یہ ایک خوفناک حقیقت ہے!

کلیولینڈ کسی ملک کا نام نہیں‘ یہ امریکہ کی وسط مغربی ریاست اوہایو کا بڑا شہر ہے‘ جہاں اٹھارہ جولائی سے سہ روزہ ریپبلکن نیشنل کنونشن منعقد ہو گی اور آخری دن ڈونلڈ ٹرمپ رسمی طور پر صدارت کے لئے پارٹی کی نامزدگی قبول کریں گے۔ پارٹی کے تین قانون سازوں پر مشتمل ایک وفد نے سینیٹر جان مکین کی قیادت میں افغانستان اور پاکستان کا دورہ کیا۔ مسز کلنٹن 25 تا 28 جولائی‘ فلاڈلفیا‘ پنسلوانیا میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کی نامزدگی قبول کریں گی‘ اور نومبر میں ٹرمپ سے نبرد آزما ہوں گی۔
ٹرمپ نے اپنی مہم کا آغاز سینٹ برنارڈینو میں گولی چلنے کے سانحے کے بعد مسلمانوں کو گالی دے کر کیا تھا‘ جو نچلی سطح کے ری پبلکن تک آ پہنچی۔ ہمسائے میں فیرفیکس کاؤنٹی کے ایک صاحب نے انٹرنیٹ پر اسلام کو ''شیطان کے منظم کردہ موت کے پھندے‘‘ سے تعبیر کیا‘ اور مسلمانوں کو نازیوں کے برابر رکھ کر تجویز کیا کہ ''اسلامی ملکوں سے نقل وطن کو کنٹرول کرنا لازم ہے‘‘۔ ورجینیا ری پبلکن سٹیٹ سنٹرل کمیٹی نے رائے دہندگان سے معا فی مانگی اور پوسٹ کنندہ کو فیس بک اور ٹویٹر سے اپنے الفاظ کو مٹانا پڑا۔ کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز (کیر)کی اطلاع کے مطابق گزشتہ ماہ ''مسلم بیشنگ‘‘ کے 38 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں ایک پاکستانی آئی سرجن ارسلان تجمل پر حملہ بھی شامل ہے‘ جو ہیوسٹن ٹیکسس کی ایک مسجد کے باہر گولی لگنے سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ سپریم کورٹ کی 83 سالہ جسٹس روتھ بیڈر گنز برگ نے نیو یارک ٹائمز اور ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ''اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر بن گئے تو میں تصور نہیں کر سکتی کہ یہ جگہ کیسی ہو گی‘‘۔ انہوں نے بدقسمت سیاسی نتیجہ کے بارے میں اپنے آنجہانی شوہر کا یہ لطیفہ دہرایا: ''اب نیوزی لینڈ منتقل ہونے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔
کنونشن سے جو سرکردہ ری پبلکن غیر حاضر ہوں گے‘ ان میں مکین اور کروز کے علاوہ سابق صدر جارج بش‘ ان کے بھائی گورنر جیب بش‘ اور سابق گورنر مٹ رومنی شامل ہیں۔ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں اکثریتی ری پبلکن پارٹی کے لیڈر دیکھے جا سکیں گے‘ مگر کیوبا سے نقل وطن کرکے میامی فلوریڈا میں آباد ہونے والے والدین کی اولاد سینیٹر مارکو روبیو غیر حاضر ہوں گے۔ ایوانِ نمائندگان کے سپیکر پال رائن کلیولینڈ کنونشن میں دیکھے جا سکیں گے۔ ٹرمپ کے نظریات پر تنقید کرنے والوں میں جان مکین بھی شامل ہیں جو سابق صدارتی امیدوار‘ اب چیئرمین‘ سینیٹ کمیٹی آن آرمڈ سروسز ہیں‘ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے رکن ہیں۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے جو معاملات الجھے ہوئے ہیں‘ ان میں آٹھ عدد ایف 16 کی رسد اور کولیشن سپورٹ فنڈ میں اسلام آباد کے حصے کے سوال شامل ہیں‘ جن کے حل میں قانون سازی کی حد تک پاکستان کی امداد کا وعدہ کیا گیا۔ یہ پہلا غیر ملکی وفد ہے جس نے یوم آزادی افغانستان میں امریکی فوجوں کے ساتھ گزارنے کے بعد شمالی وزیرستان کے صد مقام میراں شاہ کا دورہ بھی کیا‘ اور جہاں انہیں بریف کیا گیا کہ اس علاقے کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔ مکین نے اس اطلاع پر حیرت کا اظہار کیا کہ چھ ہزار پاکستانی اس علاقے کی آزادی کے لئے جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ USA Today نے ایری زونا کے سینیٹر کے بارے میں مختصر خبریں شائع کی ہیں۔ امریکہ کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر مکین نے امید ظاہر کی کہ صدر اوباما‘ عراق والی اپنی غلطی افغانستان میں نہیں دہرائیں گے‘ اور قبل از وقت امریکی فوجیں واپس نہیں بلائیں گے۔ طالبان بدستور ملک کے ایک بڑے حصے کو کنٹرول کر رہے ہیں اور شورش پسند گروہ سے معاونت لے رہے ہیں۔ اخبار نے اپنی طرف سے یہ اطلاع دی ہے۔ کہا گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک‘ افغان حکومت پر حملے کرنے کے لئے شمالی وزیرستان سے سرحد پار کرتا ہے۔
'' ہمیں ان کی امداد درکار ہے‘‘ مکین نے پاکستان کی قیادت کے بارے میں بیان دیا۔ ''ہمیں عمدہ ساجھے داری کی ضرورت ہے‘‘۔ نومبر میں انہیں جن تین ری پبلکن امیدواروں کا سامنا ہے ان میں سے ایک خاتون ہیں۔ مس کیلی وارڈ نے پاکستان سے واپسی پر مکین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مکین کے منشور میں‘ جسے وہ ''دنیا پر حملہ کرو اور (پھر) اسے مدعو کرو‘‘ کا ایجنڈا کہتی ہے‘ ''کھلی سرحدوں اور عفو عام‘‘ کو بھی شامل کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ''یہ وضاحت کرنا سینیٹر مکین کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں وہ کیا کر رہے تھے‘ کس سے مل رہے تھے‘ انہیں کیا دے رہے تھے اور کیوں؟‘‘ جان مکین نے مس وارڈ کا نام لئے بغیر جواب دیا کہ یوم آزادی پر امریکی فوجوں کے ساتھ ہونا میر ے معمولات میں سے ہے۔ انہوں نے کہا: ''اگر اس قسم کی سرگرمیاں جاری رہیں تو امریکی سپاہیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ یہاں ایک سنجیدہ کاروبار ہے۔ (امریکی فوج کے) مردوں اور عورتوں کی حفاظت کے لئے جو کچھ بن پڑے گا‘ میں کروں گا۔ ساتھ ہی اس بحران کو پیدا نہیں ہونے دوں گا جس میں جوہری ہتھیاروں کا یہ ذخیرہ غلط ہاتھوں میں چلا جائے‘‘۔
ٹرمپ نے مطالبہ کیا تھا کہ دنیا کے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ ''کلیتاً اور مکمل طور پر‘‘ ممنوع قرار دیا جائے۔ چار سالہ کنونشن قریب آنے پر وہ اس معاملے پر کچھ جھینپ رہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ پارٹی کے اکابر اس خیال کو ناقابل عمل‘ آئین اور امریکی اقدار کے منافی سمجھتے ہیں۔ وہ اور ان کے حواری اب مذہب کی بجائے جغرافیے کو بنائے امتحان کہتے ہیں۔ ''میں نہیں چاہتا کہ لوگ دہشت پھیلانے والے ملکوں سے آتے رہیں۔ آپ کے ہاں دہشت پھیلانے والے ملک موجود ہیں‘‘۔ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا۔
یہ قیاس کرنا ممکن ہے کہ ان کی مراد شام اور عراق کے پناہ گیروں سے ہو جن کے داخلے کی ممانعت کا ایک بل پیرس اور کیلی فورنیا میں دہشت پسندوں کے حملوں کے بعد ایوان نمائندگان نے منظور کر لیا تھا‘ مگر سینیٹ میں فوت ہو گیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فرانس اوربلجیم کے حملہ آور پناہ گزین نہیں‘ ان ملکوں کی پیداوار تھے۔ کیا مسٹر ٹرمپ مسلمان سیاحوں یا فرانس اور بلجیئم سے نقل وطن کرنے والوں یا امریکہ کے دوسرے اتحادیوں مثلاً برطانیہ‘ مصر اور سعودی عرب کے امیگرینٹس کا داخلہ بند کریں گے؟ ان میں سے ہر ملک ایسے شہری پیدا کرتا رہا ہے‘ جنہوں نے امریکہ اور اس کے دوستوں پر دہشت گرد حملے کئے یا ایسا کرنے کی کوشش کی۔
اس ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر سر تا سر پابندی کا مطالبہ سوائے اس کے کوئی مقصد پورا کرتا دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے طرفداروں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ سیاہ فاموں‘ لاطینی اصل کے لوگوں‘ مسلمانوں اور عورتوں کو ناراض کرنا سیاسی خود کشی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ٹرمپ ایک وقت کچھ کہتے ہیں اور دوسرے وقت کچھ اور‘ وہ اب یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے داخلے پر پابندی محض ایک تجویز تھی۔ ''اس طرح تو بہت کچھ ممنوع کرنا پڑے گا‘‘ وہ ''پْرامن مسلمانوں‘‘ کو بری الزمہ قرار دیں گے تاوقتیکہ جانچ پڑتال کا نظام پوری طرح نافذ نہیں ہو جاتا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ مساجد کی جاسوسی کا اختیار دیں گے؛ البتہ یہ جاسوسی ''باعزت‘‘ ہو گی۔ عبادت کے لئے آنے والے شہریوں کی جاسوسی اس ملک میں جناتی ہے البتہ یہ نظام بھی صدارتی امیدوار کی پالیسی کا جزو سمجھا جائے گا۔ امیدوار کا مقصد تو الیکشن جیتنا ہے خواہ اس میں ملک کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ کنونشن سے ایک سابق صدر‘ ایک جنگی ہیرو اور ان کے کئی ساتھیوں کی غیر حاضری اور ہلری کلنٹن کے ساتھ ان کے ایک طاقتور حریف برنی سینڈرز کا اتحاد اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے اور مقننہ کے دونوں ایوانوں میں ان کی پارٹی اکثریت میں ہے۔ ٹرمپ کی جیت اس ملک کے عوام بالخصوص مذہبی اقلیتوں کی ہار ہو گی۔ اس بات کا امکان تو نہیں مگر یہ حقیقت قرین قیاس ہے۔ یہ حقیقت نہایت خوفناک ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں