حالیہ رمضان کے آغاز میں ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہوئی جو بات بات پر آخرت کی بات کرتے تھے، موت کو یاد کرتے تھے، جنازوں کا تذکرہ کرتے تھے، اپنے احباب کو یاد کرتے تھے جو کل تک ان کے ساتھ تھے اور پھر اچانک دنیا چھوڑ گئے... یہ بزرگ ایسے تذکرے اس لئے کرتے تھے کہ نصف صدی کے قریب ان کی زندگی سعودیہ میں گزر گئی، کبھی مکہ میں اور کبھی مدینہ میں۔ مکہ میں جب حرم مکی سے جنازے اٹھتے ہیں تو وہ ان میں بھی شامل ہوتے ہیں، تدفین میں شرکت کرتے ہیں، انہوں نے اپنے چشم دید جو واقعات سنائے ان میں سے چند یوں ہیں:
میرے ماموں تھے، کوئی ساٹھ ستر سال قبل سعودیہ میں آئے۔ اس وقت آبادی بہت کم تھی‘ اگر کوئی سعودیہ میں رہ جاتا تو کوئی کچھ نہ کہتا تھا۔ مال و دولت کی ریل پیل بھی نہ تھی۔ ماموں جی درزی تھے؛ چنانچہ مکہ کے لوگوں کے کپڑے سینے لگ گئے۔ پانچ وقت کے نمازی، قرآن کی تلاوت کثرت سے کرتے تھے، سادہ مزاج تھے، اللہ سے محبت اور آنکھوں سے آنسو رواں رہتے تھے۔ ہم نے کئی بار ان سے عرض کی، ماموں جی! اے سی لگوا لیں، سستا بھی ہے اور بل بھی نہ ہونے کے برابر۔ وہ جھٹ سے کہتے، ارے بھئی! یہاں گزارہ چل رہا ہے، اللہ کا اے سی قبر میں لگے گا (ان شاء اللہ)... الغرض! ہم نے جب بھی ان سے اے سی کی بات کی، لگوا کر دینے کی بات کی، انہوں نے یہی جملہ بولا کہ قبر میں اے سی لگے گا (ان شاء اللہ)
میں جدہ میں تھا، اطلاع ملی ماموں جی فوت ہو گئے۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور مکہ شریف کی جانب چل دیا۔ راستے میں بارش شروع ہو گئی۔ جب ماموں کے پاس پہنچا‘ میت حرم میں پہنچی۔ انتہائی باریک اور ہلکی پھوار تھی، جنازے کو ہم قبرستان ''معلیٰ یا معلا‘‘ کی جانب لے جا رہے تھے۔ میں قبر میں اترا‘ بھینی بھینی، ہلکی ہلکی اور انتہائی باریک پھوار پڑ رہی تھی، ساتھ نرم ہوا کے جھونکے تھے۔ مکہ کے گرم موسم میں انتہائی شاندار موسم تھا۔ قبر کا منظر یوں تھا کہ عام طور پر گہرائی میں قبر گرم ہوتی ہے، مگر میں نے عجب نظارہ کیا کہ قبر میں اترتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے اے سی چل رہا ہے، قبر کی مٹی ٹھنڈی تھی۔ مجھے ماموں کے الفاظ یاد آ رہے تھے۔ اللہ نے ہم کو نظارہ کروا دیا کہ وہ اپنے بندوں کی بات کو کیسے پورا کرتے ہیں۔ میں آج بھی اس منظر کو یاد کرتا ہوں تو اللہ کی شان پر شاداں و فرحاں ہو جاتا ہوں۔
ایسا ہی ایک منظر مدینے کا ہے۔ پاکستان سے آنے والی ایک خاتون انتقال کر گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس عورت کی اولاد نہیں ہے‘ لہٰذا اس کے قافلے کے رشتہ دار لوگوں نے کہا کہ اسے بقیع میں ہی دفن کرنا ہے۔ میت تیار ہو کر حرم مدنی میں آ گئی، جنازہ ہو گیا، اس جنازے میں چند ماہ کا ایک معصوم مدنی بچہ بھی تھا، سعودیہ میں معصوم بچے کی الگ قبر نہیں بنائی جاتی‘ جب عورت کا جنازہ ہو اور ساتھ ہی معصوم بچے کا بھی جنازہ ہو تو عورت کی قبر میں ہی اس کے پہلو میں بچے کو لٹا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مدنی بچے کو اس خاتون کے پہلو میں لٹانے کا فیصلہ ہوا۔ میں اس بچے کو مذکورہ خاتون کے پہلو میں لٹا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اللہ نے بے اولاد پاکستانی عورت کو مدینے میں موت دے کر اس کے پہلو میں ایک معصوم مدنی بچے کو لٹا دیا۔
قارئین کرام! میں مذکورہ بات سن کر بے اختیار بولا کہ خاتون کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائے۔ سوال و جواب کے بعد جب معصوم مدنی بچے کی روح کے ساتھ اس خاتون کی روح نے مولا کریم کی طرف فرشتوں کے جلو میں پرواز کی ہو گی تو خاتون کس قدر خوش ہوئی ہو گی کہ مولا کریم نے مدینے شریف میں اپنی ملاقات کے لئے بلایا تو پہلو میں پرواز کرنے والا مدنی بچہ بھی عطا فرما دیا۔ واہ! میرے مولا... عجب ہیں تیرے نظارے جو انسان کی سوچوں سے ہیں بڑے نیارے۔
بزرگ محترم نے جو تیسرا جنازہ بتلایا وہ بھی ملاحظہ کر لیجئے۔ فرماتے ہیں: حرم مدنی سے ایک جنازہ نکلا، تدفین کیلئے میں ہمراہ ہو لیا۔ بقیع میں پہنچ گئے، میں نے جنازے کو قبر میں لٹایا، اس کے منہ سے کفن ہٹایا اور منہ قبلہ رو کیا تو اس قدر بدبو آئی کہ میں نے فوراً رومال طلب کر کے ناک اور منہ پرلپیٹا۔ باہر آ گیا، قبر کو ڈھانپا اور مٹی ڈال دی، وہ لوگ جو مجھے جاننے والے ہمراہ تھے، انہوں نے بھی بدبو محسوس کی۔ راستے میں جنازہ لے جاتے ہوئے تو نہ آئی، اللہ نے پردہ ڈالے رکھا لیکن جونہی قبر میں یہ میت گئی تو اللہ نے اس کا تھوڑا سا پردہ فاش کر دیا... اب اللہ ہی جانتے ہیں کہ اس کے جرائم اور پاپ کس قسم کے تھے، میں نے مکے اور مدینے میں سینکڑوں جنازوں میں سے یہ پہلا جنازہ دیکھا کہ جس کا منظر یاد کر کے آج بھی خوف سے کانپ اٹھتا ہوں۔
قارئین کرام! دیکھتے ہی دیکھتے آدھے سے زیادہ رمضان بیت گیا۔ کتنے ہی لوگ جو پچھلے رمضان میں ہمارے ساتھ روزے رکھ رہے تھے، اس بار ہم میں نہیں ہیں۔ وہ اللہ سے ملاقات کرنے چلے گئے۔ جی ہاں! اللہ سے ملاقات نہ ہو گی جب تک موت کا پیالہ نہ پیا جائے گا۔ اب یہ اللہ کو معلوم ہے کہ اگلے رمضان سے پہلے کون کون موت کا جام پئے گا اور آئندہ رمضان سے غیر حاضر ہو جائے گا۔ نیکیوں کو سمیٹنے سے قاصر رہ جائے گا، لہٰذا اللہ کا فرمان یہی ہے کہ خیرات کو سمیٹنے کے لئے دوڑ لگائو، تیز دوڑو۔ دنیا کی دوڑ میں تیز دوڑ لگانے والے! دیکھنا اس دوڑ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کہیں اعلان جنگ تو نہیں کر رہا؟ میرا مطلب ہے کہیں سود کے پیسے سے سحری و افطاری تو نہیں کر رہا۔ بچوں کو سود کا حرام مال تو نہیں کھلا رہا، تاجروں کو اغوا کر کے بھتہ تو نہیں لے رہا، ڈاکے مار کر مال تو نہیں بنا رہا، لوگوں کے پلاٹوں اور زمینوں پر قبضے تو نہیں کر رہا، بہن اور بیٹی کا حق تو نہیں مار رہا، ملاوٹ کر کے انسانوں کی صحت برباد تو نہیں کر رہا، مسلمانوں کے مال میں اپنا کمیشن رکھ کر کرپشن تو نہیں کر رہا، حسد بغض، غیبت ، جاسوسی تو نہیں کر رہا۔
یاد رکھیے: یہ ساری بدبو ہے، سڑاندہے، تعفن ہے۔ اور یہ بھی تو تعفن اور سڑ اندہے کہ رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر قتل ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی جائداد ہڑپ کی جا رہی ہیں... آہ! اے بدبخت! باز آ جا‘ چھ فٹ لمبی اور اڑھائی تین فٹ چوڑی جگہ میں جانے والا ہے اور وہ بھی زمین کی سطح سے چند فٹ نیچے۔ سوچ لے بدبوئیں ساتھ لے کر جا رہا ہے یا خوشبوئیں، خوشبو تو صحیح عقیدے کی بنیاد پر نیک اعمال کی ہے‘ اگر یہ نہیں ہے تو اللہ اللہ! بقیع میں بھی پناہ نہیں ہے۔
اللہ کریم جی معاف فرما دیجئے! رمضان میں سچی توبہ عطا فرما دیجئے، نیک اعمال کی ایسی خوشبو کہ جب جناب باری تعالیٰ سے ملاقات کی آواز پڑے تو ساتویں آسمان تک میری روح کی خوشبو فرشتوں کو بھی معطر کرتی چلی جائے۔ ایسی خوشبو عطا فرما دیجئے، یہ مل گئی تو رمضان مبارک ہو مبارک۔ اور اگر عادتیں نہ بدلیں تو اک ریت ہے ریت۔ اک روایت ہے روایت ۔اک چلن ہے چلن۔ لوگوں کی دیکھا دیکھی... جوخوشبو سے خالی ہے مولا کریم ایسی ریت اور روایت سے بچا لے۔ حضورؐ کی پاک سنت کی خوشبو سے معطر پاکیزہ اعمال نصیب کر دے۔ آمین یارب العالمین ۔