طالبان کا نیا امیر

امریکہ نے محمد اختر منصور کو بلوچستان کے ایک گاؤں کے قریب مار کر پاکستان کو جنگ سے ہم کنار کر دیا ہے‘ اور اس نے امن کی بات چیت کا مستقبل بھی تاریک کر دیا ہے۔ دریں اثنا اس نے کوئٹہ شوریٰ کی کہانی کا پردہ چاک کر ڈالا ہے‘ جہاں افغان طالبان کا آنا جانا تھا۔ پاکستان ان دونوں حقائق کے بارے میں بوجوہ گومگو کی حالت میں رہتا رہا ہے۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز صدر اوباما سے چار دن بعد تسلیم کرتے ہیں کہ اکیس مئی کو بلوچستان میں مارا جانے والا افغان طالبان کا امیر ہی تھا‘ جو پاکستان کی جعلی دستاویز پر ایران گیا تھا۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ''طالبان لیڈرشپ‘‘ پاکستان میں ہے‘ مگر انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا نصب العین طالبان لڑاکوں اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات کی سہولت پیدا کرنا ہے۔ پاکستان‘ امریکہ‘ چین اور افغانستان میں مفاہمت کے لئے چار نشستیں ہو چکی ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ملا منصور مذاکرات میں رکاوٹ تھے‘ جبکہ طالبان کہتے تھے کہ ان کے ملک پر امریکہ کے قبضے کے دوران وہ افغان حکمرانوں سے رابطہ کیونکر کر سکتے ہیں؟
پاکستان اور امریکہ میں بداعتمادی کی فضا انتہا کو پہنچ چکی ہے‘ مگر پرانے دوستوں میں رواداری اب بھی باقی ہے۔ صدر اوباما نے واقعہ کی تصدیق ہفتے کے روز ہی کر دی تھی‘ لیکن وزیر داخلہ نثار علی جمعرات تک ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار کرتے رہے۔ ایک دن پہلے طالبان نے ہیبت اللہ اخوندزادہ نورزئی کو اپنا امیر مان لیا تھا‘ جو 1996-2001ء طالبان کی حکومت میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز تھے‘ اور حکومت ختم ہونے پر بلوچستان چلے گئے تھے‘ جہاں ایک سال پہلے ملا منصور کی نظر میں آنے تک وہ پاکستان کے مختلف مدرسوں میں دینیات کا درس دے رہے تھے۔ ہیبت اللہ کا تقرر ہو سکتا ہے کہ طالبان کی آپس کی لڑائیاں ختم کر دے مگر اس کے ساتھ یہ امیدیں خاک میں مل گئی ہیں کہ پندرہ سال کے جنگ و جدل کے بعد وہ شاید امن کی طرف زیادہ مائل ہوں۔ طالبان کے بھیجے ہوئے ایک خود کش بمبار نے گیارہ سرکاری ملازمین کو مار ڈالا جو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے بقول انتقام تھا چھ قیدی طالبان کا جنہیں چند روز پہلے پھانسی دی گئی۔ ہیبت اللہ نے سوویت فوجوں کے خلاف لڑنے والی سات تنظیموں میں سے ایک کے بانی جلال الدین حقانی کے فرزند سراج‘ اور طالبان کے بانی محمد عمر کے صاحبزادے یعقوب کو اپنا نائب مقرر کیا‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ طالبان کی نئی نسل کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں‘ اور دور تک جانا چاہتے ہیں۔
چودھری نثار علی کہتے ہیں کہ پاکستان پر کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ ٹیکسی کو میزائل لگا جو باہر سے چلایا گیا تھا۔ اسلام آباد میں سب سرگرمیاں ویسی ہی تھیں‘ جیسے کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہو۔ پاکستان نے اس کارروائی کو اپنے خلاف جارحیت سمجھ کر واشنگٹن اور اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے مذمت کے لئے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو طلب کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے وزیر اعظم نواز شریف کو فون پر اطلاع دی‘ جو اس وقت لندن میں تھے۔ امریکی سفیر نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تو انہوں نے امریکی سفیر کو بتایا کہ اس اقدام سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد متاثر ہو سکتی ہے۔ دو سال پہلے جب ضرب عضب کا آغاز ہوا تو پاکستان پر ڈرون حملے نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ آرمی چیف نے افغانستان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا کہ مولوی فضل اللہ 
سواتی (ملا ریڈیو) اور دوسرے پاکستانی دہشت پسندوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی‘ جو افغانستان میں پناہ گزین ہیں؟ پاکستان اور امریکہ کو اس بیان پر تشویش ہونی چاہیے جو ہیبت اللہ نے طالبان کا امیر بننے کے بعد دیا: ''ہم منصور اور عمر کی پالیسیوں پر چلیں گے‘ نہ اوباما سے بات کریں گے‘ نہ اشرف غنی سے‘ ہم لڑیں گے‘‘۔ یہ بیان ایک آڈیو ٹیپ کی صورت میں مجاہد نے جاری کیا۔(بعد ازاں اس کی تردید ہو گئی)
کوہ تفتان کے راستے ایرانی سرحد سے اندر آنے والے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اعظم کے ساتھ، دوسرے سوار ولی محمد دراصل ملا منصور ہی تھے۔ یہ انکشاف پاکستان کے قومی اداروں بالخصوص پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے محکموں کی قلعی بھی کھولتا ہے۔ افغان طالبان کے امیر نے کراچی سے ڈیڑھ درجن ہوائی سفر بھی کئے۔ منازل مقصود میں دبئی‘ بحرین اور ایران شامل تھے۔ بجا طور پر‘ ایران کہتا ہے کہ اس کی سرحد سے کوئی محمد اختر منصور نہیں گزرا۔ باور کیا جاتا ہے کہ منصور نے کوئٹہ میں بھاری رشوت دے کر ولی محمد کے نام سے اپنا شناختی کارڈ بنوایا‘ اس کی بنا پر اسی نام سے پاسپورٹ حاصل کیا اور بلا روک ٹوک پاکستان اور ایران کا سفر کرتا رہا۔ بلوچستان میں اس کا دفتر اور ایران میں اس کا گھر تھا۔
واشنگٹن میں موقر تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے بروس رائڈل(Bruce Riedel) نے کہا: ''یہ پاکستان میں طالبان کی قیادت کی گردن اڑانے کا عدیم المثال اقدام تھا۔ یہ طالبان کے فروغ اور انہیں تحفط دینے میں پاکستان کے حصے کو بھی بے نقاب کرتا ہے‘ اور امریکہ پاکستان تعلقات میں ایک بحران کو ہوا دے گا‘‘۔ امریکہ اپنے گھریلو حالات اور اتحادیوں کے دباؤ کے پیش نظر اس طویل جنگ سے نکل آنا چاہتا ہے‘ اور اسے یقین تھا کہ طالبان قیادت اس جنگ کو پشتون صدر اشرف غنی اور غیر پشتون شمالی اتحاد کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے حق میں طے کرنے میں رکاوٹ ہے۔ افغانستان میں کم و بیش دس ہزار امریکی فوجی اب تک تعینات ہیں۔ لڑائی کے آداب کے مطابق‘ انہیں دفاعی پوزیشن میں رہنا چاہیے۔ وہ طالبان کے خطرے سے بچنے کے لئے ''دفاعی اقدام‘‘ کر سکتے ہیں۔ امریکہ نے یہ کہہ کر اپنے دیرینہ دوست کو احتجاج کا جواز مہیا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملہ افغانستان پاکستان کی سرحد کے قریب کیا گیا۔ احمد وال ڈیورنڈ لائن سے کم از کم سّتر کلومیٹر دور ہے۔ یہ گاؤں واہگہ اور اٹاری شام سنگھ کے طرح سرحد کے دونوں جانب واقع نہیں۔ امریکی قیادت میں کام کرنے والی مخلوط فورس کے ترجمان بریگیڈیر چارلس کلیولینڈ کہتے ہیں کہ امریکی فوج کو منصور کی شکل میں لاحق خطرے کو دور کرنے کا موقع ملا۔ امریکی حکام نے کہا کہ منصور نے چونکہ افغان لیڈروں سے بات چیت سے انکار کیا تھا‘ اور امریکی سپاہیوں پر حملے کی سازش کر رہا تھا‘ اس لئے ڈرون ضربیں جائز تھیں۔ ان کو ہیبت اللہ کا بیان دکھانا چاہئے۔
وزارت خارجہ کا قلمدان شروع سے وزیر اعظم کے پاس ہے‘ اور اس سے پاکستان جیسے مطلق العنان ملک میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف ڈرون حملے کے وقت لندن میں تھے۔ ان کے رد عمل سے ظاہر ہوا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فون پر انہیں اس حملے کی اطلاع دی مگر حملے سے سات گھنٹے بعد۔ وزیر دفاع لی آن پنیٹا نے ایبٹ آباد پر حملے کی اطلاع بھی اسی طرح دی تھی کیونکہ انہیں خبر لیک ہونے کا اندیشہ تھا۔ (باقی صفحہ13پر)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں