کالا باغ کا فلپائنی جانشین

ہماری ایک بہو فلپانو ہے۔ اگلے دن عاطف کے ہمراہ وہ ہمارے گھر آئی تو میں نے اس سے پوچھا: کیا فلپائن واقعی امریکہ سے قطع تعلقی اختیار کرے گا؟ نہیں‘ ابو‘ میرے آبائی وطن میں مزاح کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور صدر دوترتے(Rodrigo Duterte) اسی سیڑھی پر چڑھ کر پہلے ڈاوو (Davao) کے میئر بنے اور جلادی دستہ کہلائے اور گزشتہ جولائی سے وہ منیلا میں اقتدار کے مالک ہیں‘ ایک لاکھ جرائم پیشہ افراد کو ٹھکانے لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں اور اپنے آپ کو ہٹلر کے ہم پلہ ظاہر کرتے ہیں۔ ملک میں وہ بہت مقبول ہیں مگر کچھ سینیٹروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وینجی کے آبائواجداد منڈناؤ سے دارالحکومت گئے تھے‘ جہاں کی آبادی میں بڑی تعداد مسلمان ہے۔ وہ روانی سے ٹیگالو بولتی ہے‘ جو انگریزی کے بعد آٹھ قومی بولیوں میں شمار ہوتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں سے میئر دوترتے کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور اسی لئے انہوں نے چین سے جزیرے میں ریل کی ایک پٹڑی بچھانے کی بات کی ہے۔ اس صورت میں وہ فلپائن اور چین کا نزاع بالائے طاق رکھ دیں گے۔
صدر دوترتے مزاح اور گالی میں زیادہ امتیاز نہیں کرتے۔ بارک اوباما نے تین ہزار افراد کو ماورائے قانون موت کے گھاٹ اتارے جانے کی اطلاع پا کر سابق امریکی ایشیائی کالونی کے چیف ایگزیکٹو کو فون کیا تو انہیں نوآبادیاتی نظام پر ایک بھاشن سننا پڑا اور پھر ٹیگالو زبان میں ایک گالی سنائی دی‘ جس کا ایک ترجمہ ''فاحشہ کے بچے‘‘ ہے۔ صدر اوباما نے صدر دوترتے کے ساتھ ایک میٹنگ منسوخ کی‘ اور انہوں نے اپنے عملے کو اس فون کال سے آگاہ کر دیا۔ یورپی یونین نے فلپائن میں ماورائے عدالت قتل عام پر احتجاج کرنا چاہا تو اسے بھی ایک گالی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان کی یاد تازہ ہوتی ہے جو جرائم پیشہ لوگوں سے اتنے زیادہ تنگ تھے کہ انہوں نے ایسے عناصر کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف عدالتوں میں گواہ پیش کرنے کے تکلف کے بجائے پولیس کو انہیں ٹھکانے لگانے کا حکم دے دیا۔ پولیس کو بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ ایک ہفتے میں تیرہ آدمی مارے گئے۔ بستہ الف کے بدمعاش تھانے کے دروازوں پر دستک دیتے اور تھانیدار سے درخواست کرتے تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے تاکہ ان کی جان بخشی ہو۔ اْن دنوں‘ میں جرائم ''کور‘‘ کرتا تھا۔ لٹن روڈ چوکی کو جیرے بدمعاش کی خبر لینے کی ہدایت ملی اور پولیس نے مجھے ''پولیس مقابلے‘‘ کی خبر دی۔ اتفاق سے میں چوکی کے پاس رہتا تھا‘ اور اخبار کا فوٹوگرافر خواجہ عبدالقیوم مرحوم مجھ سے بھی زیادہ قریب۔ جب ہم موقع واردات پر پہنچے تو مزنگ چونگی چوک میں ''پولیس مقابلہ ‘‘جاری تھا اور ایک سپاہی‘ جیرے کے لرزتے ہاتھ میں ایک پستول تھمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے پہلے بیڈن روڈ پر قلعہ گوجر سنگھ تھانے کے پستہ قد تھانیدار کے ہاتھوں‘ جو بابو یٰسین بمبئی والے کی پے رول پر تھا‘ پٹنے کا ہولناک منظر اہل محلہ نے دیکھا اور ایک مکان کے چوبارے پر جوا کرانے والا ''شریف بدمعاش‘‘ چپ چاپ شہر چھوڑ گیا۔
وینجی نے کچھ وقت لاہور میں گزارا ہے اس لئے وہ پاکستان اور فلپائن کا موازنہ آسانی سے کرتی ہے۔ ''ابو‘ فلپائن کے حالات پاکستان سے ابتر ہیں۔ کرپشن نے وبا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ منشیات کی خرید و فروخت عام ہے۔ دن دیہاڑے عورتوں سے پرس چھین لئے جاتے ہیں‘ مردوں کو سیل فون سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ سکنی املاک کا قبضہ؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ قانون کا یکساں نفاذ مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے ڈاوو کے لوگ اور اب منیلا والے دوترتے کے طریق کار سے خوش ہیں۔ وہ رات آرام سے گزارتے ہیں مگر کچھ سینیٹر اور کئی دوسرے لوگ اس طریق کار کو ظالمانہ کہتے ہیں‘ اور ہر وقت صدر کی جان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بالآخر ملک کا بنیادی نظام عدل متاثر ہو گا۔ صدر دوترتے کی پالیسی کی دیرینہ نقاد سینیٹر لیلا ڈی لوما نے نکتہ چینی کی‘ تو اسے خود کشی کا مشورہ دیا گیا اور جب انہوں نے ایک گواہ پیش کیا‘ جس نے دعویٰ کیا کہ اس نے دوترتے کے ایما پر لوگوں کے قتل عام میں حصہ لیا اور ڈاوو میں ایک شخص کو ایک مگرمچھ کی خوراک بنایا‘ تو ان کو سینیٹ کی کمیٹی برائے انصاف اور انسانی حقوق کی صدارت سے الگ کر دیا گیا۔ اب اس پر اپنے ڈرائیور کے ساتھ مل کر سونے اور منشیات کے سوداگروں اور سمگلروں سے رشوت لینے کے الزامات ہیں۔ خود دوترتے بھی‘ جو طلاق یافتہ ہیں‘ ایک عورت کے ساتھ رہتے ہیں اور اس سے ایک بچی کے باپ بھی ہیں۔ ان کی پہلی بیٹی وکیل اور آج کل ڈاوو کی میئر ہے۔ جوں جوں سیاسی طبقہ سرنگوں ہوتا ہے اس خاندان کی مخالفت کی قیمت بڑھتی جاتی ہے۔
چین‘ فلپائن کا ہمسایہ ہے اور عنقریب صدر دوترتے چین کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ بیجنگ پر زور دیں گے کہ اگر وہ جنوبی چین کے سمندر میں فلپانو ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے کی آزادی دے تو وہ امریکہ کے ساتھ فلپائن کی پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔ بظاہر جاپان میں مخالفت کے بعد ایک اور ایشیائی کالونی‘ امریکہ کے ہاتھ سے سرک رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ دوترتے نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک جیٹ سکی (پانی کی موج پر پھسلنے کا تختہ) پر سوار ساؤتھ چائنا سی سے گزریں گے اور پہلے چھ ماہ میں ایک لاکھ مجرموں کو مار ڈالیں گے۔ وہ یہ دونوں وعدے پورے کرنے کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جب سے صدر اوباما نے دوترتے کے ساتھ اپنی سمٹ منسوخ کی ہے‘ فلپائن کے صدر نے دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں بڑے اعلانات کئے ہیں۔ مثلاً اگلے سال کے بعد مشترکہ فوجی مشقوں کی منسوخی اور منڈناؤ سے امریکی فوجوں کی واپسی کا مطالبہ‘ اگرچہ ان کی وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید کی ہے۔ بہرحال یہ واشنگٹن کے لئے ایک حقیقی سفارتی چیلنج ہے‘ ایک ایسے وقت پر جبکہ وہ چین اور باقی ایشیا کے لئے اپنی پالیسی دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔ اس سال نافذ ہونے والے ایک نئے معاہدے کی رو سے سوبک بے کے امریکی فوجی اڈے پر مزید فوجیوں کی تعیناتی بطور خاص داؤ پر ہے۔
دوترتے نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی لال لکیر کو پار کرکے روس اور چین کی دوستی کو زیادہ گہرا کرنے کا اذن دیا‘ جسے ان کی وزارت خارجہ نے بھی ڈرامائی قرار دیا۔ جب سے انہوں نے صدر کا منصب سنبھالا ہے تین ہزار تین سو ملزم مارے جا چکے ہیں۔ انہیں یا تو پولیس ایکشن میں گولی مار دی گئی یا سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے موت کے گھاٹ اتارا۔ پاکستان میں ایسے اکثر واقعات کو پولیس مقابلہ کہا جاتا ہے اور اسی طرح اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ امریکہ‘ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے ان واقعات کی مذمت کی ہے مگر جرائم سے تنگ آئے ہوئے فلپائنی‘ منشیات کی لڑائی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دوترتے کی مقبولیت کی شرح نہایت اونچی ہے۔ امریکہ کا مبینہ دوغلا پن دوترتے کے کام آتا ہے جو حالات کو جوں کا توں رکھنے کے خلاف بولتے ہیں۔ وہ چین کو یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایک خود مختار لیڈر ہیں اور امریکہ سے تعلقات سے کھیلنا جانتے ہیں۔ جمہوریت کا کوئی نعم البدل نہیں مگر جس جمہوریت میں ووٹ کا تقدس پامال ہو‘ اسے سینے سے لگانا کہاں تک ممکن ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں