ہمارے آئین کی سیاسی شرح کرتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں نے انکشاف فرمایا کہ ''سہولت کار‘‘ کا لفظ آئینی ہے۔ جبکہ ''ثالث‘‘ کا لفظ غیر آئینی ہے۔ مزید واضح کرتے ہوئے آگاہ فرمایا: اس وضاحت کا تعلق فوج کے ساتھ ہے ۔ اس نئی آئینی شرح کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ میاں نواز شریف صاحب نے موجودہ سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے جنرل راحیل شریف سے کردار ادا کرنے کو کہا۔ اس کردار میں انہیں ضامن اور ثالث ماننے کی بات سامنے آئی تو سیاستدانوں نے اعتراض شروع کرد یاکہ جمہوری وزیر اعظم نے یہ کام غیر آئینی کیا ہے۔ فو ج کو ثالث بنانا جمہوریت کی توہین ہے ۔ چنانچہ وزیر اعظم صاحب نے فوراً'' تو ہین‘‘ کو عزت بخشنے کا پروگرام بنایا اور پارلیمنٹ نے اعلان کیا کہ انہوں نے آرمی چیف صاحب سے سہولت کاری کے لیے کہا ہے نہ کہ ثالثی کے لیے ۔ یوں اک نئی شرح سامنے آئی کہ فوج کے آرمی چیف کو اپنے جھگڑے میں'' سہولت کاری‘‘ کا کہنا آئینی ہے جبکہ ''ثالثی‘‘ کا کہنا غیر آئینی ہے ۔
عرب لوگ حرف 'س‘ اورحرف 'ث‘ بولیں تو لہجے میں دونوں حروف کی الگ الگ آواز محسوس ہوتی ہے ۔ جبکہ ہم عجمی لوگوں کی آواز ان حروف کے لیے ایک سی ہوتی ہے ۔ یوں ہمارے ہاں 'س‘ اور 'ث‘ بولنے کی آوازوں یا لہجوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ دوسرے لفظوں میں لڑنے والوں کو امن کی سہولت فراہم کرنا یا ثالث کا کردار ادا کرنا ہم جیسے لوگوں کے ہاں ایک ہی بات ہے کیونکہ مقصد یہی ہے کہ دونوں فریق لڑائی چھوڑ کر صلح کے راستے پر آجائیں ۔
ہاں اگر سہولت کار کا ترجمہ پنجابی میں '' چھڑاوا ‘‘ کریں تو یہ بات مشہور ہے کہ 'چھڑاوا‘ لڑنے والے دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے دور ہٹانے کی کوشش کرنے میں دونوں طرف سے مار کھاتا ہے‘ لہٰذا ''چھڑاوے‘‘ کو مار کھانا پڑتی ہے۔ یوں ہمارے سیاستدانوں نے فوج کو چھڑاوا بنا کر الفاظ کے تیر مارنے شروع کیے تو فوج فوراً پیچھے ہٹ گئی اور مارکھانے سے انکار کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ طاقتور چھڑاوا مار نہیں کھایا کرتا بلکہ وہ دور سے ڈانٹ کر یا ڈنڈا دکھلا کر لڑنے والوں کو دور ہٹا تا ہے ۔ لہٰذا اب کی بار طاقتور چھڑاوا ہی جھگڑا ختم کرائے گا وگرنہ خاموش رہ کر بہتری کا کردار ادا کرے گا ۔
سوات میں امن قائم کرنا سول حکومت کا کام تھا۔ پولیس اور سول ایجنسیاں ناکام ہوئیں تو فوج نے اپنے جوانوں کی قربانیاں دے کر امن بحال کیا۔ یہ کردار آئینی تھا۔ وزیر ستان میں قربانیاں دے کر امن بحال کیا۔ یہ بھی آئینی ہے ۔ چار سال کے بعد اغوا ہونے والے وائس چانسلر گھر تشریف لائے ہیں تو اس سب کے پیچھے پاک فوج کے شہیدوں کاخون ہے جو آئینی ہے۔ آج پاکستان کی مساجد‘ بازار اور دیگر مقامات بم دھماکوں سے محفوظ ہیں تو پاک فوج کے شہیدوں کے خون کی وجہ سے یہ کردار بھی آئینی ہے ۔پشاور کے کور کمانڈر کا بیٹا فوجی افسرہے تو وہ بھی فو ج کی چین(Chain)آف کمانڈ کے تحت اگلے محاذ پر ہے۔ یہ بھی آئینی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ غازیوں کے وارثوں‘ شہیدوں کے والدین، بیوائوں اور یتیم بچوں نے اگر اپنے آرمی چیف سے یہ کہہ دیا کہ: امن ملے تو ہمارے ہاتھوں سے، زلزلوں،سیلابوں اور دیگر آفات سماویہ میں امان ملے تو ہمارے کردار سے اور تب یہ سب کچھ آئینی ہے مگر یہ کیا ہوا کہ اقتدار کے مزے لینے والوں کی لڑائی میں ہماری صلح کاری کاکردار متنازعہ بن جائے؟ وہ آئینی اور غیر آئینی کی بحث میں الجھ جائے اور ایسا الجھے کہ توہین کا رنگ اختیار کرجائے! کیا ہماری قربانیوں کا سیاستدانوں کے ہاں یہی صلہ ہے ...؟
میر ا خیال یہ ہے کہ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر (جنگ ستمبر 1965ء) کے بھانجے کے پاس سوائے صبر کے اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف کے پاس سوائے ضبط کے بندھن کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنے کے کوئی جواب نہیں ہوگا ۔
قارئین کرام ! آئیے اب میں آپ کو چودہ سوسال پیچھے لیے چلتا ہوں۔ حضرت محمد کریم ﷺ کی عمر بیس سال تھی۔ مکہ میں انسانی حقوق کی پامالی عام سی بات تھی۔ ایک غریب تاجرکا مالی حق مکہ کے اک بڑے سردار عاص بن وائل نے پامال کردیا ۔ غریب تاجر پہاڑ پر چڑھ کر شور مچانے لگا، احتجاج کرنے لگا۔ اب مکہ کے سرداروں نے اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے اس کا حق بھی دلایا اور ایک معاہدہ بھی کیا کہ وہ مظلوم کو اس کا حق دلائیں گے اور اس معاہدے پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک سمندر میں پانی کا آخری قطرہ موجودہے اور حرا پہاڑ اپنی جگہ پر قائم ہے ۔
حضرت محمد کریم ﷺ بھی اس معاہدے میں شامل تھے۔ آپؐ کو اس معاہدے پر اس قدر فخر تھا کہ نبوت اور رسالت ملنے کے بعد اورشاہ مدینہ بن کر بھی فرمایا کرتے تھے، مجھے پسند نہیں کہ اس معاہدے میں شرکت سے روکنے کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے ۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حضورﷺ مز ید فرماتے ہیں اگر اسلام میں بھی مجھے اس قسم کے معاہدے کی دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں گا یعنی اس میں اپنا کردار ادا کروں گا۔ اس طرح جب حدیبیہ کا معاہدہ ہواتو مکہ کے ایلچی نے اس معاہدے کی تحریر پر اعتراض کر دیا کہ '' محمدؐ رسول اللہ‘‘ کی بجائے '' محمدؐ بن عبداللہ ‘‘ لکھا جائے‘ کیونکہ ہم نے آپؐ کو رسول مان لیا ہوتا تو جھگڑا ہی نہ ہوتا‘ چنانچہ آپ ﷺ نے صلح کی خاطر ان کی بات مان لی۔ صحابہ ؓنے مکہ کے ایلچی کی بات کو اپنے ایمان کے منافی جان کر احتجاج کیا مگر حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے جملہ بدل کر صلح کو بچالیا ۔
حضورؐ رحمت دو عالم کا مبارک رویہ امن اور صلح کے لیے کس قدر نور اور روشنی کا مینار ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا جملہ جو اللہ کی طرف سے وحی بن کر آیا تھا اس کے بارے میں حضورﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تو اللہ کا عطا کردہ جملہ ہے‘ یہ نہیں ہٹ سکتا... مگر قربان جائوں اپنے حضور ﷺ پیکر امن ورحمت کے کردار پر، کہ آپ ﷺ نے مشرکین مکہ کی ضد کو پورا کر دیا اور امن وصلح کی خلعت فاخرہ کو تارتار ہونے سے بچا لیا۔
عرب معاشرے میں سرخ اونٹ انتہائی قیمتی ہوا کرتے تھے ۔ اور آج بھی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ یہ سرخ اونٹ اپنے دور کی لیموزین گاڑیاں تھیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں،امن اور صلح کے کردار سے روکنے کے لیے مجھے ایسی پیشکش بھی ہو تو میں اسے قبول نہ کروں۔ جی ہاں۔ ایسی عمر میں جب آپ ﷺ محض بیس سال کے تھے، جوانی زوروں پر تھی۔ تب ایسی چیزوں کو جوانی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا کرتی ہے مگر میرے حضور ﷺ اس عمر میں بھی ایسی پیشکش کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں فرماتے۔ مزید فرمایا: مجھے آج بھی ( جب آپ حکمران مدینہ تھے) ایسے معاہدے کے لیے بلایا جائے تو حاضر ہو جائوں ... یعنی غیر وں میں صلح کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے چل پڑوں۔
محترم جنرل راحیل صاحب، اے شہداء کے وارثوا! میر ے حضور ﷺ کی آسمان سے آنے والی آئینی ڈکشنری کے مطابق تمہارا صلح اور امن کا کردار بڑا عظیم ہے‘ آئینی ہے اور قانونی ہے۔ دل نہ چھوڑنا اللہ کی قسم ایسا آئینی کہ لاثانی اور لاجواب ہے۔