بین الاقوامی صحافی برادری میں محترم نذیر ناجی صاحب کا شمار ممتاز حیثیت سے ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیاہے۔ناجی صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ مظلوموں کے حق میں زبان اور قلم کا استعمال کیاہے۔ حال ہی میں غزہ کے مظلوم بچوں اور عورتوں پر ان کے نوک قلم نے آنسو گرائے ہیںتو ساتھ ساتھ پاکستان کے مظلوموں پر بھی خون کے چھینٹے دکھلائے ہیں۔
رمضان جو رحمت کا مہینہ ہے ،اسے رمضان کریم بھی کہا جاتا ہے ،اس کے آخری پُر رحمت دنوں میں گجرات کے ایک سنگ دل جنونی نے دس سالہ بچے کے دونوںبازو ـٹیوب ویل کے پٹے میں دے کر الگ کر دیے ،اس پرلکھا جا رہا ہے، ماتم بھی کیا جا رہا ہے ،بولا جارہاہے جو بھی ایسا کر رہا ہے ،اپنی اُخروی نجات کا سامان بنا رہا ہے۔مجھے میاں شہباز شریف صاحب بھی اسی لائن میں کھڑے نظر آئے جس ہمدردانہ لائن میں محترم نذیر ناجی صاحب اورمجھ جیسے صحافی اور واعظ لوگ کھڑے ہیں۔ میاں شہباز شریف صاحب حسب معمول گجرات بھی پہنچے ۔وہ ایک گھنٹہ تک مظلوم بچے کے پاس بیٹھے رہے۔ باربار ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، ساتھ فرماتے تھے، کاش میں اس بچے کے بازو واپس لا سکتا۔بہرحال انہوں نے مصنوعی بازو لگوانے کا اعلان کیا ، بیرون ملک علاج کروانے کا اعلان کیا۔تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کا فرمایا اور کہا بچے کے ساتھ ظلم کرنے والا دھرتی کا ناسور ہے، انہوں نے دس لاکھ روپے کا چیک بھی دیا۔
محترم میاں صاحب کاکردار بڑا ہی خوبصورت اور لائقِ تحسین ہے، مگر زیادہ سے زیاد ہ یہ کردار ایک نیک نام فلاحی تنظیم کے سربراہ کا کردار ہے جس تنظیم کے پاس وسائل ہوں اور اس کا سربراہ فراخ دلی کے ساتھ ان وسائل کو مظلوم اور دکھی لوگوں پر صرف کرے، مگر میاں صاحب تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔کیا وزیر اعلیٰ کا صرف یہی کردار ہونا چاہیے جووہ پچھلے بیس پچیس سال سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو۔ عورتوں اور بچوں پر کتے چھوڑ دیے جائیں۔ بچیوں کے چہروں پر تیزاب انڈیل دیا جائے اور میاں صاحب ہیلی کاپٹر میں بیٹھیں اور ان کے گھر پہنچ جائیں۔ اپنی ہمدردی کا حسین اور خوبصورت کردار ادا کرکے واپس آجائیں اور اگلے ہفتے کا انتظار شروع کردیں؟نہیں نہیں میا ںصاحب! بالکل نہیں۔۔۔۔ یہ کردار وزیر اعلیٰ کا نہیں ہے ،یہ کردار وزیراعظم کا نہیں ہے۔صحافیانہ کردار کا تقاضا اور ہے ،حاکمانہ کردار کا تقاضا کچھ اورہے۔اتفاقاً میری ملاقات میاں شہباز شریف صاحب سے ہو گئی۔میں نے حاکمانہ کردار کا تقاضا کردیا ۔محترم مجید نظامی مرحوم کے گھر تعزیت کرنے گیا تو ان کی خدمت میں عرض کی میاں صاحب! آپ کل گجرات تشریف لے گئے تھے ۔آپ کی لگاتار ہمدردیاں اپنی جگہ قابل تحسین لیکن اس طرح جرائم نہ رکیں گے اورمجرم باز نہ آئیں گے۔دھرتی کا یہ ناسور اسی وقت ختم ہو گاجب جرائم کی سزا نافذ ہوتی نظر آئے گی۔میاں صاحب نے میری تجویز کو سنا اور فرمایا :ٹھیک ہے۔
اب اس ''ٹھیک ہے‘‘ کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ میری تجویز میاں صاحب کو پسند آگئی ہے، لہٰذاپولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک اور آزاد کردیا جائے گا، پندرہ دن یا ایک مہینے کی مدت مقرر کر کے فوری تفتیش اور چالان پیش کر دیا جائے گا۔عدالتوں کے بارے میں بھی قانون سازی کردی جائے گی کہ فوجداری کیس چھ مہینے سے زیاد ہ دیرنہیں چلے گا۔جو جج مدت سے تجاوز کرے گااس کا محاسبہ کیا جائے گا ۔ وکیل جو محض فیس لینے کے لیے کیس کو لٹکا ئے گا اس کا لائسنس منسوخ کیا جائے گا اور پھر قانون بنایا جائے گا کہ مجرم کو سزا سر عام دی جائے گی ۔ایسی چند سزائیں وقوع پذیرہوگئیں تو میاںصاحب کو ہیلی کاپٹرپر بیٹھ کر کہیں نہیں جانا پڑے گااس لیے کہ میاں صاحب کا بنایا ہوا سسٹم ہر جگہ اپنا کردارادا کرتا نظر آئے گا۔اگر میاں صاحب کے ''ٹھیک ہے‘‘ کا مطلب سٹیٹس کو ہے تو پھر سارا کچھ یونہی ہوتا رہے گا ۔ظلم چلتا رہے گا ۔ ریپ اور قتل ہوتے رہیں گے ، بازو کٹتے رہیں گے ، جاگیرداروں کے کتے مزارعوں کو بھنبھوڑتے رہے گے اور میاں صاحب اسی طرح ہمدردی فرماتے رہیں گے اوران کی یہ ہمدردیاں ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے دنیا تک پہنچتی بھی رہیں گی۔
اسلامی شریعت کا جو تقاضا ہے اس کی جھلکیاں آج کے پُرامن مہذب ملکوں میں نظر آتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جب جرم ہوتا ہے تو جرم کی تشہیر بالکل نہ ہو۔ تشہیر ہوگی تو معاشرے میں ہراس اور دہشت پھیلے گی ۔ طریقہ یہ ہے کہ عدل کا نظام جلد از جلد کیس کو نمٹا کر اپنا فیصلہ سنائے ، اب فیصلے کی تشہیر ہو اور ساتھ ہی تاریخ ہو کہ فلاں دن فلاں چوک میں مجرم کو سزا دی جائے گی۔ ساتھ ہی ظلم کی تفصیل اور تشہیر بھی جس قدر مناسب ہو کی جائے ۔ مگر ہمارے ہاں معاملات بالکل اُلٹ او ر انسانی نفسیاتی کی نفی پر مشتمل ہیں کہ جرم اور مجرم کی تشہیر اور تفصیل فوری اور خوب ہوتی ہے ۔جبکہ عدل کے نظام کا اعلان اور نفاذ کہیں دور تک نظر نہیں آتا ۔یہی ہے وہ بیماری جس نے بقول میاں شہباز صاحب ہماری دھرتی کو ناسور بنا رکھا ہے ۔ ناسور کا علاج توکاٹ کر پھینکنا ہے۔اس طرح چھوٹی موٹی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں اور اعضاء پھر ٹھیک طرح سے کام شروع کر دیتے ہیں۔اپنے جسم کے ساتھ تعاون کرتے اس کا حصہ بنے رہتے ہیں لیکن ناسور ایسا مرض ہے کہ یہ جسم کا حصہ بننے سے انکار کرتا ہے لہٰذا ڈاکٹر کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ اسے کاٹ کر پھینک دے تاکہ باقی جسم محفوظ ہو جائے ۔اگر مجرموں کو سرعام سزا ملنے لگے تو کوئی بھی جرم کرنے سے پہلے دس بار سوچے گا۔ وہ جب بھی جرم کرنے لگے گا تو اس کے سامنے ایسی مثالیں آ جائیں گی جن میں کوئی بھی مجرم بچ نہیں پایا ہو گا۔ اس وقت جرائم ہو ہی اسی لئے رہے ہیں کہ مجرم کو جرم کرتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ اول تو اسے کوئی پکڑے گا نہیں اور اگر پکڑے گا تو پولیس پکڑے گی جو پیسے لے کر یا پھر سفارش پر چھوڑ دے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کیس عدالت میں چلا جائے گا۔ وہاں وہ مہنگا وکیل کر کے اور قانون کی کمزوریاں تلاش کر کے رہا ہو جائے گا اور اگر ایسا بھی نہ ہوا تو جیل کے اندر بیٹھ کر جرائم کرتا رہے گا ۔
اغواء برائے تاوان کی واردات ایساناسور ہے کہ جس کی سزا ہمارے قانون میں موت ہے ۔ گجرات کے واقعہ سے ایک دن پہلے لاہور میں ایک معصوم مسیحی بچے کی لاش پڑوسیوں کے گھر سے ملی جسے اغواء کر کے تاوان بھی لیا گیا اور پھر قتل کیا گیا ۔بائبل میں لکھا ہوا اللہ کا حکم آج بھی ہے کہ ''قتل کا بدلہ قتل ہے ، آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے ، ناک کا بدلہ ناک ہے ، دانت کا بدلہ دانت ہے اور اسی طرح ہر زخم کا بدلہ ہے ‘‘ قرآن کریم میں اللہ نے اسی حکم کا اعادہ کیا اور فرمایا ''کہ ہم نے بنی اسرائیل پر مذکورہ حکم نافذ کیا تھا‘‘ یہی حکم آخری اُمت کے لیے ہے ، اسی میں زندگی ہے اسی میں امن ہے،اسی میں خوشحالی ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صاحب نے بھی اس موقع پر کیا خوب بات کہی ہے اگر ہماری حکومت ہوتی تو بچے کے بازو کاٹنے والے کے دونوں بازو کاٹ دیتے ۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی حکومت کے دوران ان کا طرز عمل کیسا ہوتالیکن بات ان کی درست ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں اگر میاں صاحب مذکورہ دونوں واقعات کو ٹیسٹ کیس بنا کر دونوں کے مجرموں کو سرعام سزا دے دیں ، ایک مجرم کے دونوں بازو الگ کر دیں اور دوسرے بچے کے مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیں تو پاکستان کے بے شمار بچے ظلم سے بچ جائیں گے ۔پھرمیرے ہمدرد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو جگہ جگہ آنسو نہیں بہانے پڑیں گے۔ محترم میاں صاحب ! محترم نذیر ناجی صاحب اور مجھ مسکین کی نجات کا دارومدار آنسو بہانے تک ہے کہ ہم لکھیں ، بولیں اور توجہ دلائیں، جبکہ آپ کی نجات عدل اور اس کے نفاذ سے مشروط ہے ۔