پاکستان میں رہنے والے 20کروڑ انسانوں میں کالاش کافروں کی آبادی صرف تین ہزار ہے۔ چترال کی دو وادیوں کا نام ''بمبریت‘‘ اور ''اُڑمبور‘‘ ہے۔ ان وادیوں میں کالاش کفار کی اکثریت تھی مگر کچھ دعوتی لوگوں کی محنت سے یہ مسلمان ہوتے چلے گئے اور اب صرف تین ہزار باقی رہ گئے ہیں۔ میں ان دو وادیوں میں کئی بار گیا ہوں، یہ بڑے امن پسند لوگ ہیں۔ بتوں کے پجاری ہیں اور اپنے فوت شدہ لوگوں کو کھلے تابوت میں رکھ کر ایک طے شدہ جگہ پر رکھ دیتے ہیں جہاں درندے اور پرندے لاشوں کا گوشت کھا جاتے ہیں، ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ میں نے ان ہڈیوں کو دیکھا، کالاش لوگوں سے ملا۔ محبت اور پیار سے دعوت دی جائے تو غوروفکر کرنے والے لوگ ہیں۔ میرا کلیجہ اس وقت ہل کر رہ گیا جب میں نے سنا کہ ان کو دھمکی دی گئی کہ مسلمان ہو جائو ورنہ اُڑمبور اور بمبریت کی پرامن وادیوں کو بم دھماکوں کی نذر کر دیا جائے گا۔
مجھے احد کا میدان یاد آ گیا، یہ جنگ کا میدان تھا، یہ واحد غزوہ ہے جس میں حضور نبی کریمﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے، حضورﷺ زخمی ہوئے اور مشہور ہو گیا کہ آپﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ اس غزوہ میں حضرت حمزہؓ اور دیگر 70صحابہ شہید ہوئے۔ حضورﷺ کی زندگی کی یہ مشکل ترین جنگ تھی... یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضورﷺ سے ایک بار پوچھ ہی لیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ!کیا احد سے بڑھ کر بھی آپ پر کوئی مشکل وقت آیا۔ حضورﷺ نے فرمایا! ہاں، احد سے بھی بڑھ کر میرے لئے وہ وقت مشکل تھا جب میں طائف کے میدان میں دعوت دینے گیا، وہاں کے کفار سرداروں نے اپنے چھوکرے میرے پیچھے لگا دیئے جو پتھر مارتے تھے۔ انہوں نے مجھے زخمی کر دیا۔
قارئین کرام! غور فرمایئے، حضور نے 70صحابہ کی شہادت کے باوجود احد کی جنگ کو طائف کی تکالیف کے برابر قرار نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ میں مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں فتح بھی ہوتی ہے اور شکست بھی... لہٰذا شکست پر دلیر اور بہادر لوگ واویلا نہیں کیا کرتے جبکہ دعوت کا جو میدان ہے وہاں ہتھیار نہیں چلایا جاتا، جسمانی مقابلہ نہیں کیا جاتا، وہاں تو قربانی ہی قربانی ہے‘ برداشت اور حوصلہ ہے۔ دعوت میں دلیل اور برہان ہے‘ عقل اور دانشوری کا امتحان ہے۔ اس امتحان میں پاس اور کامیاب وہی ہے جس نے مخالف کی گالی پر مسکرانا سیکھا ہے۔ ظلم پر دعا دینے کا ڈھنگ یاد کیا ہے۔ پتھر کا جواب پھول سے دینے کا طرز اختیار کیا۔ جی ہاں! یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ اسی لئے اللہ نے اس کام کے لئے نبیوں کا انتخاب کیا اور انبیاء کا وارث علما کو بنایا کہ وہ یہی کام کریں‘ لہٰذا عالم وہ ہے جو عالی حوصلہ ہو نہ کہ وہ جو جلاد ہو۔
طائف میں حضورﷺ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ نمودار ہوا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسولﷺ مجھے اللہ نے بھیجا ہے، اجازت ہو تو سارے طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان رکھ کر رگڑ دوں، فرمایا بالکل نہیں، یہ نہ سہی‘ ان کی اولادیں میرا کلمہ پڑھیں گی۔ میں نے اپنے پیارے حضورﷺ کے اس پُررحمت انداز پر بڑا غور کیا، حضورﷺ کے انداز پر بہت سوچ بچار کی‘ آخر یہی سمجھا کہ حضورﷺ نے دعوت کی راہوں میں لمبے انتظار کا پروگرام بنا لیا تھا... مگر کچھ لوگ، میرے حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے والے، ہاں ہاں! یہ ذرا بہت جذبے والے مومن ہیں، جو انتظار نہیں کر سکتے اور جلدی جلدی کافر کو قتل کر کے فارغ ہونا چاہتے ہیں۔ جنت کا ٹکٹ لینا چاہتے ہیں... سوچتا ہوں کس سے؟ ارے میرے حضورﷺ کے رب کریم سے؟ رحمۃ اللعالمین کے رب العالمین سے؟ یا للعجب!
پاکستان کے لوگو، یہ دیکھو، میرے حضورﷺ کی دعوت کا رزلٹ آیا، بنو ثقیف والے ہی تھے‘ جنہوں نے میرے حضورﷺ کو طائف میں ستایا تھا۔ میں پوچھتا ہوں حجاج بن یوسف کون تھا؟ وہ ثقفی تھا، اس نے قرآن پر اعراب لگوائے اور ایک نسخہ مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ لکڑی کے صندوق میں رکھ دیا، اس ستون کو اس حوالے سے ''اسطوانہ مصحف‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ستون کے اور بھی نام ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضورﷺ کے فراق میں کھجور کے تنے والا ستون رو دیا تھا، اس ستون کو اس حوالے سے ''رونے والا ستون‘‘ یعنی ''اسطوانہ حنانہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حجاج کو یہ مقام ملا اور اسی نے محمد بن قاسم کو بھیجا، اس کا نام ہی میرے حضورﷺ کے نام پر ان لوگوں نے رکھا جو حضورﷺ کو پتھر مارنے والے تھے۔ وہی آیا، میرے حضورﷺ کی دعوت کی برکت سے دعا بن کر آیا۔ برصغیر میں آیا اور آج ہم مسلمان ہیں۔ یہ ہے میرے حضورﷺ کے انتظار کا رزلٹ اور نتیجہ، کس قدر خوبصورت ہے نتیجہ، سبحان اللہ۔
مدینہ پر بھی نظر دوڑائیں کہ وہاں اللہ کے رسولﷺ حکمران ہیں۔ وہاں انصار کی دور جاہلیت میں عادت تھی کہ ان کی عورتوں کا کوئی بچہ بیمار ہو جاتا تو وہ منت مان لیتیں کہ یہ تندرست ہو گیا تو اسے یہودی بنا دیں گی... اب جب حضورﷺ کی آمد پر انصار مسلمان ہو گئے تو ابودائود میں ہے کہ انصار نے اپنے ان لوگوں اور جوانوں کو زبردستی مسلمان بنانا چاہا۔ اس پر اللہ نے آیت اتار دی:
''دین میں کوئی جبر نہیں، گمراہی میں سے بھلائی واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے‘‘۔
لہٰذا جس کا دل کرے مسلمان ہو جائے، جو چاہے کفر کے عقیدے پر رہے، جی ہاں! دعوت سے مسلمان کیا جا سکتا ہے، جبر سے نہیں۔ یہ ہے اللہ کا قانون، قرآن اور مدینے والے کا مدینے میں نافذ قانون جس میں انسان کے عقیدے کو جبر اور ظلم سے تحفظ دیا گیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولﷺ کو ''داعی‘‘ دعوت دینے والا کہا ہے، حضورﷺ کی شدید خواہش تھی کہ لوگ مسلمان ہو جائیں، اللہ نے اس پر رہنمائی کرتے ہوئے قیامت کے دن تک ایک رہنما اصول متعین کر دیا، فرمایا!
''میرے نبی! اگر تیرا رب چاہتا تو زمین پر رہنے والے تمام انسان ایمان لے آتے (اب اگر اللہ کے قدرتی قانون اور مشیت کے تقاضوں کے مطابق وہ ایمان نہیں لاتے) تو آپ لوگوں کو مجبور نہ کریں کہ وہ بہرصورت مومن بن جائیں؟‘‘(یونس 99)
اسی طرح اللہ نے سورہ ''غاشیہ‘‘ میں واضح طور پر فرما دیا، میرے نبیﷺ! آپ ان لوگوں پر ''مسیطر‘‘ داروغہ نہیں ہو... یعنی اللہ نے اپنے پیارے نبیﷺ کو مخاطب کیا‘ اس لئے کہ احکام ملنے کا ذریعہ اور واسطہ وہی ہیں۔ لیکن دراصل فرقہ پرست سخت گیروں پر واضح کر دیا کہ کوئی نام نہاد داعی اور مبلغ اگر لاٹھی لے کر کھڑا ہو جائے کہ وہ بہرصورت مسلمان بنا کر چھوڑے گا تو اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ جی ہاں! مسلمانوں کی تاریخ یہی ہے کہ جبر کے ساتھ نہیں بلکہ لوگ اپنی مرضی سے مسلمانوں کا عقیدہ اور کردار دیکھ کر مسلمان ہوئے جبکہ سپین میں مسلمانوں کو جبر کے ساتھ مسیحی بنایا گیا۔ کیا آج کچھ مسلمان سپین کے فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں پھر یہ بھی سن لینا چاہئے کہ یہ کردار اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ کے خلاف ہے۔ ہاں فرڈیننڈ اور ازابیلا کے کردار پر راضی ہو تو تاریخ کے ان قصابوں کا کردار آج کے قصائیوں کو مبارک ہو۔
اسی طرح سورۃ اعراف میں ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی کافر قوم کے سرداروں نے دھمکی دی کہ ہم تمہیں مسلمان ہونے کے جرم میں جلا وطن کر دیں گے نہیں تو ہماری (بت پرستانہ) ملت میں واپس آنا ہو گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جواب دیا‘ ہم اس ملت کو ناپسند کریں پھر بھی؟ یعنی جبر کرو گے اور ہمیں کافر بنائو گے؟ جی ہاں! آج اگر نام نہاد مسلمان داعی ایسا ہی جبر کر کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو وہ غور کر لیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا کرداراپنا رہے ہیں یا حضرت شعیب علیہ السلام کی کافر قوم کا جبری انداز اختیار کر رہے ہیں۔
قارئین کرام! ہم سمجھتے ہیں کوئی سچا مسلمان اور داعی ایسی دھمکی نہیں دے سکتا۔ یہ کوئی خاص الخاص بیرونی ایجنٹ ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے پرامن دین کو بدنام کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور اہل پاکستان کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں، میں نے یہ ساری تحقیق اور کاوش دنیا کے سامنے اس لئے رکھی ہے کہ میرے حضورﷺ کے صاف ستھرے اور پُرامن و شفاف دین کا مبارک چہرہ گدلانہ ہونے پائے۔ ہو بھی نہیں سکتا اس لئے کہ حضورﷺ کے وارث علمائے حق موجود ہیں (ان شاء اللہ)