور پر ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اب تیسری جنس‘ جو مرد اور عورت کے اوصاف سے متصف ہے‘ ان اتحادوں میں شامل ہو گئی ہے۔ نہ مرد نہ عورت یا سرجری کے ذریعے ایک سے دوسری صنف میں جانے والے بھی اس اتحاد میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک مثال جے ایڈگر ہوور ہیں‘ جو گیارہ سال وفاقی پولیس (ایف بی آئی) کے سربراہ رہے‘ اور چھ صدر ان سے خوف کھاتے رہے۔ کانگرس کے چھ رکن کھل کر ہوموسیکسوئل ہیں‘ یا مغربی محاورے کے مطابق کلازٹ سے باہر آ چکے ہیں۔ ان میں 76 سالہ سابق کانگرس مین بارنی فرینک اور 74 سال کے سابق سپیکر ڈینس ہیسٹرٹ (Hastert)‘ جن کا امریکی قیادت میں تیسرا نمبر تھا‘ شامل ہیں‘ اور ان کی مرد بیویاں (صنف مخالف) بھی ہیں۔ ہیسٹرٹ کو عشرے پہلے سکول کے پانچ لڑکوں کو نامناسب انداز میں ہاتھ لگانے کے جرم میں شکاگو کے ایک جج نے پندرہ ماہ قید کی سزا دی ہے۔ ساؤتھ ڈکوٹا بھی ایسا ایک قانون منظور کر رہا ہے۔ وہ سب خود بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ ان میں سے کئی‘ لے پالک بچے پالتے ہیں۔ کیلی فورنیا کے ایک ''جوڑے‘‘ نے ایسے دو بچوں کی پرورش کی تھی‘ جو اب بالغ ہیں اور میاں جو 70 سال کی عمر میں مرد سے عورت بن چکے ہیں‘ ایک سرجن تھے۔ یہ فرد ایک عرصے سے اپنی بیوی کو بتا رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک مرد کے جال میں پھنسا پاتا ہے۔ گویا 70 سال کی عمر میں ڈاکٹر صاحب بل روہر سے کیٹ روہر بن گئے ہیں یا بن گئی ہیں۔ ایسا ہی ایک نامور فرد اولمپک ایتھلیٹ کیٹلن جنر ہے‘ جو مرد (بروس) سے عورت بن گئی‘ اور اس کی تصویریں ہر فیشن میگزین میں شائع ہوئیں۔ سائنس کو اصرار ہے کہ وہ سب اسی طرح پیدا ہوئے تھے۔ ہزاروں شاید لاکھوں امریکی‘ جو اسی حالت میں پیدا ہوئے تھے‘ مشہور ہیں‘ اور ان میں خواجہ سرائوں کے علاوہ ڈریگ کوئین بھی ہیں‘ جو درجنوں فلموں کا موضوع بن چکی ہیں۔ لائل پور کے افتخار ( افتی) نسیم نے ہمارے سامنے کبھی زنانہ لباس نہیں پہنا۔ وہ شکاگو میں مہنگی کاروں کا کاروبار کرتا تھا اور ایک اچھا شاعر اور نثر نگار تھا۔ ایک سکھ سے شادی کر رکھی تھی جو آٹھ سال پہلے اس کی وفات تک جاری رہی۔ اس نے نرمان کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے‘ جس میں پیدائش پر بچے کی جنس غیر واضح ہونے کی مثالیں دی گئی ہیں۔
شپرا سے خاص نہیں‘ ہندوستان اور پاکستان کا تقریباً ہر دریا آلودہ ہے۔ یہ ترقی کا نتیجہ ہے اور ناگزیر ہے۔ یہ ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک کا مسئلہ ہے۔ امریکہ‘ چین اور ہندوستان اس معاملے سرفہرست ہیں‘ اور اب پاکستان بھی تھر کے کوئلے پر مبنی ایک بجلی گھر قائم کرکے اس فہرست میں شامل ہونے والا ہے۔ امریکہ میں کول کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں‘ اور ہوا اور دھوپ سے بجلی بنانے کی ٹیکنالوجی سستی ہو رہی ہے۔
یوم ارض پر نیو یارک میں 175 ملکوں کے نمائندوں نے آب و ہوا کے ایک معاہدے پر دستخط ثبت کئے؛ تاہم جب تک دھواں پھیلانے والے پچپن فیصد ملک ایک پیچیدہ قانونی عمل سے گزر کر اپنے اپنے دارالحکومت میں اس معاہدے کی توثیق نہیں کرتے‘ یہ موثر نہیں ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی سال بھر کی نواسی کو گود میں لئے اس عالمی قانون پر دستخط کئے۔ یہ عمل اسی سال مکمل ہونا چاہیے وگرنہ سائنسدان خبردار کر رہے ہیں کہ دنیا میں گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ ہو گا‘ خوراک کم پڑ جائے گی‘ خشک سالی زوروں پر ہو گی اور سمندروں کی سطح اور زیادہ بلند ہو گی۔ اس وقت تک یہ دو سالہ بچی‘ پل کر جوان ہو جائے گی مگر معاہدے کی ناکامی کی صورت میں اسے اور دنیا کے لاکھوں بچوں کو جوانی راس نہیں آئے گی‘ اور بڑھاپا زیادہ ناگوار ہو گا۔
ہمارا گولہ عشرہ بہ عشرہ گرم ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے باہر احتجاج کرنے والے کہہ رہے تھے۔ یہ عہدنامہ‘ ضرورت سے کم ہے۔ انہوں نے نقلی جنازے اٹھا رکھے تھے۔ ایک کتبے پر درج تھا: ''مار ڈالا‘ ملکوں کی ناکامی نے‘‘۔ ٹام سٹیئر جو ایک ارب پتی اور ماحولیات کے سر گرم کارکن ہیں معاہدے کی تعریف کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں