ہاں ہاں! پرویز مشرف سے بدلہ لو کہ اسی میں تمہاری زندگی ہے۔
محترم میاں صاحب! قوم کو بتلایئے کہ پرویز مشرف سے بدلہ لینے میں ہی زندگی ہے۔ میری زندگی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ میری حکومت کی زندگی کا انحصار بھی اسی پر ہے اور جمہوریت کی زندگی کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ پرویز مشرف صاحب قابو میں آئے ہوئے ہیں، لہٰذا ان سے بدلہ لیا جائے۔وزیر دفاع اور وزیر ریلوے بھی درست کہتے ہیں‘ اسی شخص کو سزا ملنی چاہیے۔
جی ہاں! جمہوری زندگی کا تقاضا یہی ہے کہ عدل اس انداز سے کیا جائے کہ اکیلے پرویز مشرف سے بدلہ لیا جائے۔ ان کے ساتھی جرنیلوں کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں بیٹھے 70 ممبران اسمبلی‘ جو پرویز مشرف کے دور میں ان کے ساتھی تھے‘ ان کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔ پرویز مشرف کے جو ساتھی مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے‘ وزیر بھی بن گئے‘ عدل کا جدید جمہوری تقاضا یہ ہے کہ ان کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔ اس دور کی جو سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈرز پرویز مشرف کے ساتھ تھے‘ ان کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔ جو مولوی حضرات اس دور میں ساتھ تھے‘ ان سے بھی صرف نظر کیا جائے۔ جو صحافی ان کے حق میں لکھتے تھے‘ انہیں بھی کچھ نہ کہا جائے۔ جی ہاں! بس اکیلے پرویز مشرف کو دھر لیا جائے‘ اس لیے کہ قابو میں آ گئے ہیں‘ لہٰذا سب کوزندگی مل جائے گی۔
میاں صاحب کے منہ سے جب ظلم کی داستان سنتے ہیں کہ کس طرح محترم میاں صاحب کو قید میں ڈالا گیا۔ منتخب وزیراعظم کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تو سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ اس قدر ظلم... جی ہاں! اب اس ظلم کا بدلہ ہونا چاہیے۔ اکیلے پرویز مشرف سے ہونا چاہیے کہ اسی میں زندگی ہے۔
پاکستان میں اس وقت سات ہزار قیدی ہیں جو سزائے موت کے منتظر ہیں، سابق صدر آصف زرداری صاحب نے ان سزائوں کو معطل کیا‘ اس لیے کہ یورپی یونین کا مطالبہ تھا۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے بھی اس فیصلے اور مطالبے کو ابھی تک برقرار رکھا ہوا ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کہتے ہیں کہ کراچی میں اور ملک کے دیگر علاقوں میں جو روزانہ قتل ہو رہے ہیں‘ اس رفتار کو مندرجہ بالا طرز عمل نے تیز کر دیا ہے۔ جب قاتلوں کو معلوم ہے کہ سزا ہی نہیں تو قتل تو ہوں گے۔ مزید برآں! ان سات ہزار مجرموں میں سے ایسے بھی قاتل ہیں جو جیلوں کے اندر بیٹھے قتل کروا رہے ہیں۔ یہ بات کراچی پولیس کے افسر صاحب کہہ رہے ہیں... یعنی قتل کی لہر ہے جو بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بڑھتی رہے، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جمہوریت کے مستقبل اور اس کی زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ یورپی یونین کو خوش کرنے کے لئے عدل اسی انداز سے ہی کیا جائے کہ سات ہزار قاتلوں کو کچھ نہ کہا جائے۔
سات ہزار قاتلوں میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے دو دو، پانچ پانچ، دس دس افراد تک بھی قتل کیے ہیں، یوں قتل ہونے والے اگر دس ہزار بھی ہیں اور ہر ایک فرد کے ساتھ دس آدمی بھی متاثر شمار کئے جائیں جو کہ بہت کم تعداد ہے... تو تب بھی ایک لاکھ متاثرین بنتے ہیں۔ یہ متاثر ہونے والے بوڑھے ماں باپ، بیوہ عورتیں، یتیم بچے روتے ہیں۔ کروڑ ہا روپیہ خرچ کر کے کئی کئی سال مقدمے لڑ کر وہ اپنے پیاروں کے قاتلوں کو پھانسی گھاٹ تک لے جانے میں کامیاب ہوئے مگر ناکامی ہے۔ ان میں سے ہر مقتول کی داستان کو لکھا جائے تو دس ہزار کتابیں بن جائیں... دس ہزار کہانیاں ٹی وی چینلز پر چلیں تو طوفان آ جائے لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں... اس سارے ظلم کی اس ظلم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں جو منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں پہنا کر اٹک میں رکھا گیا اور پھر مزید ظلم یہ کیا گیا کہ انہوں نے دس سال سعودی عرب میں سرور محل میں گزارے... لہٰذا بدلہ ہونا چاہیے تو اسی کیس کا ہونا چاہیے۔ دوسرے کسی کیس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لاہور کے اندر مسلم ٹائون کے تھانیدار نے 9 ماہ کے بچے پر اس بات پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کر دیا کہ جب بجلی چوری روکنے پولیس والے گئے تو فلاں فلاں کے ساتھ یہ بچہ بھی شامل تھا... اچھا جی! فرض کر لیا پولیس سے غلطی ہو گئی... بچہ عدالت میں پیش ہونے کے لئے انتظار کرتا رہا، تھانیدار کو غلطی کا احساس نہ ہوا۔ عدالت میں پیش ہوا تو سیشن جج نے جب بچے کو اقدام قتل کے مجرم کے طور پر دیکھا تو صرف برہمی کا اظہار کیا اور اگلی تاریخ ڈال دی... اللہ اللہ! جو جج آنکھوں سے دیکھ کر اگلی تاریخ ڈال رہا ہے... اسی سے عدل کا اندازہ لگا لیا جائے۔ مزید عدل دیکھتے جائو... بچے کے لئے وکیل بھی کیا گیا، ضمانت کے مچلکے پر اس کا انگوٹھا بھی لگا، وہ روتا رہا۔ ساری دنیا میں خبر شائع ہوئی، جی ہاں! اگلی ہی پیشی پر اس کی جان چھوٹی... جج، وکیل، تھانیدار... اللہ کی قسم! یہ ہے ہمارا نظام۔ یہاں باقی اور عام لوگوں کا کون ہو گا پرسان حال؟
جی ہاں! مگر مقدمہ پرویز مشرف ہی کا اہم ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے ہمارے منتخب وزیراعظم کو برطرف کیا تھا... ایک سادہ سا آدمی بولا، کہنے لگا منتخب لوگوں کو تو تب منتخب کہا جائے جب پاکستان کے قانون کے مطابق ہر جماعت میں باقاعدہ الیکشن ہوں۔ اپنی جماعت میں باقاعدہ الیکشن جیت کر پارٹی کا صدر بنے، پھر پارٹی جیتے تو یہ صدر وزیراعظم بنے اور جب وزیراعظم بنے تو پارٹی عہدہ چھوڑ دے اس لئے کہ جمہوری روایت تو یہی ہے... اب میری سمجھ میں بات آئی کہ بابا! ہم تو امارت کے نظام کے قائل ہیں۔ باقی یہ جو جمہوری نظام ہے اگر اس کے تقاضے پورے ہوتے تو منتخب وزیراعظم کی معزولی پر بہت لوگ باہر بھی نکلتے۔ وہ اس لئے نہ نکلے کہ صحیح معنوں میں منتخب ہی کوئی نہیں... لہٰذا ہماری گزارش حکمرانوں سے یہ ہے کہ ملک میں عدل سب کے لئے ہو۔ بے لاگ ہو، اپنی اخلاقی ساکھ بے حد مضبوط ہو تو بے لاگ عدل اور بدلے سے زندگی ملے گی وگرنہ جیسے اقدامات اس وقت نظر آ رہے ہیں ان میں زندگی کی کوئی ضمانت نہیں...
قرآن میں اسی بدلے پر زندگی کی ضمانت ہے جو بے لاگ ہو، سب کے لئے ہو، میں اسی کی درخواست کرتا ہوں کہ زندگی تو بہرحال اسی میں ہے، عقل مندی اسی میں ہے اگر عقل میں آ جائے تو ٹھیک وگرنہ ہم سب کا اللہ حافظ۔