محترم نذیر ناجی صاحب پاکستان کے صفِ اول کے صحافی اور بزرگ دانشور ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں وہ ایک عرصہ سے طالبان کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ 19ستمبر کو انہوں نے جو لکھا‘ اس کا خلاصہ یوں ہے : ’’ہم نائن الیون کے بعد امریکہ کے اتحادی بن گئے ۔ ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کے بھی مددگار بن گئے۔ امریکہ نے جواب یوں دیا کہ ہماری ہی سرزمین سے لڑنے والے طالبان تیار کردیے۔ ہتھیار اور ایک نظریہ دے کر ہمارے خلاف کھڑا کردیا۔ میں پہلا آدمی تھا جس نے فوراً ہی مرض کی نشاندہی کی۔ پاکستانی اور امریکی طالبان کی اصطلاحیں استعمال کیں۔ ہمارے حکمران یہ جنگ جیتنے کے لیے نااہل اس لیے ہیں کہ کرپٹ ہیں۔ لوگ ان سے بیزار ہیں۔ نقشہ کچھ اس طرح دکھائی دے رہا ہے کہ طالبان طاقت پکڑیں گے‘ ہمارے حکمران انہیں روک نہیں پائیں گے۔ دنیا طالبان کا غلبہ برداشت نہیں کرے گی اور ہماری سرزمین پر ایک نئی طرح کی معرکہ آرائی شروع ہوجائے گی اور یہ کتنی بڑی، وسیع اور خونخوار جنگ ہوگی؟ عالمِ انسانیت نے اس کا کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا ‘‘ قارئین کرام !ناجی صاحب کے تجزیے سے جزوی طورپر اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان عالمی سازشوں کا مرکز بناہوا ہے‘ ایسے حالات میں فوری اور بہترین حل تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ نظریہ جس کے ذریعہ امریکہ اپنے طالبان کو آگے کرکے پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے اس کے علمبردار ہمارے حکمران بن جائیں اور بقول ناجی صاحب طالبان کے ہاتھوں میں وہ نظریہ کٹر اور بے رحم اسلامی نظریہ ہے‘ تو میں کہتا ہوں ہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں وہ انتہائی رحم دل اور نرم بن جائے۔ یوں طالبان جس نظریے کی بنیاد پر کھڑے ہیں وہ نظریہ حکومت پاکستان کے ہاتھ میں آجائے گا تو طالبان بے بنیاد ہوکر لڑائی کا اخلاقی اور اسلامی جواز کھودیں گے۔ یوں ہمارا معاشرہ پُرامن اور خوشحال ہوجائے گا اور ہم عالمی سازشوں سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دانشوروں کو محترم ناجی صاحب کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے مذکورہ حل پر خامہ فرسائی کرنی چاہیے۔ مدینہ کی ریاست میں یہودی بھی تھے‘ مشرک بھی تھے اور منافقین بھی۔ حضورؐ نے یہودیوں کے فیصلے ان کی تورات کے مطابق کیے۔ باوجودیکہ تورات تحریف شدہ تھی‘ حضورؐ نے تحریف شدہ تورات کا احترام کیا اور خود تکیے کے بغیر بیٹھ گئے اور تکیے پر تورات کو رکھا۔ منافقوں کو بھی دائرہ اسلام میں شامل رکھا‘ اسلام کے احکامات کو بھی تدریحاً نافذکیا۔ شراب کے بارے میں حکم آیا کہ نماز کی حالت میں اس کے قریب بھی نہ جائو‘ پھر حکم آیا کہ اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے اور پھر اسے بالکل ہی ممنوع قراردے دیا۔ حضورؐ کے ہرطرزِ عمل میں کمال حکمت اور دانشوری ہے۔ جب دس ہزار کی تعداد میں مختلف قوتیں حملہ آور ہوئی تھیں تو حضورؐ نے صرف دفاع کیا۔ جب وہ قوتیں تنگ آگئیں تو حضورؐ نے اپنا بندہ بھیجا کہ حالات دیکھ کر آئو۔ صحابی کو نصیحت کی کہ ہتھیار چلاکر ایسی غلطی نہ کرنا کہ اتحادی طاقتیں غضب میں مبتلا ہوکر واپس جانے کی بجائے ہم پر چڑھ دوڑیں ۔ لہٰذا صحابی کہتا ہے کہ اتحادی طاقتوں کا آرمی چیف ابوسفیان میری زد میں تھا‘ چاہتا تو تیر مارکر اُڑادیتا مگر حضورؐ کا فرمان یادآگیا‘ اس لیے رک گیا۔ یہ ہے وہ حکمت اور دانائی جو اللہ نے اپنے نبیؐ کو عطافرمائی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے آخر ہم اس سے فارغ اور تہی دامن کیوں ہیں؟ ہمارے سامنے ایک مثال ترکی کی ہے۔ اس میں تدریج اور حکمت ہے۔ آج ترکی معاشی اور دفاعی میدان میں حیران کن حدتک آگے بڑھ گیا ہے۔ عبداللہ گل اور طیب اردوان تیسری بار اقتدار میں ہیں۔ وہ آئین کو تبدیل کرنا چاہتے تھے مگر مطلوبہ اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے وہ پانچ سال مزید انتظار کررہے ہیں۔ تب تک وہ اسی سیکولر قانون میں رہتے ہوئے اپنے راستے نکالتے ہوئے کہاں سے کہاں چلے گئے ہیں۔ کمال اتاترک کی تکریم بھی کررہے ہیں اور اسلامی روایات کی طرف بھی آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ اسلام کے تمام قدیم وجدید جلیل القدر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی شخص کتاب وسنت کا کتنا ہی بڑا علامہ کیوں نہ ہو جب تک وہ زمینی حقائق سے آگاہ نہ ہو‘ عالمی سیاست پر نظر نہ ہو‘ جدید علوم سے آگاہی نہ ہو‘ وہ فتویٰ دینے کا اہل نہیں ہے۔ عربی میں اس زمینی حقیقت کو ’’فقہ الواقع ‘‘ (Ground Reality) کہا جاتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے علماء اور دانشوران ملّت کو آگے بڑھنا چاہیے۔ حکومت سرپرستی کرے۔ جیسے سود کو ختم کرنے کی متفقہ قرارداد قومی اسمبلی نے منظور کی ہے‘ یہ محض قرارداد نہ رہے‘ اس کو عملی صورت دینے کا آغاز کیا جائے۔ تھانہ اور پٹوار کلچر کی فی الفور اصلاح کی جائے۔ لائحہ عمل بنایا جائے اور عمل کا آغاز کیا جائے۔ عدالتی نظام کو تیز کیا جائے۔ ججوں کو پابند کیا جائے کہ فوجداری مقدمے کا فیصلہ تین ماہ کے اندر سنایا جائے‘ سزاپر عمل درآمد فوری کیا جائے۔ سزائیں سرِعام دی جائیں ۔ میاں نواز شریف اب تک تین ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ جس دن میاں صاحب چین میں تھے اسی دن چین کے وزیر ریلوے کو سزائے موت سنائی گئی۔ دوسرادورہ سعودی عرب کا تھا‘ وہاں سزائیں سرِعام ہیں۔ جرم اور مجرم کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ تشہیر اس دن ہوتی ہے جس دن مجرم کو سزادینا ہوتی ہے۔ یوں معاشرہ خوف اور سراسیمگی سے بچ جاتا ہے اور مجرم کی سزاکی صورت میں صرف سکھ کا سانس لیتا اور عبرت حاصل کرتا ہے۔ تیسرا ملک ترکی ہے جہاں میاں صاحب تشریف لے گئے ہیں‘ وہاں کا وزیراعظم کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ اس نے ترکی کو معاشی شیربنادیا مگر اس کی اپنی جائداد بیرون ملک نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں ان تین ملکوں کی خوبیوں کو ہی سامنے رکھ لیا جائے‘ ملک کی صورتحال بدل جائے گی۔ مناسب ہوگا کہ ہم اپنے معاشرے کو بتدریج تبدیلی کی طرف لے جائیں‘ نرمی اور ملائمت سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں سختی بھی کریں۔ رنگ ، نسل اور قوم پرستی کی بنیاد پر جماعتیں نہ بننے دیں، فرقہ وارانہ تعصب اور تشدد کی بنیاد پر گروہ بندی نہ کرنے دیں۔ اس پر قانون سازی کریں۔ ہرایک فرد اور مسلک کو آزادی ہو مگر جہاں کوئی تشدد وقتل کے دائرے میں داخل ہو وہاں گردن دبوچ لیں۔ یہ سارا کچھ عدل وانصاف کی بنیاد پر ہوتو پاکستان سرخروہوجائے گا (ان شاء اللہ) ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد تقریباً 35سال ہوگئے۔ پاکستان میں کون برسراقتدار رہے؟ آٹھ سال پرویز مشرف کے نکال دیں‘ باقی ستائیس سال ہمارے ملک میں وہ برسراقتدار رہے ہیں جو آج بھی برسراقتدار ہیں۔ اس برسراقتدار گروہ میں نیا طبقہ صرف عمران خان کی تحریک انصاف ہے جس کی جزوی حکومت کی عمر صرف تین ماہ ہے۔ ان ستائیس برسوں میں ہمارے حکمرانوں نے قوم کو کیا دیا ہے؟ میں کہتاہوں دیکھ لیں‘ اگر یہ کوئی ڈلیور کرسکتے ہیں تو ٹھیک وگرنہ قوم کے بہی خواہوں اور ہمدردوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ملک و ملّت کی بہتری کاروڈ میپ تیار کرنا چاہیے اور اس روڈ میپ پرچلانے والی ایماندار‘ غیرجانبدار قیادت کو بھی سامنے لانا چاہیے جو ملائیشیا کے مہاتیر محمد، ترکی کے عبداللہ گل اور رجب طیب اردوان کا ساکردار ادا کرے۔ ہمارا پاکستان ان دوملکوں سے بہت مختلف ہے۔ اس کے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی قوانین کے نفاذ کو تیز کیا جائے اس لیے کہ ہمارا آئین پہلے ہی کتاب وسنت کو سپریم لاء مانتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل موجودہے۔ لوگوں کی اسلام کے ساتھ وابستگی اور اسلامی روایات موجود ہیں۔ حضرت علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم کی دی ہوئی اسلامی روح اور دوقومی نظریہ موجود ہے؛ لہٰذا پاکستان کے حکمران عملی میدان میں آگے بڑھ کر شریعت کے نفاذ کا پرچم تھام لیں تو پاکستان اندرونی اور بیرونی تمام سازشوں سے محفوظ ہوجائے گا اور محترم نذیر ناجی صاحب نے جس خطرے کو بھانپا ہے وہ دم توڑ جائے گا۔ (انشاء اللہ)