4جولائی کو رمضان المبارک کا پہلا جمعہ تھا، آزاد کشمیر کے شہر راولا کوٹ میں جمعہ کے لئے پہنچا۔ اسی دن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی مقبوضہ کشمیر پہنچے، جہاں انہوں نے تقریر کی اور کہا کہ میں واجپائی کے خواب کو پورا کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کو بھارت سے منسلک کر دوں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ واجپائی نے دو خواب دیکھے تھے، ایک وہ خواب جو شری واجپائی نے ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف کو، لاہور آ کر مینار پاکستان کے سائے تلے بتایا تھا مگر سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے سخت زیادتی کی، جب انہوں نے میاں نوازشریف کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یوں واجپائی صاحب کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ میاں نوازشریف کو اس ظالمانہ اقدام کا اس قدر قلق ہے کہ وہ آج بھی اس کا اظہار فرماتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مشرف 12اکتوبر کا اقدام نہ کرتے تو واجپائی کا خواب پورا ہونے والا تھا، کشمیر آزاد ہو کر پاکستان بننے والا تھا مگر اس حسین خواب کو چکنا چور کرنے کا سارا گناہ مشرف کا ہے جنہوں نے منتخب وزیراعظم کو معزول کر کے دیا۔
اب شری نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر پہنچ کر بالکل مختلف خواب سنایا ہے وہ کہتے ہیں کہ واجپائی صاحب کا خواب تو یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کو بھارت کے ساتھ نتھی کر دیا جائے ،اس کی متنازع حیثیت ختم کر دی جائے اور وہ باقی ریاستوں کی طرح بھارت کی ایک صوبائی ریاست بن جائے۔ جناب واجپائی کافی بوڑھے ہو چکے ہیں۔ میرا خیال ہی نہیں مشورہ ہے کہ میاں صاحب جلدی کریں اور واجپائی صاحب سے پوچھ لیں کہ جناب والانے جو خواب مجھے بتایا، مودی صاحب کو بتایا جانے والا خواب اس سے بالکل مختلف، متضاد اور متنازع کیوں ہے؟ اس سے واضح ہو جائے گا کہ جناب واجپائی نے چانکیائی سیاست کے اصول اپناتے ہوئے دونوں کو الگ الگ خواب بتائے ہیں یا پھر یہ کہ خواب تو ایک ہی ہے مگر سچا کون سا ہے؟ میاں صاحب والا یا مودی صاحب والا؟
شری مودی نے کشمیر کو بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کی جو بات کی ، اس کے پیچھے بی جے پی کا ایک نظریہ اور مہم ہے جس کا الیکشن کے دوران اظہار ہوتا رہا اور وہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کر دیا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح جموں سے ختم کر دی گئی تھی۔ تقسیم کے دوران اور اس کے بعد جموں سے لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا، تین لاکھ کے قریب پاکستان میں آئے۔ جو مار دیئے گئے وہ الگ ہیں۔ بہت سارے بھارت کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔ مزید برآں، وہاں ہندو لا کر بسائے گئے۔ یوں جموں میں مسلمانوں کی اکثریت ختم ہو گئی اور آج وہاں ہندو آبادی کی اکثریت ہے۔
اسی نسخے کو کانگریس نے بھی وادی میں آزمانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اب ہندوتوا کی علمبردار مودی سرکار اسی نسخے کو آزمانا چاہ رہی ہے۔ کانگریس کی نسبت موجودہ سرکار کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ مزید مضبوط اور گہرے ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری بھی کر رہی ہیں۔ اسرائیلی یہودیوں کا پڑھایا ہوا سبق کانگریس تو ازبر نہ کر سکی لیکن مودی سرکار نے اسے خوب یاد کر کے اب اس عمل کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ سب سے پہلے مقبوضہ وادی کی مخصوص ریاستی حیثیت کو ختم کیا جائے گا پھر وہاں ہندو لا کر بسانے کی کوشش کی جائے گی۔ منصوبہ یہ ہے کہ وہاں ہندوئوں کی اکثریت بنا کر کشمیریوں سے کہا جائے گا کہ لو! اب رائے شماری کروا لو اور حق خود ارادیت لے لو۔ اسرائیل نے فلسطین میں یہی کچھ کیا تھا کہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، جلا وطن ہونے پر مجبور کیا، دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا لا کر ان کی بستیاں بناتے رہے، یوں وہاں یہودی اکثریت میں ہو گئے اور مسلمان اقلیت بن کر رہ گئے۔ اسرائیل یہی سبق بھارت کو پڑھاتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت اپنے استاد اسرائیل کی طرح کامیاب ہو جائے گا؟
جب تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں بھارت کی کامیابی صفر نظر آتی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب اسرائیل کے نام سے ملک بنانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیںتو تب خلافت اسلامیہ ختم ہو چکی تھی۔ اس کے سارے علاقے یورپ کے تسلط میں تھے، تب صرف چار ملک سعودی عرب، ترکی، افغانستان اور ایران آزاد تھے مگر یہ بھی اس قدر کمزور تھے کہ کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہ تھے۔ ایسے حالات میں اسرائیل کا قیام اور وہاں یہودیوں کو بسانے کا جو اقدام تھا اس کے لئے ماحول سازگار بنا لیا گیا تھا۔ ایسے اقدام کے لئے آج کا ماحول اور حالات ناصرف یہ کہ بھارت کے لئے سازگار نہیں بلکہ سخت خلاف ہیں۔ 57کے قریب مسلمان ممالک ہیں اور آج سے ستر سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں...!
اس کے ساتھ ساتھ دوسری ناسازگار حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی مزاحمتی طاقتیں قوت پکڑ چکی ہیں۔ امریکہ اس خطے سے جا رہا ہے، مبصرین تجزیے اور پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ بھارت نے کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیا تو وہاں تاریخ کی بلند ترین سطح کی حامل مزاحمت شروع ہو جائے گی۔
تیسری ناسازگار حقیقت یہ ہے کہ جس طرح وقت کی عالمی قوتیں اسرائیل کو تقویت دینے کے لئے متحد تھیں، اس کا بیس فیصد تعاون بھی بھارت کے لئے کشمیر میں مشکل ہے۔ چوتھی ناسازگار حقیقت یہ ہے کہ روس اور امریکہ اب عالمی قوتوں کا سٹیٹس برقرار نہیں رکھ سکیں۔ یورپی یونین بھی کمزور ہو چکی۔ چین جو ایک ابھرتی ہوئی قوت اور خطے کی غالب طاقت ہے اور کشمیر کے ساتھ جغرافیائی تعلق بھی رکھتی ہے وہ بھارت کے خلاف ہے۔
پانچویں اور آخری حقیقت یہ ہے کہ روس علاقے کی بہرحال ایک بڑی قوت ہے اور عالمی امور میں بھی امریکہ کو من مانی نہیں کرنے دے رہی۔ وہ بھی اب بھارت کے ساتھ فاصلے پر ہے اور پاکستان سے ماضی کی نسبت دور نہیں بلکہ قریب ہو رہی ہے۔ ایسے حالات اور ماحول میں اب یہ ناممکن ہے کہ بھارت آخری حدوں کو پھلانگ کر کشمیریوں کے انسانی حقوق کو سلب کرے، اسرائیل کا نسخہ استعمال کرے اور دنیا دیکھتی رہے۔ یہ بالکل ناممکن ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا کرنا خود بھارت کی سالمیت کے لئے نہ صرف خطرات اور سوالات کو جنم دے گا بلکہ تباہ کن ثابت ہو گا، لہٰذا اسرائیل کا بھارت کے لئے مشورہ ایسے ہی ہو گا جیسے ریتلی زمین پر چنے کے بجائے دھان کی فصل بونے کی کوشش کی جائے۔