ہر مُلک، مُلکِ ماست

ایک عزیز کو چھوڑنے ڈلس انٹر نیشنل گیا تو ہوائی اڈے کی ایک جانب مخروطی رکاوٹوں اور سکیورٹی کے ایک فیتے کے پیچھے پانچ چھ افراد نظر آئے ۔ دو نے ایک ہی مضمون کا ایک کتبہ اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا: ''ورجینیا مسلمانوں کا خیر مقدم کرتی ہے‘‘۔ ایک خاتون نے یہ کتبہ اٹھا رکھا تھا: ''مفت قانونی امداد، ہمیں بتائیے اگر کسی کو گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ نیچے اسی مفہوم کا عربی ترجمہ بھی درج تھا۔ ایک اور خاتون نے ایک ملا جلا کتبہ پکڑ رکھا تھا جس پر یہ الفاظ درج تھے :''گھبرا ئیے مت، اقدام کیجیے‘‘۔ پتا چلا کہ مظاہرین، وکلا اور عام شہری ہیں جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف جمع ہو رہے ہیں، جس کی رو سے سات اسلامی ملکوں سے آنے والے مسافروں پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ میں نے آٹھ آدمیوں کو صدر بنتے دیکھا ہے، ان میں سے ایک ا لیکشن کا نتیجہ متنازع فیہ بھی تھا مگر میں نے نئے صدر کے خلاف ایسی بغاوت کے آثار کبھی نہیں دیکھے۔ ایوان (کانگرس) کی مغربی سیڑھیوں پر جہاں سے وائٹ ہاؤس، سرکاری محکموں کی عمارات اور عجائب گھر صاف دکھائی دیتے ہیں، اقتدار کی منتقلی ہمیشہ پُر امن رہی۔
ذرا آگے گئے تو ''آمد‘‘ کی جانب ماں اور دادی کے ساتھ پانچ چھ سال کا ایک بچہ نظر آیا جس کے کتبے پر یہ مضمون لکھا تھا: ''خوش آمدید، یہاں کوئی دیوار نہیں‘‘۔ یہ ٹرمپ پر طنز تھی جنہوں نے پناہ گیروں کو اندر رکھنے کے لئے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر لوہے کی چادروں سے ایک ہزار میل فصیل تعمیر کرنے کا منصوبہ بن یا، جو اب معرض خطر میں ہے۔ یہیں لاؤڈن کاؤنٹی جس میں یہ ہوائی مستقر واقع ہے، پاکستان کے فیضان رضوی سے ملاقات ہو گئی، جو اپنی اہلیہ صنعا کے ساتھ اپنی ساس کو لینے آئے تھے اور میاں بیوی فکر مند تھے کہ کہیں ضعیف العمر سے کوئی خطا نہ ہو گئی ہو، ہر چند کہ وہ ان کے ساتھ رہتی ہیں اور گرین کارڈ رکھتی ہیں۔ پہیے دار کرسی پر ساس کو دیکھ کر ماہر نفسیات اور ان کی بیوی کو اطمینان نصیب ہوا۔
امریکہ اور یورپ میں شہر شہر ہونے والے مظاہرے اور صدارتی حکم کے خلاف کئی ریاستوں کی سرتابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے ۔ ٹرمپ پہلے بارہ دن میں اٹھارہ حکمنامے صادر کر چکے ہیں، جو مقننہ میں ان کے پاس کافی ووٹ نہ ہونے کا اشارہ ہے۔ ایک مثال ارب پتی خاتون کی بطور وزیر تعلیم نامزدگی کی ہے جن کے تقرر کی تجویز پر سینیٹ میں پچاس پچاس کی گرہ پڑ گئی جسے توڑنے کے لئے نائب صدر کو بلانا پڑا۔ اس طرح بیٹسی ڈیواس، ٹرمپ کی ''تاریخ ساز‘‘ سیکرٹری بن گئیں۔
ایک جج نے مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کا صدار تی حکم منسوخ کر دیا ہے اور صدر نے اسے جلی کٹی سنائی ہیں۔ صدر کا جج کو یہ بتانا کہ اگر امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تو اس کے ذمہ داری اس پر اورباقی عدلیہ پر ہو گی، مناسب نہ تھا جبکہ ان کے پاس ایک مستعد پولیس فورس بھی موجود ہے۔ سپریم کورٹ پر نامزد قانون دان انیل گورسچ، عدلیہ پر بڑھتی ہوئی ٹرمپ کی نکتہ چینی کو ''حوصلہ شکن‘‘ کہتے ہیں۔ جوش میں ہوش نہیں رہتا۔ صدر یہ بھول گئے کہ جج بھی ان کے ہیں اور انہوں نے اپنی سمجھ سے رولنگ، آئین کا مطابق دی اور ان کی حکومت کی اپیل پر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے۔ اس جج کو ایک ری پبلکن صدر نے ہی نامزد کیا تھا۔ ایک اپیل کورٹ جج نے حکمنامہ معطل کر دیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس وقت تک ان سات ملکوں کے وہ شہری امریکہ آ سکیں گے جن کو ویزا مل چکا ہے۔ ان میں زیادہ تر عراقی شہری ہیں جو خانہ جنگی کے دوران امریکیوں کے لئے مترجم کے فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی دریا دلی یا شقاوت قلبی کا ابتدائی امتحان‘غالباً اس ہفتے ہوگا جب تین وفاقی جج صدر ٹرمپ کا حکم مستقل طور پر سرد خانے میں ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فیصلہ کریں گے۔ وہ تینوں جن میں سے ایک خاتون ہے مغربی ساحل پر بیٹھتے ہیں جو وقت کے اعتبار سے تین گھنٹے پیچھے ہے۔ فریقین کے وکلا نے ریاست واشنگٹن اور قومی دارالحکومت سے اپنے اپنے دلائل ٹیلیفون پر ریکارڈ کرائے۔ صدر اوباما نے7 لاکھ 75 ہزار افراد کو ڈیپورٹیشن سے عارضی بچاؤ کا معافی نامہ جاری کیا تھا جو صدر ٹرمپ واپس لینا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نو عمری میں اپنے ایک کروڑ دس لاکھ والدین کے ساتھ امریکہ پہنچے تھے یا یہیں پیدا ہوئے اور امریکی سسٹم کے مطابق تعلیم اور جاب حاصل کی۔ یہ زیادہ تر لاطینی امریکہ سے بس یا پیدل آئے تھے اور بلا شبہ غیر قانونی تارکین وطن کی اولاد تھے۔ وہ سب اس خیال کے حامل ہیں کہ ہر مُلک مُلکِ ماست کہ مُلکِ خدائے ماست۔ ابن بطوطہ نے مراکش سے ہندوستان جانے کے لئے کون سا ویزا حاصل کیا تھا جبکہ ٹرمپ کے وکلا کا کہنا ہے کہ صدر کو ایسا قانون بنانے کا اختیار ہے۔ یہ سٹی سٹیٹ کا شاخسانہ ہے ۔ خلیج نیویارک پر ایلس آئی لینڈ اس امر کا گواہ ہے کہ جب امریکہ آباد ہو رہا تھا تو کسی داخلہ پرمٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک لاکھوں امیگرینٹ اس جزیرے سے گزرے۔ ان میں مسلمان بھی تھے۔ آج کوئی اسلامی ملک امیگریشن نہیں دیتا۔ افغان مہاجرین کا سب سے بڑا گروپ (دس لاکھ) پاکستان میں مقیم ہے اور اب انہیں آہستہ آہستہ وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور مصر، ٹرمپ کی فہرست میں شا مل نہیں اور نہ انتظامیہ کا ایسا ارادہ ہے۔ یہ چپ رہنے کا انعام معلوم ہوتا ہے۔
امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ امیگر یشن کے قانون میں اصلاحات کی جائیں جو انہیں رہا ئش، مطالعہ اور سفر کی لمبی مدت کے تحفظات مہیا کریں۔ پندرہ پندرہ سال سے یہاں پڑے ہیں اور خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی اکثریت کم تعلیم یا فتہ ہے جو ایسے کام کرتے ہیں جن کو باقی آبادی منہ نہیں لگاتی۔ یہ تجویز مسٹر ٹرمپ کی جانب سے وسیع پیمانے پر اخراج سے مختلف ہے مگر ان لوگوں کے خواب کی ایک تعبیر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے لئے امید کی ایک کر ن ثابت ہو۔ عراق، شام، صومالیہ اور چند زیر عتاب ملکوں سے کچھ کنبے واشنگٹن پہنچے ہیں۔ مہاجرین کی آمد کم ہونے سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں