آپ کو ایسے ملک کا وزیراعظم بننے پر تہنیتی پیغامات مل چکے جس کی آبادی ایک ارب 25 کروڑ ہے۔اس آبادی میں 25 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو بے گھر ہیں۔ وہ فٹ پاتھوں پر غسل کرتے ہیں۔ ان میں پانچ سے چھ کروڑ تعداد عورتوں کی ہے جو فٹ پاتھوں پر غسل کرتی ہیں۔ ان خواتین میں بزرگ بھی ہیں، ادھیڑ عمر بھی ہیں جوان عورتیں اور بچیاں بھی ہیں۔ آپ نے اپنی انتخابی مہم میں ایک یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان لوگوں کو غسل خانے بنا کر دیئے جائیں گے، کیونکہ فٹ پاتھ پر نہانے کی وجہ سے ان کی عزتوں پر حملے ہو جاتے ہیں۔ گینگ ریپ ہو جاتا ہے۔
موجودہ موسم میں قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ ہمارے ملتان کی سیدھ میں دہلی واقع ہے۔ یعنی جس قدر گرمی ملتان میں پڑتی ہے، اتنی ہی گرمی دہلی میں پڑتی ہے مگر آپ کی دہلی کا حال یہ ہے کہ وہاں گرمی سے روزانہ چالیس پچاس لوگ مر جاتے ہیں۔ یعنی لاکھوں بے گھر دہلی کے چھپروں کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ چھپر دہلی سرکار نے بنا کر دیئے ہیں۔ ہمیں اس پر بڑا افسوس ہے اور میں آپ سے دکھ کا اظہار کرتا ہوں کہ دہلی جیسے دارالحکومت میں لوگ یوں مر رہے ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب! میں آپ کو بتلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملتان شہر کسی صوبے کا دارالحکومت بھی نہیں مگر وہاں کوئی شخص نہ فٹ پاتھ پر غسل کرتا ہے اور نہ ہی کسی عارضی بنے چھپر تلے رات گزارتا ہے اور نہ ہی دہلی والوں کی طرح مرتا ہے۔اسی طرح پاکستان کے کسی شہر میں ایسی صورتحال نہیں ہے جیسی دہلی اور آپ کے دیگر شہروں میں ہے۔
اس سے میرا مقصد آپ کو نیچا دکھلانا نہیں بلکہ یہ تجویز دینا ہے کہ انسانیت کی بہتری اور خوشحالی کے لئے پاکستان سے بڑھ کر ہندوستان کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ بھارت کے معروف ترین بزرگ صحافی ڈاکٹر ویدپرتاپ نے آپ کے حوالے سے لکھا ہے کہ 2002ء میں گجرات کے وزیراعلیٰ مودی اور 2014ء کے وزیراعظم مودی میں بہت بڑا فرق نمایاں ہو چکا ہے۔ آپ نے پونا کے مسلمان نوجوانوں کے بہیمانہ قتل پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
جناب وزیراعظم! ہم نے آپ کی وہ تصویر بھی دیکھی ہے کہ جوانی میں آپ اپنے آر ایس ایس کے دفتر میں جھاڑو دے رہے ہیں۔ جھاڑو دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان آلودگی کو صاف کرتا ہے، گندگی کو دور کرتا ہے، فرش پر لگنے والے داغ دھبوں کو دھوتا ہے اور فرش کو صاف کر کے چمکا دیتا ہے۔ آپ برصغیر کے سب سے بڑے ملک کے وزیراعظم ہیں، لہٰذا آیئے! آگے بڑھیے اور برصغیر کے فرش کو چمکا دیجئے۔
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے آپ برصغیر کے ملکوں میں بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے برصغیر کی روایت یہ ہے کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں سے شفقت بھی کرتا ہے اور قربانی و ایثار سے بھی کام لیتا ہے۔ اس بھائی کو معاشرے میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا، جو افرادی قوت، زمینی رقبہ اور دولت میں بڑا بھی ہو مگر اس کے باوجود چھوٹے بھائی کے اثاثوں پر نظریں جمائے اور موقع ملنے پر ہڑپ بھی کر جائے، ایسے بڑے بھائی کو ''بھائی جان‘‘ نہیں کہا جاتا ''ظالم جان‘‘ کہا جاتا ہے۔
مجھے یہ کڑوی حقیقت بہرحال آپ کے سامنے رکھنا ہو گی کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا... اس وقت سردست میں بہت ساری ناانصافیوں میں سے صرف ایک ناانصافی کا تذکرہ کروں گا۔ وہ ناانصافی یوں کی گئی کہ جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو اصول یہ تھا کہ برصغیر کی 565 ریاستوں میں سے جس کا دل چاہے وہ دونوں ملکوں میں سے ایک کے ساتھ مل جائے۔ اب حیدر آباد میں اکثریت ہندو آبادی کی تھی جبکہ حکمران مسلمان تھا۔ مسلمان حکمران نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا مگر بڑے بھائی نے یہ کہہ کر وہاں قبضہ کر لیا کہ اکثریتی آبادی ہندو ہے اور یہ کہ جغرافیائی طور پر وہ پاکستان سے نہیں ملتی۔ اسی طرح جونا گڑھ کی اکثریتی آبادی بھی ہندو تھی جبکہ نواب مسلمان تھا۔ نواب نے پاکستان سے الحاق کااعلان کیا، مگر آپ نے اس پر بھی مذکورہ بات کہہ کر قبضہ کر لیا۔
دوسری طرف جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جبکہ راجہ ہندو تھا۔ ہندو راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور آپ نے باوجود اس کے کہ جموں اور کشمیر کا جغرافیہ پاکستان کے ساتھ نوے فیصد کے قریب ملتا تھا، آپ نے اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور آج تک بڑا بھائی قبضہ کئے ہوئے ہے۔ اب یہ بڑا بھائی... ''بھائی جان‘‘ ہے یا ''ظالم جان‘‘ ہے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، ترازو پکڑیے اور ڈنڈی نہ ماریئے۔ یاد رکھیے! تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب کوئی ڈنڈی مارتا ہے تو پھر ڈنڈا چلتا ہے اور یہ ڈنڈا اس وقت تک نہیں رکتا جب تک ترازو کی ڈنڈی بالکل مستقیم اور سیدھی نہیں ہو جاتی۔
جناب وزیراعظم! کشمیر کے مسئلہ کو جناب پنڈت جواہر لعل نہرو اقوا م متحدہ میں لے کر گئے تھے مگر رائے شماری کا وعدہ آج تک پورا نہ ہو سکا۔ ڈنڈی مسلسل ماری جاری ہے۔ بڑے بھائی نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتے ہوئے وہاں وزیراعظم کا عہدہ رکھا مگر ڈنڈی یوں ماری کہ اب وہاں وزیراعظم نہیں بلکہ وزیراعلیٰ ہوتا ہے، جبکہ پاکستان والے کشمیر میں آج بھی وزیراعظم آزاد کشمیر ہوتا ہے۔ دوسری ڈنڈی یہ ماری کہ متنازعہ کشمیر کو آئینی طور پر بھارت کا حصہ قرار دے کر بھارتی آئین کا حصہ بنا دیا... یہ بھی بڑے بھائی نے ڈنڈی مار دی، اب خصوصی حیثیت کی حامل دفعہ 370 کو ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ مجھے بتلایئے اگر یہ ڈنڈی بھی مار دی گئی تو دونوں ملکوں کے درمیان ڈنڈا کیسے رکے گا؟ جی ہاں! ڈنڈا نہیں رکے گا تو خوشحالی کی خواہش خام خیالی رہے گی، ہر سو بدحالی ہی رہے گی۔
جناب وزیراعظم! جیسا کہ ہم جانتے ہیں آپ اپنے ملک میں کاروبار اور خوشحالی چاہتے ہیں تو آیئے! پھر بھارت کے 25 کروڑ بے گھر لوگوں کی خوشحالی کی طرف قدم اٹھائیں۔ جموں اور کشمیر میں رائے شماری کروائیں، اہل کشمیر جو چاہتے ہیں اس پر عمل کریں، ترازو کی ڈنڈی سیدھی کریں۔ بے انصافی کے داغ دھبوں کو صاف کریں، خوبصورت سا جھاڑو پکڑیں، ظلم اور ناانصافی کا دھبہ دور کر دیں۔ بھائی جان بن کر دکھلائیں... اگر یہ نہیں کرتے تو پھر سب باتیں ہیں۔ موشگافیاں ہیں، سیاست کاری ہے، فریب ہے، دھوکہ ہے، چالبازی ہے، اس سے کچھ بھی برآمد نہ ہو گا... ڈنڈا چلتا رہے گا۔اب آپ کی مرضی ہے، بھائی جان بنیں یا ظالم جان بنیں، میرا مشورہ یہ ہے کہ بھائی جان بنیں باقی آپ کی مرضی ہے... اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ حقدار چاہے کتنا ہی کمزور ہو اور حق لینے میں وقت کتنا ہی صرف ہو گیا ہو، آخر کار اس کا حق دار کو حق دینا ہی پڑتا ہے، تاریخ اور سماجیات کا سبق بہرحال یہی ہے، یہی ہے ... اور یہی ہے۔