ہائے میں اکیلی رہ گئی!

پرانی بات ہے۔ آصف ابھی فوج میں تھا۔ ہم نیو یارک سے گھر واپس آ رہے تھے۔ بالٹی مور کے مضافات میں ایک بڑا سٹاپ ایبرڈین کا آتا ہے۔ ایبرڈین پروونگ گراؤنڈ Aberdeen Proving Ground (APG) کا ریمپ آیا تو ونڈ سٹار اس پر چڑھ گئی۔ یہ فوجی چھاؤنی تھی اور میرا خیال تھا کہ آصف کی والدہ اسے خاکی وردی میں ملبوس پا کر خوش ہو گی۔ آصف اپنی بیرک سے باہر تھا‘ اور اس کا ایک ساتھی بیماری کی حالت میں ہماری دیکھ بھال کر رہا تھا۔ پھر آصف بھی ایک اور سپاہی کی معیت میں آ پہنچا اور ہماری دیکھ بھال اس نے سنبھال لی۔
اس زمانے میں ہمیں اتنا معلوم تھا کہ اس فوجی چھاؤنی میں جنگی ہتھیاروں کی آزمائش کی جاتی ہے۔ آصف زیرِ تربیت تھا اور کچھ بتانے سے قاصر۔ ہم نے جگہ کا نام دیکھ کر کام کا اندازہ لگایا تھا۔ نئی بات یہ ہے کہ یہاں مسٹرڈ‘ نیپام‘ سیرین اور دوسری گیسوں اور زہروں کے‘ جو میدانِ جنگ میں دشمن کا صفایا کرتی ہیں اور امن کے دور میں آلودگی پھیلاتی ہیں‘ تجربات ہوتے ہیں۔ یہیں ملازم ایک پاکستانی امریکی نے اپنی بیوی اور بیٹے کو گولی کا نشانہ بنا کر خود کشی کر لی تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل ناصر صدیق(57)‘ بیوی زرقا (49) اور بیٹا فرہاد (20) کے مرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ نہ لیلیٰ (22) کی سمجھ میں آئی‘ جو خاندان میں بچ رہنے والی واحد فرد ہے۔ وہ اگلی ریاست پنسلوینیا کے کالج میں تھی‘ جہاں وہ میڈیسن پڑھ رہی تھی۔ فرہاد میری لینڈ یونیورسٹی میں‘ جو عظیم تر واشنگٹن میں پڑتی ہے‘ بہن کی طرح ڈاکٹر بننے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ بالٹی مور اسلامک سوسائٹی کا رکن بھی تھا۔ دراصل سارا کنبہ مذہب کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ ناصر 2010ء میں 30 سال فوجی خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوا تھا‘ اور اب اے پی جی میں سول جاب کر رہا تھا۔ اس کے زمانے میں امریکی فوج میں چھ ہزار دوسرے مسلمان بھی کام کرتے تھے۔ اب ان کی تعداد زیادہ ہو گی۔ لیلیٰ کہتی ہے کہ اس کا باپ یہ کام نہیں کر سکتا مگر ساتھ ہی لکھتی ہیں ''کیوں میں اکیلی ہوں جسے چھوڑ دیا گیا؟‘‘
قانون نافذ کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ خود کشی کا سہ طرفہ معاہدہ ہے جو والد‘ ان کی رفیقہ حیات اور فرزند کی جان لے گیا۔ وہ ایک الیکٹرانی پیغام کا حوالہ دیتے ہیں‘ جو مرنے سے پہلے ناصر صدیق نے بیٹی کو بھیجا۔ زرقا کو گھر کے باتھ روم میں گولی ماری۔ فرہاد کو کالج میں تلاش کیا‘ اور ایک پوش علاقے میں اپنے محل سے دور اپنی سرخ جیپ میں گولی کا نشانہ بنایا اور پھر اپنی کار میں خود کشی کر لی۔ تین لاشیں تقریباً پینسٹھ مربع میل میں بے گور و کفن پڑی تھیں‘ اور ناصر کے ہاتھ میں .38 کا ریوالور تھا‘ جو عرصے سے ان کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ میرے ذہنی دباؤ کی دو وجوہ ہیں: اول‘ APG کی نوکری شدید ذہنی دباؤ کا باعث ہے۔ دوم (ہمارا افسر) اے پی جی کا کمانڈر اور ڈائریکٹر پبلک ورکس‘ ہمیں ایک بہت ہی پرانا اور تاریخی گھر دکھانے لے گئے‘ جسے گزشتہ ماہ گرایا جانا تھا۔ ان کا کام نہیں تھا کہ وہ ہمیں اس بہت پرانے اور غیر محفوظ گھر کے اندر لے جاتے۔ اس ٹور کے بعد میں کچھ بدلا بدلا سا محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے پہلے بھی یہ بات لڑکی کو بتائی تھی اور اپنے بھائی عاصی طاہر صدیق کو بھی۔ ناصر کے بہترین دوستوں میں سے ایک‘ میاں سلیم کہتے ہیں کہ وہ نئی ملازمت کے ذہنی دباؤ کی شکایت کرتے تھے اور اسے بدلنے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے‘ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں قدیم شہروں کے لوگ غیر محفوظ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں‘ اور بلدیہ کے نوٹس کا جواب تک نہیں دیتے۔ پولیس اور چھاؤنی کے حکام بھی ایسی دوسری باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صدیق سٹوری کے کچھ گم شدہ حصے بھی ہو سکتے ہیں۔
ناصر صدیق نو عمری میں ساہی وال سے امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ پاکستان میں شادی کی ایک تقریب میں زرقا سے ملاقات ہوئی۔ نکاح کیا اور تمام امریکیوں کی طرح دو بچے پیدا کئے۔ وہ بیشتر دوسرے فوجیوں کی طرح لحیم شحیم ہرگز نہیں تھا۔ فوج میں چار فٹ پانچ انچ کے ناصر نے زیادہ توجہ بجٹ اور اکاؤنٹس پر دی اور بالآخر کینسس یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک فوجی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور مذہب سے لگاؤ واجبی سا تھا۔ مثلاً وہ نمازِ پنجگانہ سے اکثر غائب ہوتے‘ مگر اسلامک سنٹر آف بالٹی مور کے جمعہ میں خصوصی طور پر شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے بڑے بھائی کے تتبع میں امریکی فوج میں شرکت اختیار کی تھی۔ عاصی صاحب نائن الیون کو‘ جس میں مسلمانوں سمیت کم و بیش تین ہزار لوگ مارے گئے‘ ''اندرونی کام‘‘ سمجھتے تھے مگر انہیں بڑے بھائی سے اختلاف تھا۔ عراق اور افغانستان کی لڑائیوں کے دوران‘ امریکہ کی مخالفت میں بھی پاکستان سے انہیں بہت سے خطوط اور اخبارات کے تراشے موصول ہوتے‘ جنہیں وہ ادب سے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے۔ انہیں اپنے بیٹے اور بیٹی سے بہت پیار تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے بیٹے کی جان کیوں لی اور بیٹی کو بیچ تعلیم کس کے سہارے زندہ چھوڑا؟ 
پولیس نے ناصر کے کچھ نوٹس برآمد کئے ہیں مگر ان کے مندرجات اخبار نویسوں پر ظاہر کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سانحے کو تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ جب تک عدالت میں چالان پیش نہیں کیا جاتا وہ کچھ بتانے سے انکار کرتی ہے؛ البتہ لیلیٰ اور عاصی کچھ بات کرتے ہیں۔ ان نوٹس میں ایک وصیت نامہ ہے جس کی رو سے ساری املاک لیلیٰ اور فرہاد کے نام چھوڑی گئی ہے۔ لیلیٰ پوچھتی ہے کہ جب اس کا باپ‘ بیٹے کو قتل کرنے والا تھا تو اس کے نام جائداد لگانے کا فائدہ؟ ان کاغذات میں ایک سے زیادہ دفعہ ناصر کے دستخط ہیں‘ جو بقول عاصی ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ عاصی بھوت پریت اور سازشی نظریات کو بھی مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس پرانے گھر میں مالک کی روح بھٹکتی پھرتی ہو اس کے اندر سرکاری ملازمین کو لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ ''ہو سکتا ہے کہ کسی نے ان کو ''ذہن بدلنے والی دوا‘‘ دی ہو جس میں ایل ایس ڈی شامل ہو‘ اور ہو سکتا ہے کہ کوئی ان سے یہ سب کچھ لکھوا رہا ہو۔ اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اے پی جی نے اس سانحے میں کوئی کردار ادا کیا‘ مگر ایسے شواہد موجود ہیں کہ سرد جنگ میں اس کا ہاتھ نمایاں تھا جو بنیادی طور پر تو امریکہ اور روس کے درمیان تھی مگر بھارت اور پاکستان ترازو کے دو پلڑوں میں تھے جیسا کہ ان دنوں ان کی کیفیت ہے‘‘۔ روایت ہے کہ جب بھی کوئی متنازعہ فرد صدر بنتا ہے کچھ امریکی نقل وطن کرکے یورپی ملکوں میں جا بستے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر چنا جانا ابھی دور تھا مگر اس کے امکان ظاہر کئے جا رہے تھے۔ پینٹاگان میں تقرر کے دوران ناصر صدیق کے جمہوری رویے تیز ہو گئے تھے۔ وہ نائب صدر جو بائڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ نینسی پلوسی کے قریب سمجھے جاتے تھے‘ اس لئے تفتیش میں کیس کے اس پہلو کو شامل کئے جانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں برنٹ مگوائر کا بیان لیا جا سکتا ہے جو فرہاد کا روم میٹ ہوتا تھا اور جس نے یونیورسٹی کے اخبار کو بتایا تھا کہ اس کے خیال میں یہ ایک اچھا رشتہ تھا (باپ بیٹے کے تعلقات اچھے تھے) یونیورسٹی نے (اس خیال کی تردید کی) اور کہا کہ ''یہ ایک المیہ ہے جسے ہماری ساری کمیونٹی (طلبا‘ اساتذہ اور دوسرا عملہ) محسوس کرے گی‘‘۔ آخری دفعہ جس شخص نے فرہاد کو زندہ دیکھا وہ اس کا موجودہ روم میٹ احمد ہمایوں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں