پنسلوینیا کا ایک ترک باشندہ

جب رجب طیب اردوان نے یہ الزام لگایا کہ ترکی کو پنسلوینیا میں بیٹھ کر چلایا جا رہا ہے تو غیر ترک امریکی یہ سمجھے کہ صدر کا اشارہ 1600 پنسلوینیا ایونیو کی جانب ہے جو وائٹ ہاؤس کا ڈاک کا پتہ ہے مگر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ان کی مراد فتح اللہ گولن سے ہے‘ جو واشنگٹن سے کوئی دو سو میل شمال مشرق میں پوکونو ماؤنٹین‘ پنسلوینیا میں رہتے ہیں اور ایک عالم دین ہونے کے ناتے ترکیہ میں گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ترکیہ نے گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے‘ جسے پورا کرنا امریکہ کے بس میں نہیں۔ وہ گرین کارڈ (مستقل رہائشی) ہولڈر ہیں۔ شہریت کے لئے تیار ہیں مگر اردوان کے حریف ہونے کی وجہ سے امریکی پاسپورٹ کی درخواست نہیں کرتے۔ وہ جلا وطن ہیں۔ 74 سالہ ترک واعظ کی صحت بھی اچھی نہیں۔ وہ دوسرے یورپیوں کی طرح ایک باحصار (گیٹڈ )کمیونٹی میں رہتے‘ بستے ہیں۔ رسالہ نکالتے ہیں‘ تھنک ٹینکوں اور سکولوں کا ایک بین الاقوامی نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ ان کا ایک سکول یہاں واشنگٹن ڈی سی میں بھی ہے۔ سکولوں کی زنجیر ہارمنی (ادغام) کہلاتی ہے۔ مولانا گولن کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کی فوجی بغاوت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔گو امریکہ کو ترکی میں ہوائی اور بحری اڈوں کے استعمال کی اجازت مل گئی ہے اور داعش کے خلاف کارروائیاں ایک رات بند رہنے کے بعد دوبارہ جاری ہیں‘ مگر واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ اب بھی باقی ہے۔ امریکہ اور یورپ اپنے اتحادی ترکی پر زور دے رہے ہیں کہ صدر اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ہر اقدام قانون کے دائرے میں کیا جائے جبکہ ترک حکومت نے تین ماہ کے لئے ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔ اردوان کہتے ہیں کہ بغاوت‘ گولن کے اکسانے پر برپا ہوئی۔
واشنگٹن پوسٹ کے دو نامہ نگاروں نے انقرہ میں ترک وزیر خارجہ سے انٹرویو کیا جس میں وہ زور دے کر یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے‘ جو اواخر ہفتہ کی بغاوت میں ملوث تھے۔ جب عہدیدار سے پوچھا گیا کہ آیا سیکرٹری (جان) کیری ترکی کے اقدامات کے موئید تھے؟ کیا انہوں نے آپ کو مکمل حمایت دی تو ترک وزیر خارجہ نے نفی میں جواب دیا۔ اخبار نے سارے انٹرویو کا متن (ٹرانسکرپٹ) جاری کر دیا ہے۔ (ایک) سوال: کیا آپ نے اپنے الزامات کا ثبوت امریکہ کو مہیا کیا؟ جواب: اصل میں امریکہ کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں مگر ہم کارروائی کے لئے انہیں ثبوت مہیا کرنے والے ہیں۔ جب امریکہ کو نائن الیون پیش آیا‘ جب امریکہ اُسامہ بن لادن کے پیچھے تھا (تو اس کے پاس) کوئی قانونی ثبوت نہیں تھا۔ کوئی فیصلہ نہ تھا جو اس دہشت کار کی حوالگی کے لئے طالبان (کی حکومت) کو پیش کیا جاتا۔ اس میں کو شک نہیں کہ ہم فائل میں بغاوت کی اس کوشش کا اضافہ کریں گے مگر یہ امر بدیہی ہے اور امریکہ کو بخوبی علم ہے کہ وہ (گولن) اس حملے میں ملوث ہیں‘ پیچھے ہیں اور اس کی قیادت کر رہے ہیں۔
بغاوت ناکام ہونے تک سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت اور پچاس ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین کی برطرفی‘ نظر بندی یا گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلفشار وسیع تر تھا۔ اردوان سب کے خلاف مقدمے چلانے اور ان کی اکثریت کو موت کی سزا دینے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں اور ملزموں میں جج‘ پراسیکیوٹر‘ پروفیسر‘ اساتذہ اور جرنیل بھی شامل ہیں۔ یہ مقننہ پر ملٹری کے اختیارات کم کرنے کی کوشش بتائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ''میمو گیٹ‘‘ کے نزاع میں یہی سوال شامل تھا۔ یہ خلفشار جاری رہنے کا امکان ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ یہ سیاسی اپوزیشن کو کچلنے کی سازش ہے۔ استنبول سے آمدہ اطلاعات کے مطابق سیکولر لوگ اس بغاوت کی مذمت کرتے ہیں‘ مگر وہ اس کے بعد ہونے والی پکڑ دھکڑ کے بھی خلاف ہیں۔ یہی ڈر واشنگٹن کو ہے۔ ترک فوج کے ایک دھڑے کی بغاوت ناکام ہونے کی خبر انچرلک (Incirlik) تک پہنچی تو ترک فوج کے افسروں نے امریکی فضا ئیہ کے عملے کے ساتھ امریکہ میں پناہ لینے کی بات چیت شروع کر دی۔ ترک افسروں کو بتایا گیا کہ امریکی قانون اس وقت تک پناہ کے امیدوار کی درخواست پر غور کی اجازت نہیں دیتا جب تک سائل امریکی سرزمین پر نہ ہو۔ ان میں جنرل باقر ارکان وان بھی تھے جو اب حراست میں ہیں۔
ترکی میں گولن کی مقبول عام تحریک‘ اسلامی اعتدال پسندی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہاں اس تحریک کو ''مشترکہ اقدار کا اتحاد‘‘ خیال کیا جاتا ہے اور اس کی ویب سائٹ The Alliance for Shared Values کہلاتی ہے‘ جو ترکی میں Hizmat ہو جاتی ہے۔ گولن کے حواریوں نے اس پر ایک بیان میں ترک حکومت کے دعووں کو ''انتہائی مبالغہ آمیز‘‘ قرار دیا اور واضح کیا ہے کہ ہزمت کا امریکی بازو اقتدار میں آنے کی کسی ملٹری کوشش کی حمایت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا: ''ہم ترک شہریوں کی سلامتی اور حفاظت کے بارے میں فکرمند ہیں‘ بالخصوص ان کے بارے میں جو اس وقت ترکیہ میں ہیں‘‘۔ بعد ازاں ایک مختصر اخباری انٹرویو میں فتح اللہ گولن نے کہا: ''فوجی بغاوت کے پیچھے شاید اردوان حکومت ہے‘‘۔ گھر کے اندر ایک کمرے میں‘ جو مسجد کہلاتا ہے‘ گولن نے اخبار نویسوں کو بتایا: ''میں نہیں سمجھتا کہ دنیا صدر اردوان کے الزامات کو مانے گی‘‘۔ کلین شیو گولن نے کہا: ''یہ امکان ہے کہ بغا وت کرائی گئی ہو اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہمارے خلاف مزید الزامات عاید کئے جائیں گے‘‘۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ ہر قسم کی فوجی مداخلت رد کرتے ہیں۔
صدر اوباما نے اپنے ترک ہم منصب کو فون کیا‘ اور انہیں یقین دلایا کہ امریکہ‘ جمہوریت کو بچانے کی کوشش میں شریک ہے۔ امریکہ اور ترکی کے مابین مجرموں کی سپرداری کا معا ہدہ موجود ہے۔ صدر نے کہا: اگر ترکیہ نے گولن کی حوالگی پر زور دیا تو اس معاملے پر غور کیا جائے گا۔ امریکہ کا رویہ محتاط ہے اور وہ پھونک پھونک کر آگے قدم رکھ رہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ صدر طیب اردوان کی اپیل پر‘ جو انہوں نے سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے دروازے اپنے اوپر بند پانے کے بعد ایک موبائل فون کے ذریعے کی‘ ہزاروں لوگ گلی کوچوں میں نکلے اور انہوں نے بغاوت ناکام بنا دی۔ اردوان نے ان کی میز پر کھانا مہیا کیا تھا اور ان کے عہد میں ٹرکش لیرا کی قدر و قیمت کئی گنا بڑھ گئی تھی۔
گولن نے صوفی طبیعت پائی ہے۔ گزشتہ سال جب داعش کی سرگرمیاں تیز ہوئیں تو انہوں نے اخبار وال سٹریٹ جرنل کو ایک خط لکھا جس میں ''دولت اسلامی‘‘ کو رد کیا تھا‘ اور ہر مسلمان کے لئے تعلیم کے حق پر زور دیا گیا تھا۔ انہوں نے عورتوں اور مردوں کے لئے یکساں حقوق کا مطالبہ کیا تھا اور اسلام کے نام پر انتہا پسندی اور تشدد کی مذمت کی تھی لیکن ترکیہ میں اقتدار پر قابض ہونے کی در پردہ آرزو کی وجہ سے تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گولن اور ان کے حامی ترکیہ میں اسلامی اساس پرستی کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہے ہیں‘ اور ان کے اشتعال پر بغاوت کی آگ بھڑکنے کو بعید از قیاس نہیں کہا جا سکتا۔ ترکی میں وسیع پیمانے پر تطہیر کے عمل نے امریکہ اور اس کے دوسرے مغربی اتحادیوں کو خبردار کر دیا ہے۔
گولن کسی زمانے میں طیب اردوان کے دوست اور ہم خیال تھے اور ان کی تحریک ‘ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لئے سیاسی لیڈر کی امداد کرتی تھی لیکن کئی سال پہلے جب تحریک نے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور اردوان کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات پر زور دینا شروع کیا‘ تو دونوں دوست شدید ناراضگی کی حالت میں الگ ہو گئے اور گولن امریکہ چلے گئے۔ گولن اور ان کے ساتھیوں نے دنیا بھر میں تعلیمی ادارے کھول رکھے ہیں‘ جن میں امریکہ کے اندر سائنس‘ میتھ اور ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دینے والے 160 چارٹرڈ سکول بھی شامل ہیں۔ یہ ادارے‘ جو غیر سرکاری طور پر گولن چارٹر کہلاتے ہیں‘ عام طور پر ترک چلاتے ہیں۔ 
حال ہی میں اردوان حکومت نے یُو ٹیوب اور ٹویٹر کو بند کر دیا کیونکہ انہوں نے پہلے سے ریکارڈ شدہ ایک گفتگو لیک کر دی تھی۔ اس گفتگو میں اردوان اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہیں کہ تفتیش کے دوران لاکھوں یورو کا سرمایہ کیونکر چھپانا ہے۔ اردوان نے مندرجات کی تردید کئے بغیر یہ وضاحت کی تھی کہ فیتے کی کانٹ چھانٹ سے ٹیپ مرتب کی گئی ہے۔ یورپی یونین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنا پر اب تک رکنیت کے لئے ترکی کی درخواست پر غور نہیں کیا؛ البتہ ترکی شمالی اوقیانوس کے دفاعی معاہدے (نیٹو) کا رکن ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر ترکی نے سزائے موت بحال کی تو اسے تنظیم سے نکال دیا جائے گا۔ اردوان تیرہ سال سے ترکی پر حکمران ہیں۔ دو سال قبل پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام لانے کے ریفرنڈم میں اردوان کی پارٹی کو 45 فیصد ووٹ ملے تھے۔ پاکستان کا موازنہ اکثر ترکی سے کیا جاتا ہے۔ ترکیہ میں ہونے والے واقعات میں پاکستانیوں کے لئے کچھ اسباق پوشیدہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں