اسلام کا حسین چہرہ

محمود بٹ فارغ اوقات میں اپنی باکسنگ کی داستانیں سنایا کرتے تھے اور ہم لوگ سوچتے تھے کہ پاکستان ٹائمز مرحوم کے سٹاف آرٹسٹ کا مکہ بازی سے کیا کام؟ اتنے میں نیوز روم سے خبر آگئی کہ کیسئس مارسیلس کلے جونیئر (1942-2016ء) Cassius Marcellus Clay, Jr. نے پولینڈ کے مکہ باز کو ہرا کر عالمی ہیوی ویٹ چمپیئن کا ٹائٹل جیت لیا ہے۔ میں نے مودی بٹ کو چھیڑا۔ اگر آپ کا میچ امریکی باکسر کے ساتھ رکھ دیا جائے تو کیسا رہے گا؟ بٹ صاحب کانوں کو ہاتھ لگا کر امرتسری پنجابی میں بولے: نہ جی نہ‘ وہ تو بھینسے کو مکہ مار دے تو چوپایہ پھڑک کر مر جائے‘ میں تو دو پیروں پر چلنے والا انسان ہوں۔
میں نے بٹ صاحب کو باکسنگ کرتے کبھی نہیں دیکھا‘ مگر ان کا قد کاٹھ ظاہر کرتا تھا کہ وہ کبھی باکسر رہے ہوں گے۔ وہ باکسنگ کے عالمی منظر پر گہری نظر رکھتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ کلے کا مُکہ حریف کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ جب وہ بایاں بازو آگے بڑھا کر دائیں سے مکہ رسید کرتے تھے‘ تو دشمن کو اس امتزاج کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا اور وہ ڈھیر ہو جاتا تھا۔ 1960-72ء کے عرصے کے دوران انہوں نے کوئی ایک سو لڑائیاں لڑیں۔ 56 میں جیتے اور پانچ میں ہارے۔ وہ تین بار عالمی چمپیئن بنے اور 74 سال کی عمر پا کر ملک الموت کے سامنے خود ڈھیر ہو گئے۔ سابق صدر بل کلنٹن نے کہا: آج میرا دوست مر گیا۔ وہ لوئی ول کنٹکی میں جمعہ کے دن چمپ کی تدفین میں بھی شریک ہوئے۔ کلے جونیئر کے بچپن میں گورے اور کالے الگ الگ تھے‘ مگر آج شہر کے سفید فام میئر نے قومی پرچم سر نگوں کر رکھے تھے۔ صدر بارک حسین اوباما اور دنیا کے دوسرے لیڈروں نے تعزیت کے بیانات جاری کئے۔ ان میں ایک بیان نواز شریف کا بھی تھا‘ جو لندن کے ایک ہسپتال میں دل کی جراحت کے بعد آرام کر رہے تھے۔ 1988ء میں کلے‘ جو عرصہ پہلے مسلمان ہو چکے تھے اور محمد علی کہلاتے تھے‘ پاکستان کے دورے پر گئے اور نواز شریف سے بھی ملے جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔
اس کے کچھ عرصے بعد وہ واشنگٹن میں تھے۔ میں نے نیشنل سیمی ٹری‘ آرلنگٹن‘ ورجینیا (قومی قبرستان) میں ان کی آمد کو خبروں کا موضوع جانا اور موقع پر جا پہنچا۔ ان کے ساتھ نصف درجن اور لوگ بھی تھے اور وہ سب ایک گمنام سپاہی دوست کی تدفین کے لئے قبرستان آئے تھے۔ محمد علی کے ہاتھوں میں رعشہ (الزہائمر) کی بیماری کے آثار نمایاں تھے۔ وہ بات چیت سے احتراز کرتے تھے مگر ان کا چھ فٹ تین انچ ڈھانچہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اندر سے مضبوط ہیں۔ یہ جان کر بے حد خوش ہوئے کہ میرا تعلق لاہور سے ہے‘ جہاں وہ صوبائی لیڈر سے ملے تھے‘ اور کالج کے طلبا کے ساتھ نمائشی میچ کھیلے تھے۔ وہ اپنی اہلیہ لانی کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔ اس موقع پر اسلام آباد‘ پشاور اور کراچی بھی گئے تھے۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے محمد علی کی وفات کی کوریج بھرپور انداز میں کی‘ مگر اس حقیقت کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی کہ چمپ نے ساری مادی اور روحانی ترقی اسلام قبول کرنے کے بعد کی‘ اور بعد ازاں جب انہوں نے اسلام کا خوبصورت چہرہ امریکہ اور باقی دنیا کے سامنے پیش کیا تو ساری قوم عش عش کر اٹھی۔ کیسئس کلے جونیئر نے 1964ء میں عالیجا ہ محمد کے ہاتھ پر اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا۔ اس معاملے میں وہ کس قدر سنجیدہ تھے‘ اس کا اندازہ ان کے ایک جملے سے ہوتا ہے۔ اپنی تصنیف The Greatest میں لکھتے ہیں: ''جب اٹلانٹا‘ جارجیا میں مقابلے کی تیاریاں جاری تھیں‘ ایک ٹرینر نے پوچھا: اس مقابلے میں آپ کون سا نام استعمال کریں گے؟ تو میں نے با آواز بلند کہا: محمد علی‘‘۔ وہ کئی سال اپنے آپ کو عظیم ترین کہتے رہے مگر بتدریج ان پر یہ راز افشا ہوا کہ عظیم ترین اللہ کی ذات ہے۔ ہالی وڈ میں چائنیز تھیٹر کے سامنے فٹ پاتھ پر نامور اداکاروں کے نام کندہ ہیں‘ جنہیں سیاح حیرت سے تکتے ہیں‘ اور اپنی پسند کی شخصیتوں کے پاؤں میں پاؤں ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب محمد علی سے اس نمائش میں شامل ہونے کو کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا: ''میرا نام محمد علی ہے۔ میرے نزدیک ہر دو نام معزز اور محترم ہیں۔ ان کے نشانات زمین پر نہیں چھوڑے جا سکتے‘‘۔ بالآخر محمد علی کے قدموں کے نشان ایک دیوار میں نصب کر دیے گئے۔ اسی زمانے میں صدر جارج بش نے انہیں ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز پیش کیا‘ اور پھر وہ اقوام متحدہ کے گشتی سفیر مقرر ہوئے۔
جب کلے نے مذہب تبدیل کیا تو عالیجا ہ موٹر سازی سے ریٹائر ہوکر مشی گن سے نقل مکانی کر کے شکاگو میں آباد ہو چکے تھے۔ رفتہ رفتہ عالیجاہ کے نائبین کو علم ہوا کہ انہیں اسلام کا راستہ دکھانے والا خود مذہب کے اخلاقی معیاروں پر پورا نہیں اترا‘ تو وہ انہیں چھوڑ کر جانے لگے۔ جب مالکم ایکس‘ جو حج کرکے واپس آئے تھے اور اسلام کو کالوں کا مذہب تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے‘ کو پتہ چلا کہ یہ شکایت درست ہے کہ عالیجا اسلام کے راستے سے بھٹک چکے ہیں‘ تو انہوں نے شور مچایا‘ اور نیو یارک میں ایک مسجد قائم کرنے کی کوشش میں قتل ہوئے۔ محمد علی چپ چاپ ''نیشن آف اسلام‘‘ سے الگ ہو گئے اور اہل سنت کے دین پر چلنے لگے۔ عالیجا ہ کی وفات کے بعد ان کے باریش فرزند وارث دین محمد بھی‘ جنہیں سعودی عرب نے امریکہ کی اسلامی تنظیموں میں رقوم کی تقسیم کے لئے ''امین‘‘ مقرر کیا تھا‘ باپ کی وراثت سے تائب ہو گئے۔ اب لوئس فرخان ''نیشن‘‘ کے سربراہ ہیں‘ جو ایک عسکریت پسند تنظیم ہے‘ اور گزشتہ سال ''ملین مین مارچ‘‘ کی بیسویں سالگرہ منا چکی ہے۔ میں نے محمد علی کو ''نیشن‘‘ کی وردی میں بھی دیکھا ہے‘ جس کی گول ٹوپی پر درج تھا N-O-I جو نیشن آف اسلام کا مخفف تھا۔
محمد علی ورلڈ ہیوی ویٹ چمپیئن تھے‘ جو اقبال مندی کا ٹائٹل تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ اچھے شاعر‘ اداکار‘ مصنف اور مبلغ بھی تھے۔ ان کی دولت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک مخیر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے چار شادیاں کیں‘ اور نو بچے پیدا کئے۔ ایک بار دو بیویاں ان کے حرم میں تھیں۔ امریکی قانون کی رو سے وہ صرف ایک بیوی رکھ سکتے تھے۔ انہوں نے قانون کو دوسری عورت کے حوالے سے مطمئن کر دیا۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ دو بچوں کی حد سے بھی انحراف کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں بچوں سے پیار تھا۔ ایک وڈیو میں انہیں چار سال کے ایک بچے کے ہاتھوں پٹتے اور بالآخر فرش پر گرتے دکھایا گیا ہے۔ شاید وہ زیادہ بچوں کے کفیل ہو سکتے تھے۔ بچپن کا ایک واقعہ ہی ان کے باکسنگ کا پیشہ اختیار کرنے کا سبب بنا۔ ان کا بائیسکل ایک چور لے بھاگا تھا۔ وہ ایک پولیس مین کے پاس گئے اور اس سے چور کا اتہ پتہ پوچھا۔ وہ شدید غصے کی حالت میں تھے اور چور کو مار مار کر سبق سکھانا چاہتے تھے۔ پولیس والے نے کلے کو مشورہ دیا : '' پہلے اپنے غصے پر قابو پاؤ اور پھر چور کو اس کے کئے کی سزا دینے کا سوچو‘‘۔ اتفاق سے یہ پولیس مین‘ جزوقتی باکسنگ کوچ بھی تھا۔ اس نے جوان سال کلے کو مکہ بازی کی راہ پر ڈالا‘ اور بعد میں اسے ماہر ٹرینر بھی ملے۔ وہ سنی لسٹن‘ جو فریزر‘ جارج فورمین اور لی سپنکس جیسے تجربہ کار مکہ بازوں سے محاذ آرائی کے وقت بھی انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ جو ان کا ایک ہتھیار بن گیا۔ ان کے گلوز‘ سمتھ سونین عجائب گھر میں رکھ دے گئے ہیں۔
محمد علی کا قبول اسلام‘ گو قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی مگر مذہب کی تبدیلی‘ جو ان کے لئے راہ نجات تھی‘ چیلنج بن گئی۔ اس زمانے میں ڈرافٹ کا قانون باقی تھا اور ویت نام کی جنگ زوروں پر تھی۔ اپریل 1967ء میں محمد علی کو ڈرافٹ (جبری بھرتی) کا نوٹس ملا تو انہوں نے جنگ کا ایندھن بننا رد کر دیا۔ جواب میں انہوں نے لکھا: ''ہم دو سو سال سے زیادہ عرصے سے گورے کی جیل میں ہیں‘ لہٰذا ہم اس کی لڑائی نہیں لڑ سکتے‘‘۔ ماتحت عدالت نے علی کا جواب دعویٰ جس میں ''باضمیر معترض‘‘ کا موقف اختیار کیا گیا تھا‘ رد کر دیا اور انہیں پانچ سال قید کی سزا دی تاہم وہ جیل سے باہر رہے۔ اس قانونی لڑائی میں ان کے ایتھلیٹک کیریئر کے تین سال ضائع ہو گئے؛ تاہم جب سپریم کورٹ نے ان کی اپیل منظور کی تو انہوں نے رنگ میں واپس جا کر جیری کواری کو شکست دی اور پھر سے دنیا کے ہیوی ویٹ چمپئن بن گئے۔ صدر اوباما کا گزشتہ دنوں پہلی بار ہوچی من سٹی جانا ظاہر کرتا ہے کہ ویت نام کی جنگ کی مخالفت کرنے والے محمد علی اور باقی لاکھوں امریکی حق بجانب تھے۔ انہوں نے درجنوں ہم وطنوں کی رہائی کے لئے دوسرے ملکوں کا رخ کیا۔ انہیں خوش کرنے والوں میں صدام حسین بھی شامل تھے۔ نمازجنازہ میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور اردن کے بادشاہ عبداللہ بھی شریک ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں