تجویز ایک نئے ٹیکس کے بارے میں

شاپر کا سفر کچرا کنڈی تک جاتا ہے۔ سندھ میں حکومت بدل گئی مگر اردو ٹیلی وژن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالحکومت کراچی میں کوڑے کے ڈھیر کم نہیں ہوئے۔ نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ شہر کی صورت حال کا جائزہ لینے نکلتے ہیں تو ان کی کاوش ناکام بنا دی جاتی ہے۔ نوکر شاہی اول تو ان کا راستہ بدل دیتی ہے یا پھر ان کے راستے کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ وہ یہ یقین حاصل کرتی ہے کہ صوبائی چیف ایگزیکٹو کی راہ میں کچرے کے ڈھیر دکھائی نہ دیں۔ اس مقصد سے درجنوں خاکروب‘ اپنے قد کے برابر جھاڑو لئے راستے کو صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے آدمیوں کے دورے کے موقع پر راہوں کو اسی طرح منور کیا جاتا ہے۔ یادش بخیر‘ جب صدر محمد ایوب خان کھانے کے لئے لاہور میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین چوہدری محمد حسین کے گھر گئے تو فیروزپور روڈ کی بہت سی عمارتوں پر سفیدی کرا دی گئی تھی اور ایک بڑھیا کی‘ جو سرِ راہ اُجرت پر دانے بھونا کرتی تھی‘ بھٹی پر چادر ڈال دی گئی تھی۔
ہمارے وزیر خزانہ کو ٹیکس لگانے کا بڑا شوق ہے۔ سنا ہے کہ انہوں نے ویکسین پر (انسدادی ٹیکے کی دوا جو بین الاقوامی ادارے مفت دیتے ہیں) ٹیکس لگا دیا ہے۔ اسحاق ڈار نے ایک بار سفارت خانے میں مجھ سے کہا تھا کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ ''آپ نکتہ چینی سے گمراہ نہ ہوا کریں‘‘۔ وہ ٹیکس لگانے کے لئے آمدنی کے ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس سے پہلے شادی گھر ان کے نشانے پر تھے۔ یہ ٹیکس لامحالہ ٹیکس گزاروں کو منتقل ہو گا اور شادی کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ ایک جلا ہوا نوجوان غصے میں بولا: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ لوگ کسی مسیت میں شادی جیسے خوشی کے فریضے سے عہدا برآ ہو جایا کریں۔ یہ نوجوان شاید ویکسین کے ٹیکس پر خاموش ہے۔
حیرت ہے کہ وزیر خزانہ کو اب تک شاپر کا خیال نہیں آیا ۔ یہاں شاپر کو شاپنگ بیگ ہی کہا جاتا ہے۔ کچرا کنڈی میں سب سے بڑا آئٹم شاپنگ بیگ ہی ہوتا ہے جس پر منٹگمری کاؤنٹی (یہ ان چار کاؤنٹیوں میں سے ایک ہے جنہیں کچھ شہروں کو ملا کر واشنگٹن ڈی سی کا نام دیا گیا ہے) نے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پلاسٹک کے تھیلے اس کوڑے کرکٹ کے تیسرے حصے کے برابر ہیں جو علاقے کے ندی نالوں اور بارش کے پانی کے نکاس کی گزرگاہوں میں پھنسے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب پانچ سنٹ فی لفافہ یہ ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو کاؤنٹی کے افسروں نے کہا تھا کہ یہ لیوی لوگوں کی جیبوں سے ''پینی نچوڑنے‘‘ کے لئے نہیں بلکہ ان کی عادات کی اصلاح کے لئے لگائی گئی ہے۔ اسحاق ڈار خود لفافہ ٹیکس عائد نہ کرتے تو یہ تجویز مراد علی شاہ کے حوالے کر دیتے جو امریکہ کی تعلیم کے زیر اثر خوشی خوشی استعمال شدہ پلاسٹک یا پیپر بیگ پر یہ ٹیکس عائد کرتے۔ آخر وہ اور ان کے اہلکار بھی تو لوگوں کی اصلاح چاہتے ہیں۔ عہدہ سنبھالنے یا ترقی پانے کے بعد جب وہ شہر کے دورے پر نکلے تو جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دیکھ کر پریشان ہوئے اور تقریباً ہر گندے نالے پر مکانوں اور جھونپڑوں کی مذمت کی جو نصف صدی میں حکام کی اجازت کے بغیر یا ان کی رضا مندی سے بنائے گئے تھے اور اب ان کو ڈھانے کی نیم دلانہ کوششیں بیکار دکھائی دیتی تھیں۔ اسی دوران وہ ہیلی کاپٹر پر سوار شہر کی حالت دیکھنے کے لئے گئے اور انہوں نے بعض مقامات پر حالات دگر گوں دیکھ کر حکام کی سرزنش بھی کی۔
جب تپ دق سزائے موت کے برابر تھی‘ ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے عوامی آگہی کی ایک مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جن اخبارات کی ردی کے ٹکڑوں پر آپ آلو چھولے کھاتے ہیں یا اس ردی سے بنے لفافوں میں سودا سلف لاتے ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹی بی کے ایک مریض کی نظر سے گزرے ہوں تو اس صورت میں آپ کو یہ موذی مرض لگ جائے گا۔ مرحوم کے صاحبزادے امجد کو یہ مہم جاری رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کل پاکستان میں ردی کے لفافوں کی جگہ پلاسٹک بیگز نے لے لی ہے۔ فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا ملک کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ استعمال کے بعد پلاسٹک بیگ گھر کے کوڑے میں پھینک دیے جاتے ہیں اور ان کا انجام نکاسی آب کے نالوں‘ پینے کے پانی کے ذرائع‘ جھیلوں‘ دریاؤں اور سمندروں میں ہوتا ہے۔ امریکی ریاستیں گروسری اور دوسرے سٹوروں سے پلاسٹک بیگ کا ستعمال کم کرنے کے لئے حکمت عملی پر غور کر رہی ہیں۔ کچھ ریاستوں کا دھیان اپنے ری سائیکلنگ پروگراموں کو زیادہ موثر بنانے پر ہے۔ اس پروگرام کے تحت پرائیویٹ گاڑیاں ہفتے میں ایک یا دو بارگھروں کا چکر لگاتی اور خالی بوتلیں‘ خالی ڈبے‘ پلاسٹک کے تھیلے اور دوسری از کار رفتہ اشیا اٹھا کر ان مشینوں تک لے جاتی ہیں جو ان چیزوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بناتی ہیں۔ کوڑا کرکٹ دوسری گاڑیوں میں اٹھتا ہے اور ''لینڈ فل‘‘ تک پہنچتا ہے جو نشیبی جگہیں پْر کرنے کے لئے کاؤنٹی نے قائم کئے ہیں۔ دوسری ریاستیں پلاسٹک بیگ کی حوصلہ شکنی کے لئے انہیں کلیتاً ممنوع قرار دیتی ہیں یا ان پر پانچ یا دس سنٹ ٹیکس لگاتی ہیں۔ اب تک گیارہ ریاستوں اور ایک وفاقی علاقے کی بلدیات اس قسم کے قوانین منظور کر چکی ہیں اور باقی کرنے والی ہیں۔
پاکستان میں ماحولیات کو اہمیت نہیں دی جاتی مگر امریکہ میں ماحول کا احساس فزوں تر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عام گروسری سٹور بار بار استعمال میں آنے والے اپنے بیگ برائے فروخت پیش کرنے کے باوصف پلاسٹک بیگ میں سودا سلف بیچے جا رہے ہیں مگر خاص الخاص سٹور اپنا سودا پلاسٹک کے لفافوں کی بجائے کاغذ کے تھیلوں میں دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پلاسٹک نا قابل تسخیر ہے مگر اسپتال سے ہوائی جہاز تک اس کا استعمال ناگزیر ہے۔ کاغذ گل سڑ جاتا ہے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کی نئی اتظامیہ نے بڑی عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی آلائشیں دبانے کے لے متعدد سرنگیں کھودی تھیں۔
کراچی کے کچرے میں سیاست کی کارفرمائی کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک پاکستانی بزرگ‘ جو میرے گھر کے پاس ہی رہتے ہیں‘ کبھی کراچی کے نامور وکیل اور صدر ضیاالحق کے قانون سازوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ مانتے ہیں کہ سندھ میں پچاس فیصد مہاجروں کے لئے دو فیصد کوٹہ اس کارفرمائی کا سبب بنا اور پھیلتا چلا گیا۔ ایک قانون کی شکل میں کوٹہ سسٹم 1973ء میں دس سال کے لئے نافذ کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم اس عرصے کے بیشتر حصے میں اقتدار میں شامل رہی مگر اس نے اپنے بنیادی مقصد کو نظر انداز کر دیا۔ ہر چند کہ اس نے سندھ کو شہری اور دیہی علا قوں میں تقسیم کر دیا تھا اور مزید مہاجر کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر وغیرہ میں بس گئے تھے۔ پنجاب‘ سرحد اور بلوچستان اس انسانی سیلاب سے محفوظ رہے اور یہ قانون سندھ تک محدود رہا۔ بدھ کے دن ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز بلال اکبر نے یہ معاملہ اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے واضح کیا کہ سندھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ معاملہ زیر غور نہیں آیا۔ اجلاس سے پہلے جنرل اکبر نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے زیر حراست کارکنوں کی زبانی معلوم ہوا کہ سندھ کوٹہ سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے‘ جو میرٹ کے منافی ہے۔ یہ ختم ہونا چاہیے۔ فوجی ترجمان نے کہا کہ بلال اکبر نے یہ تجویز اپیکس کمیٹی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے سامنے رکھی تھی جبکہ ان کے دو وزیر بھی موجود تھے۔ کراچی والوں نے اپنے شہر کو کسی کا یرغمال بننے سے بچا لیا مگر وہ اسے کچرا کنڈی میں تبدیل ہونے سے نہیں بچا سکے۔ انہوں نے عیدالاضحی کی اوجڑیاں آدھی رات کے بعد گلی کوچوں میں پھینکیں۔ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ میں بھی تقریباً یہی صورت حال رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں