امریکی مسلمانوں پر ایک اور وار

ڈونلڈ ٹرمپ نے سکیورٹی کے شعبے میں دائیں بازو کی تین سخت گیر شخصیتوں کو نامزد کرکے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں میں تشویش کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ مسٹر ٹرمپ 20 جنوری کو صدارت کا حلف اٹھانے والے ہیں‘ اور وائٹ ہاؤس میں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک شخصیت اسلام کو دنیا کا کینسر کہتی ہے اور باقی امیگریشن‘ ووٹنگ کے حقوق‘ مسلم تارکینِ وطن اور دوسرے مشکوک لوگوں کی نگرانی کے لئے پولیس کو بروئے کار لانے سے متعلق صدر کے ہم خیال ہیں۔ ٹرمپ نے جو انتخابی وعدے کئے تھے‘ وہ ان سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان وعدوں میں مدمقابل پر مجرمانہ مقدمہ بنانے‘ دنیا کی آب و ہوا میں تبدیلی سے انکار اور دہشت گردی کے ملزموں کو ڈوبنے کا احساس دلانے کے عزائم شامل ہیں‘ مگر انہوں اب تک مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے کے منافی کوئی بیان نہیں دیا۔ امریکہ میں مسلم آبادی ساٹھ لاکھ سے اوپر ہے اور ان میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے۔ سب کو اسلام دشمن انتظامیہ کی فکر لاحق ہے۔
امریکہ میں رہنے والے مسلمان ہی نہیں مشرقِ وسطیٰ کے اتحادی ممالک بھی‘ جو داعش اور دوسری دہشت کار تنظیموں سے لڑائی میں امریکہ کے سا تھ ہیں‘ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل ٹی فلن (Flynn) سینیٹر جیف سیشنز (Sessions) اور کانگرس مین مائیک پومپیو (Pompeo) سے معاملہ کرنے سے خائف ہوں گے۔ انہیں بالترتیب نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ اٹارنی جنرل‘ اور ڈائریکٹر سی آئی اے لگایا گیا ہے۔ فلن کا کہنا ہے ''اسلام ایک کینسر‘‘ ہے۔ مسلمانوں سے ڈر ہے اور وہ بلا ثبوت خبردار کرتے ہیں کہ شریعت ملک بھر میں پھیل رہی ہے۔ سیشنز‘ جو قانون کے محکمے کے انچارج ہوں گے‘ مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی تائید کرتے ہیں۔ یہ محکمہ نوآزاد غلاموں کو کلوکلکس کلین کی دست برد سے بچانے کے لئے بنایا گیا تھا‘ اس لئے غلاموں کی سیاہ فام اولاد بھی ان سے خوفزدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ''زہریلے نظریات‘‘ اسلام کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پومپیو کھل کر ٹرمپ کی حمایت نہیں کرتے تھے اور امیگریشن کے معاملے میں محتاط تھے مگر باسٹن کی سالانہ دوڑ پر حملے کے بعد امریکی مسلمانوں کو حملہ آوروں کے شریکِ جرم کہنے لگے۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں کئی بار کہا ہے کہ دشمن ہمارے درمیان ہے۔
امریکن سول لیبرٹیز یونین اور مذہبی رہنما ان تقرریوں کی مذمت کرتے ہیں اور شہر شہر ٹرمپ کی جیت کے خلاف مظاہرے بھی جاری ہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ انہوں نے کسی منتخب صدر کی ایسی مخالفت نہیں دیکھی۔ ٹرمپ الیکٹورل ووٹ (ریاستی) لے کر کامیاب ہوئے ہیں حالانکہ ان کی مدمقابل ہلری راڈم کلنٹن نے ان سے تقریباً بیس لاکھ زیادہ پاپولر (عوامی) ووٹ حاصل کئے تھے۔ ان کے شوہر نے اپنی آٹھ سالہ مدت کا خاتمہ قریب آنے پر کہا تھا: نئی صدی کے آنے تک امریکہ سفید نہیں رہے گا۔ صدی کو آئے سولہ سال بیت گئے اور سابق صدر کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی‘ مگر ٹرمپ نے ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک میں مسلم آبادی‘ لاطینو اور دوسرے رنگدار لوگ ہیں‘ تو دوسری جانب گورے۔ زیادہ تر بے روزگار‘ پہلا گروپ اکثریت میں ہے مگر ہار گیا ہے کیونکہ ملک میں ''ہجو م کی حکومت‘‘ سے بچنے کے لئے کوئی ڈیڑھ سو سال سے الیکٹورل سسٹم رائج ہے۔
منتخب نائب صدر مائک پنس نیو یارک شہر میں کھیل ''ہملٹن‘‘ دیکھنے گئے تو ان کے ساتھ عجب ماجرا ہوا۔ یہ طربیہ ''نئے امریکہ‘‘ کی یاد دلاتا ہے اور قوم کی بنیادیں استوار کرنے کا جشن مناتا ہے۔ کھیل ختم ہوا تو ایک اداکار سامنے آیا‘ اور اس نے باقی کاسٹ کی جانب سے یہ بیان پڑھ کر سنایا ''جناب! ہم ایک متنوع امریکہ ہیں جو حیران و پریشان ہے کہ آپ کی نئی انتظامیہ ہماری حفاظت نہیں کرے گی اور نہ ہمارے سیارے‘ ہمارے بچوں اور والدین کی محافظ ہو گی اور نہ ہمارا اور ہمارے ناقابل تردید حقوق کا دفاع کر سکے گی‘ مگر جنابِ والا ہم امید کرتے ہیں کہ یہ شو آپ کو امریکی اقدار کی حفاظت اور ہم سب کی جانب سے کام کرنے کی ترغیب دے گا‘‘۔ ٹرمپ نے کہا ''قوم سے معافی مانگو‘‘۔ جواب آیا ''کس بات کی؟‘‘۔
لاطینو لوگ‘ جو میکسیکو کے راستے جنوبی امریکہ سے آتے ہیں‘ اس انتخابی نتیجے سے بطور خاص خائف ہیں۔ ان کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ‘ اندازاً تین کروڑ ہے۔ انہیں ہمسایہ جنوبی ملک کے اندر رکھنے کے لئے ٹرمپ تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ایک ''خوبصورت‘‘ دیوار کی تعمیر کا خیال پیش کر چکے ہیں‘ مگر ہماری جانب سے اس منصوبے کی مخالفت اس لئے ممکن نہیں کہ ہم خود ڈیورنڈ لائن پر اتنی ہی بڑی ایک دیوار کی تعمیر کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ لاطینو آبادی‘ جو امریکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے‘ ایسی دیوار کے منصوبے کو اسی طرح رد کرتی ہے جس طرح کوئی افغان‘ لائن کی جگہ ایک دیوار دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔ انہیں ڈر ہے کہ رجسٹریشن کا منصوبہ‘ جو ٹرمپ کے ذہن میں ہے اور ان کے چیف آف سٹاف کرس (Kobach) زور و شور سے جس کے موید ہیں‘ انہیں الگ کرنے اور بالآخر ڈی پورٹ کرنے کی سکیم ہے‘ حالانکہ ٹرمپ بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی پہچان کا ایک طریقہ ہے۔ ایک سال پہلے جب ٹرمپ نے تمام آبادی کی رجسٹریشن کا نظریہ پیش کیا تو انفرادی آزادی سے مخمور ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ وہ یہود کو چھانٹنے کی نازی جرمنی کی کوشش سے کیونکر مختلف ہو گی‘ تو انہوں نے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ ایک یہودی نے دھمکی دی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو قومی ڈیٹا میں اپنا نام پتہ درج کرانے پر مجبور کیا گیا‘ تو وہ بحیثیت مسلمان اپنی رجسٹریشن کرائیں گے۔
آج جرمنی‘ فرانس اور دوسرے یورپی اتحادی‘ امریکہ کو فاشی کہتے ہیں اور نجی شعبے نے ٹرمپ کی اہلیہ کا افتتاحی لباس سینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ ان سے پہلے آنے والی خواتین اول کے گاؤن سمتھ سونین عجائب گھر میں نمائش کے لئے رکھے ہیں۔ ملینیا خود تارک وطن ہیں۔ ایک بار وہ خاوند کی انتخابی مہم پر نکلیں تو خاتون اول مشل اوباما کی ایک تقریر کا چربہ پیش کرکے رخصت ہو گئیں۔ گزشتہ دنوں کسی نے مسز اوباما کے مختصر ( سلیو لیس) لباس پر اعتراض کیا تو مخالفین مسز ٹرمپ کی ایسی تصویریں نکال لائے‘ جس میں خاتون نے نیم برہنہ لباس زیب تن کیا تھا؛ البتہ یہ تصویریں ماڈلنگ کے زمانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
پاکستان کی طرح بیشتر مسلمان آبادی کے ملک مثلاً ترکیہ اور مصر نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور ملینیا کے داخلے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ہے۔ بالخصوص ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور مصری لیڈر عبدالفتح السیسی نے امید ظاہر کی کہ ری پبلکن انتظامیہ سے ان کی حکومتوں کے تعلقات اچھے ہوں گے۔ اردوان نے فلن کے اس مضمون کی تعریف کی‘ جس میں ریٹائرڈ آرمی جنرل نے ترک تعلیمی ماہر فتح اللہ گولن کی وطن واپسی کی تائید کی‘ جنہیں وہ پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کا قصوروار سمجھتے ہیں۔ گولن پنسلوینیا میں رہتے ہیں۔
مسجد محمد واشنگٹن کے امام طالب ایم شریف بولے: تمام امریکیوں کو واقعی تشویش ہونی چاہئے کہ یہ تقرر مسلح افواج اور حکومت میں کام کرنے والوں کو الگ تھلگ کر دیں گے۔ شریف امریکن ایئر فورس میں رہے ہیں‘ اور ان کے پانچ بچے حاضر سروس ملٹری میں ہیں‘ اور بقول والد پہلے ہی تفریق و امتیاز کا شکار ہیں۔ مسجد محمد‘ جو واشنگٹن کی قدیم ترین عبادت گاہوں میں سے ایک ہے اور ان دنوں اہل سنت مسلمانوں کی تحویل میں ہے‘ جن کی قیادت امریکہ میں اسلام کے بانی عالیجا محمد کے فرزند وارث دین محمد مرحوم اور ان کے پیروکار کرتے ہیں۔ سیاہ فام مسلمانوں کا دوسرا بڑا گروپ ''نیشن آف اسلام‘‘ کہلاتا ہے‘ عالیجا کے ایک شعلہ نوا شاگرد لوئس فرخان کی قیادت میں کام کرتا ہے۔ یہ دونوں گروپ مل کر امریکی مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی بنتے ہیں۔ 1995ء میں افریقی امریکیوں کی ''ملین مین مارچ‘‘ انہی کی قیادت میں ہوئی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں