اب ’’لندن پلان‘‘ سستا بنے گا!

اٹھائیس ملکوں کا اتحاد‘ یورپی یونین چھوڑنے کے برطانوی فیصلے کے بعد صدر اوباما ٹیلی ویژن پر آئے‘ اور انہوں نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ انگلستان بھلے یورپی اتحاد کا ساتھ چھوڑ دے‘ مگر وہ امریکہ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ یہ اشارہ اس تاریخی حقیقت کی جانب تھا کہ 1776ء تک مشرقی ساحل کی بھی 13 نوآبادیاں برطانوی سامراج کی غلام تھیں‘ اور اس سارے عرصے میں امریکہ اور برطانیہ نے اوقیانوس کے آر پار آپس میں ایک مطابقت پیدا کر لی ہے‘ جس کا ایک ثبوت نیٹو ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں یہ یورپی فوجی اتحاد‘ یورپ کے دفاع کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس وقت سوویت یونین زندہ تھا اور اسے وارسا معاہدے کا توڑ سمجھا جاتا تھا۔ اس صدارتی الیکشن میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کے دوسرے سوالوں کی طرح شمالی اوقیانوس کی دفاعی تنظیم کی افادیت کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ جس روز اس فیصلے کا اعلان ہوا‘ وہ انگلستان میں تھے اور سکاٹ لینڈ کے ایک بے آب و گیاہ قطعہ اراضی پر اپنے بنائے ہوئے گاف کورس کی تشہیر کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ کے لوگوں نے اپنا وطن واپس لے لیا۔
برطانوی ریفرنڈم میں ووٹوں کا فرق ایک کروڑ سے زیادہ نہ تھا (48 کے مقابلے میں 52 فیصد) اس لئے یورپی اتحاد میں رہنے کو ترجیح دینے والے دل مسوس کر رہ گئے۔ ان میں پاکستانی‘ ہندوستانی‘ بنگلہ دیشی اور دوسرے تارکین وطن بھی بکثرت تھے۔ ان میں پاکستانی نژاد سابق وزیر سعیدہ وارثی اور صادق خان بھی تھے‘ جو حال ہی میں لندن کے میئر چنے گئے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اپنے کاسموپولیٹن شہر کو دوبارہ یورپی یونین میں لے جا ئیں گے‘ اور یورپی اتحاد سے استفادہ کریں گے‘ مگر سابق میئر بورس جانسن کہتے ہیں کہ اب ہم اپنی معیشت (پیداوار‘ خدمات) کی ضروریات کے عین مطابق اپنے قوانین کو منظور اور اپنے ٹیکسوں میں کمی بیشی کر سکیں گے‘ اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بیان دیا ہے کہ وہ اکتوبر میں مستعفی ہو جائیں گے کیونکہ ملک کو ''اس طرف‘‘ لے جانے کے لئے ایک تازہ قیادت درکار ہے۔ یو کے کی نقالی میں ہو سکتا ہے کہ انگلستان کا اتحاد بھی پارہ پارہ ہو جائے (اور سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ جہاں علیحدگی کی تحریکیں موجود ہیں‘ الگ ہو جائیں) اور اتحاد کے چار باقی ماندہ ''بڑوں‘‘ فرانس‘ اٹلی‘ جرمنی اور نیدرلینڈز میں سے کوئی اپنی راہ لے اور یورپ میں ایک بار پھر وہ حالات پیدا ہو جائیں جو دوسری جنگ عظیم کا باعث بنے تھے۔
ڈیوڈ کیمرون نے‘ جن کی قدامت پسند (ٹوری) پارٹی نے گزشتہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا تھا‘ یہاں تک کہا: یہ فیصلہ ایسا نہیں ہو گا کہ کسی اڑتے جہاز سے چھلانگ لگا دی جائے‘ اور پھر کاک پٹ میں اندر آنے کا کوئی راستہ ڈھونڈا جائے۔ عالمی بینک‘ آئی ایم ایف‘ یورپی بینک اور دوسرے بین الاقوامی اداروں نے رائے دہندگان پر یونین میں رہنے پر زور دیا‘ مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ حزب اختلاف میں بھی انتشار ہے۔ لیبر کے بیالیس سرکردہ ارکان نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ اس مرتبہ معاملہ‘ امی گریشن یا لیبرکا تھا۔ پہلے مشرقی یورپ سے اقتصادی پناہ گزینوں کا تانتا بندھا رہا جنہوں نے سستے داموں کام کرکے انگریزوں کو بے روزگار کیا۔ پھر شام‘ عراق اور افغانستان سے جبری مہاجرین کا رش رہا‘ جن کے بارے میں جرمنی وغیرہ نے نرم گوشہ دکھایا۔ برطانیہ کے رائے دہندگان نے اس معاملے میں قدامت پسندوںکو شکست دی‘ اور بالواسطہ لیبر پارٹی کا بول بالا کیا۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ برطانیہ میں ایشوز پر ووٹ دیے جاتے ہیں‘ اور بیرونی کارکنوں کی تعداد اب بھی آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ 
اس فیصلے سے سرمائے کی منڈیوں پر پڑنے والا اثر عارضی ہو گا اور اس خلفشار سے زیادہ تر سمندر کے اْس پار کا خطہ متاثر ہو گا مگر اس کے کچھ اثرات امریکہ بھی آئیں گے۔ پہلے ذکر ہے خوشگوار اثرات کا۔ جو لوگ اس گرمیوں میں یورپ کے سفر کا ارادہ باندھ رہے ہیں انہیں ہوٹل‘ کھانے پینے کی اشیا اور عزیز و اقارب کے لئے تحفوں کی خریداری پر ڈسکاؤنٹ ملے گا۔ استصواب رائے کا نتیجہ آتے ہی پاؤنڈ کی قدر و قیمت میں کوئی دس فیصد کمی ہو گئی۔ پاکستانی تاجر بھی روپے کے مقابلے میں اس تخفیف سے فائدہ اٹھائیں گے۔ وہ اپنی درآمدات پر کم اور برآمدات پر زیادہ وصول کر سکیں گے۔ جو عہدے دار سرکاری خرچ پر میڈیکل ''چیک اپ‘‘ کے لئے لندن جاتے ہیں‘ انہیں یہ رعایت حاصل کرنے کا موقع ملے گا‘ اور جو سیاستدان ''لندن پلان‘‘ بنانے کے لئے برطانیہ کے دارالحکومت کا رخ کرتے ہیں‘ وہ بھی پاؤنڈ کی قیمت میں کمی سے استفادہ کر سکیں گے۔ اگر ووٹروں کے فیصلے کے نتیجے میں دنیا میں اقتصادی نشوونما کی رفتار سست ہوئی تو ایئرلائنیں اپنے کرائے کم کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر آج کل شکاگو سے لندن کا کرایہ 580 ڈالر ہے۔ خزاں کے موسم تک لندن‘ میڈرڈ اور ایمسٹرڈیم تک‘ جو یورپ میں مقبول ترین منازل مقصود ہیں‘ کرایہ کم ہونے کا امکان ہے؛ البتہ یہاں بچت کرنے والوں کے لئے کوئی راحت نہیں۔ جو سیونگ بینک کے کھاتوں پر برائے نام انٹرسٹ ریٹ سے زچ ہیں‘ ان کو اپنی بچتوں پر آج بھی 0.08 فی صد منافع ملتا ہے جو تین سال سے ایک جیسا ہے۔ برطانیہ کے فیصلے کے بعد یہ امکان کم ہے کہ حکومت تھوڑی مدت کے نرخوں میں کوئی اضافہ کرے گی‘ کیونکہ اگر فیڈرل ریزرو اضافہ بھی کرتا ہے تو بیشتر بینک اسے کھاتہ داروں کو منتقل کرنے میں مہینوں لگا دیں گے۔ لمبی مدت کے قرضوں یعنی گھر اور دوسری عمارات پر مارگیج میں کچھ رعایت ممکن ہے۔ باقی دنیا‘ یورپ میں ہونے والی تبدیلیوں سے کیونکر عہدہ برآ ہو گی؟ اس بارے میں بے یقینی فیڈرل ریزرو کو محتاط رہنے پر مجبور کرے گی‘ اور وہ اس سال انٹرسٹ ریٹ بڑھانے کا وعدہ پورا کرنے سے احتراز کرے گا۔ نکلنے کا اعلان ہونے پر تیس سال کی مارگیج پر اوسط ریٹ تھوڑا سا نیچے آیا ہے۔ برطانیہ کو ای یو سے الگ ہونے میں کئی سال لگیں گے مگر امریکی بوڑھے اپنے ریٹائرمنٹ کھاتوں پر کم مدت کا درد بھی محسوس کر رہے ہیں۔ بازار حصص اگلے کئی ہفتوں میں اونچ نیچ دیکھے گا تاوقتیکہ ہم یہ اندازہ نہیں کر لیتے کہ برطانیہ کا فیصلہ باقی یورپ پر کس طرح اثر ا نداز ہو گا؟
اس فیصلے سے اگر انسانی آبادی کا کوئی ایک خطہ سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے تو وہ جنوبی ایشیا ہے‘ جو صرف نصف صدی پہلے تک برطانیہ کی نوآبادی تھا‘ اور آج یورپ کا یہ خوشحال ملک اس خطے کے بے روزگاروں کو روزگار اور حکومتوں کو مالی امداد دے رہا ہے۔ برٹش پاؤنڈ کی قیمت میں کمی کے باعث ان دونوں شعبوں میں برطانوی امداد سکڑنے کا اندیشہ ہے۔ عالمی بینک واشنگٹن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان‘ تیسرا بڑا ملک ہے جس کے لوگ‘ برطانیہ میں پیسہ کما کر اپنے اہل و عیال کو بھجواتے ہیں۔ سر فہرست نائجیریا ہے جس سے آبائی تعلق رکھنے والے افراد 3,720 ملین ڈالر گھر بھیجتے ہیں۔ اس کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے جس کے شہری 3,615 ملین ڈالر اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں‘ اور اس کے بعد پاکستان آتا ہے جس کے لوگ 1,435 ملین ڈالر گھروں کو روانہ کرتے ہیں اور حکومت پاکستان اس زرمبادلہ اور دوسری برطانوی امداد کے سہارے اپنا بجٹ متوازن کرتی ہے۔ تھوڑی مدت کے لئے ہی سہی‘ پاؤنڈ کی قیمت میں کمی کا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ برطانیہ سے آنے والی نجی کمائی اور سرکاری امداد کی قیمت کم ہو گی۔ درمیانی مدت کے لئے‘ برطانوی معیشت میں توسیع کا امکان کم ہو گا‘ جس کے نتیجے میں حکومت اور تارکین وطن کے پاس ان ملکوں کو روانہ کرنے کے لئے کم پیسہ ہو گا۔ اس فہرست میں چین‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے نام بھی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں