سندھ میں پولیس 1861ء کے ایکٹ کے تحت کام کرے یا پولیس آرڈر 2002ء نافذ کر دیا جائے‘ پیپلز پارٹی کی حکومت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے اور اسی کے ذریعے اپنے جرائم کو تحفظ بھی دیا گیا (اسی دوران کچھ عرصے کے لیے ایم کیو ایم بھی کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر میں اس کا حصہ رہی)۔ کانسٹیبل سے ڈی ایس پی تک سیاسی کارکنان، اراکین پارلیمنٹ کے عزیز رشتے داروں اور سیاسی تعلقات رکھنے والوں کو بھرتی کیا گیا۔ ضلعی پولیس کے سربراہان کا انتخاب وڈیرہ شاہی کے ہاتھ میں رہا جو اپنی کسی بھی مخالفت کو کچلنے کے لیے اپنے من پسند افسران کا انتخاب کرتے ہیں۔
ریاست کی زمین، جنگلات اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار بے خوف و خطر اس لیے جاری رہی کہ ریاستی اختیارات ہی ان لٹیروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ صوبے میں بد ترین حکومت جاری تھی جس میں اے ڈی خواجہ کے دور میں بہتری آئی، سندھ پولیس سیاستدانوں، ان کے ساتھیوں اور سیاسی وفاداریاں نبھانے والے افسران کی غلامی سے نکلنا شروع ہوئی۔
روزانہ قتل، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، دہشتگردی اور دیگر جرائم کی وارداتوں کے باعث کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر قرار پایا۔ 2016ء میں سول سوسائٹی نے پولیس میں سیاسی مداخلت کے خلاف آئینی درخواست D-7097 دائر کی۔ 7 ستمبر 2017ء کو سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کی انتظامی سطح پر خود مختاری کے حق میں فیصلہ دیا اور اس کے انتظامی فیصلوں میں وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے ارکان کی سیاسی مداخلت کے خاتمے کی ہدایت بھی جاری کی۔ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے پریشان کُن تھا اور اس نے محکمہ پولیس کو اپنا ذاتی فرمان دار بنانے کے لیے دوبارہ تگ و دو شروع کردی ہے۔ اسی لیے یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ پی پی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کرکے پولیس آرڈر کی بحالی کے لیے شدومد کے ساتھ مصروف ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں محکمے کی مجموعی صورتحال کو بہتر کرنے‘ محکمہ پولیس کو انتظامی فیصلہ سازی میں خود مختاری دینے اور آزادی کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے آئی جی کو تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار دیا گیا (ظاہر ہے کہ یہ اختیارات یہیں تک محدود نہیں)۔ یہ بھی تنبیہ کی گئی کہ کسی بھی وزیر‘ مشیر یا سرکاری عہدیدار کی جانب سے پولیس کے فیصلوں میں مداخلت ختم ہونی چاہیے۔ سینئر پولیس افسران کی تقرری/ تعیناتی سے متعلق سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی کو تیس دنوں کے اندر واضح، شفاف اور قابل عمل ضوابط کا خاکہ تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ محکمے میں ہر سطح (جس میں صوبے میں خدمات انجام دینے والے پی ایس پی افسران بھی شامل ہیں) کی تقرریوں اور تبادلے سے متعلق اصول متعین ہوں۔ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس فیصلے میں اس سے متعلق جو بنیادی اصول وضع کردیے گئے تھے ان پر عملدرآمد کروایا جائے۔
آئی جی نے قواعد کی منظوری کے لیے مسودہ حکومت سندھ کو ارسال کردیا۔ حکومتِ سندھ گزشتہ 18ماہ سے ان مجوزہ ضوابط کی منظوری میں تاخیر کررہی ہے۔ اس فیصلے پر حکومت سندھ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کردی اور صوبائی حکومت کو ہائیکورٹ کے فیصلے میں دی گئی ہدایات کے مطابق اور جدید ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین بنانے کا کہا گیا تھا۔ اپنے مختصر حکم نامے میں سپریم کورٹ نے بالخصوص محکمہ پولیس کو پولیس ایکٹ 1861ء کے تحت آزادانہ فرائض انجام دینے سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلے کی توثیق کی۔ اس فیصلے پر حکومتِ سندھ کی اپیل تاحال زیر التوا ہے۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کی تعمیل میں آئی جی پولیس کے تیارکردہ ضوابط کے مسودے کی منظوری دینے سے دامن بچانے کے لیے صوبائی حکومت نے پولیس آرڈر 2002ء کی بحالی کا فیصلہ کیا، جس کے بعد اعلیٰ پولیس افسران کی تقرری اور تبادلے کے اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس چلے جائیں گے۔
سیاسی اثرورسوخ ختم کرنے سے سندھ پولیس میں واضح بہتری آئی، مختصر مدت میں کراچی دنیا کے خطرناک شہروں کی درجہ بندی میں چھٹے سے 70ویں پر آگیا۔ 2013ء کے مقابلے میں قتل کی وارداتوں میں 70فیصد کمی آئی۔ پولیس فورس کے نظم و ضبط اور داخلی جوابدہی میں بہتری آئی اور افسران نے سیاسی شخصیات کے بجائے اپنے حکام سے ہدایات لینا شروع کردیں۔ اعلیٰ عدالتی فیصلوں کے بعد سندھ میں بڑے جرائم کی شرح میں واضح کمی ہوئی۔
جرائم 2014 2015 2016 2017 2018 2019
دہشتگردی 36 10 7 3 4 0
قتل 3294 2087 1493 1520 1298 332
ٹارگٹ کلنگ 189 159 45 23 18 11
اغوا برائے تاوان 254 74 49 46 38 6
بھتہ 489 264 195 153 143 38
کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں بھی بڑی واضح کمی دیکھنے میں آئی‘ جس کا گراف کالم کے آخر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
محکمے کا انفراسٹرکچر اور کلچر بہتر بنانے کے لیے پولیس اور عوام کے حق میں یہ اقدامات کیے گئے: (1) ہر رینج اور ضلع کی سطح پر پولیس کا امیج بہتر بنانے کے لیے سہولت مراکز قائم کیے گئے (2) خصوصی برانچ میں اصلاحات: ڈیٹا سینٹر کا قیام، بی ڈی یو اور کینن یونٹ کو اپ گریڈ کیا گیا (3) سندھ پولیس نے قومی سطح کی دو ورکشاپس کا اہتمام کیا (4) دورِ حاضر میں پولیسنگ اور مستقبل سے متعلق سٹریٹیجک ورکشاپ کا اہتمام (5) سپیشل برانچ کے تحت ''انٹیلی جنس بیسڈ پولیسنگ‘‘ (چیلنج اور امکانات) کے موضوع پر ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں مسائل اور ممکنہ حل زیر بحث آئے۔
آئی ٹی کے شعبے میں یہ اقدامات کیے گئے (الف) انفرادی ریکارڈ کی تصدیق کی سروس (ب) ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (HRMIS) (ج) کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم (CRMS) (د) پولیس سٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم(PSRMS)(ہ) آئی جی کا کمپلین مینجمنٹ سسٹم(CMS) (و) ہوٹل آئی مینجمنٹ سسٹم(HEMS) (ز) ریسورس مینجمنٹ سسٹم (RMS) (ح) کریمنل ریکارڈ آئیڈنٹی فکیشن (CRI)۔ کمپلین ری ڈریسل میکنزم جس میں (الف) انٹرنل افیئر برانچ کا قیام پولیس کی داخلی جوابدہی کے لیے کیا گیا (ب) سندھ کے تمام ریجنز اور اضلاع میں کمپلین ری ڈریسل میکنزم قائم کیا گیا۔
پولیس کی افردی قوت میں بہتری لائی گئی (الف) 26639 کانسٹیبل کی شفاف بھرتیاں (ب) سپیشل پروٹیکشن یونٹ کا قیام (جس میں سابق فوجی اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا) (ج) طویل عرصے سے زیر التوا ترقیوں میں 288 انسپکٹرز کو ڈی ایس پی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ سکول آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ، سکول آف ٹیلی کمیونیکیشن کا قیام۔ ایڈیشنل آئی جی پی ٹریفک اور ایڈیشنل آئی جی سندھ کے اختیارات کو آئی جی پی حیدرآباد اور سکھر کے مناصب میں تقسیم کر دیا گیا۔ پولیس ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن، سکھر میں نئے پولیس ہسپتال کا قیام، اور تفتیش کے لیے بجٹ میں رقم مختص کرنے والے اقدامات پائپ لائن میں ہیں۔ چینی قونصل خانے پر حملے کے سوا اس عرصے میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، محرم کے جلوسوں سے لے کر پی ایس ایل تک تمام اہم مواقع پر پولیس نے پیشہ ورانہ انداز میں ان کا پُرامن انعقاد ممکن بنایا۔ ہائی ویز قدرے محفوظ ہوگئے اور ان پر اغوا کی وارداتوں پر قابو پالیا گیا۔ (باقی صفحہ 11 پر)
امن و امان کے اعتبار سے کراچی ایک کاروبار پرور شہر بن گیا۔ اس صورت میں محکمے کو دوبارہ سیاسی اختیار میں دینا ایک ہولناک غلطی ہوگئی‘ صوبے کے عوام (اور اس کی معیشت) اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
پولیس آرڈر 2002ء کی بحالی صوبائی حکومت کو سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق تقرری وتبادلے سے متعلق ضوابط تشکیل دینے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں کرتی اور محکمے کو آزادانہ طور پر کام کرنے اور آئی جی کو بااختیار بنانے کا بھی پابند بناتی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ توہین عدالت کے مترادف ہوگا۔ پولیس آرڈر 2002ء کو اگر چیلنج کیا جائے تو اس کے ہائیکورٹ کے فیصلے سے تضادات سامنے آجائیں گے۔
پولیس ایک منظم ادارہ ہے اور اس کی بہتر کارکردگی کے لیے یونٹی آف کمانڈ ناگزیر ہے۔ ایک غیر جانبدار، پیشہ ور اور غیر سیاسی پولیس صوبے کے عوام کا حق ہے۔ سول سوسائٹی کی طویل جدوجہد اور طویل عرصے سے درکار عدالتی مداخلت کے بعد ہی پولیس میں وہ اصلاحات ممکن ہوئیں جن سے موجودہ بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ ایک بار پھر ایک مفادپرستی کی فتح ہوتی ہے اور شاطرانہ قانون سازی کے ذریعے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو غیر مؤثر بنا کر مخصوص طبقہ پولیس کو قابو کرنے میں کام یاب ہوتا ہے تو یہ صوبے میں قانون کی حکمرانی کی لگن سے کام کرنے والے شہریوں کے لیے بہت بڑی بدشگونی ہوگی۔ حکومتی اداروں کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ کیا ہم دوبارہ کراچی اور سندھ کو اس درد ناک ماضی کی جانب لے جانا چاہیں گے جب قانون کے نام پر مجرموں کو تحفظ حاصل رہا؟
جرائم
2014
2015
2016
2017
2018
2019
موبائل چھیننے کی وارداتیں
18757
21028
16042
14872
14899
5555
فور وہیلر گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں
853
339
220
227
176
66
چوری ہونے والی فوروہیلر
2991
1809
1564
1235
1209
442
موٹر سائیکل چھیننے وارداتیں
4403
2848
2478
2527
2126
547
موٹر سائیکل چوری
18048
18104
22392
24298
26225
8363