ماہِ حج کے ابتدائی دس دنوں کا آغاز ہونے والا ہے۔ یہ دن اس قدر فضیلت والے ہیں کہ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق باقی دنوں کے اندر نیکی کا کیا ہوا کوئی عمل ان دنوں میں کئے ہوئے عمل کی برابری نہیں کر سکتا۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان دنوں میں ایک خواہش کر بیٹھا ہوں۔ حکمرانوں سے خواہش۔ ننھی سی خواہش۔ مگر اس خواہش سے پہلے مدینہ منورہ کے لاثانی حکمران ؐکا تذکرہ لازم ہے۔ حکمرانی کاانداز بتلانا انتہائی ضروری ہے۔
لیجئے! میرے حضور ؐسرکار مدینہ کو یہاں تشریف لائے 9سال ہو چکے ہیں۔ دسواں سال بھی اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یمن بھی آپ کے زیرنگیں اور مسقط کا علاقہ بھی میرے حضورﷺ کے تحت ہے۔ گلف کی موجودہ تمام ریاستوں پر آپ کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اردن اور عراق سے جو ملحق حکمرانیاں ہیں وہ بھی آپﷺ کے تسلط میں آ چکی ہیں، یوں موجودہ سعودی عرب سمیت پورے جزیرۃ العرب پر میرے حضورﷺ کی حکمرانی مستحکم ہو چکی ہے۔ مدینے کے ابتدائی حالات جو معاشی طور پر سخت تھے اب بدل چکے ۔خوشحالیوں کا آغاز ہو چکا۔ ایسے حالات میں شاہ عرب حضرت محمد کریمﷺ نے حج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ آپﷺ کے ہمراہ فریضہ حج ادا کرنے کے لئے حاضر ہوئے۔ اتنے بڑے علاقے اور خطے کا حکمران حج کے سفر کے لئے نکلے تو اس دور کے تقاضوں کے مطابق شاہی طمطراق دیکھنے والا ہونا چاہئے۔ گھوڑوں کے دستے، باوردی محافظوں کی فوج ظفر موج، سرخ اونٹوں پر خوشبودار لکڑیوں کے کجاوے، ریشمی نشست گاہیں، پالکیاں اور جھل مل کرتی سنہری جھالریں، دھوپ سے بچائو کیلئے سائبان کا اہتمام، غسل کے لئے پانی کی مشکوں کا الگ انتظام، عالیشان غذائوں اور کھانوں کی تیاری کے لئے باورچیوں کی ٹیم کا خصوصی انتخاب... اس لئے کہ مکہ تک آٹھ دنوں کا سفر ہے مگر ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگوں نے عجب منظر دیکھا۔ شاہی کلچر کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آیا ؛بلکہ جو دیکھا اس کا نقشہ حضرت انس بن مالکؓ یوں کھینچتے ہیں کہ!
اللہ کے رسولﷺ نے احرام کی دو چادریں لیں تو وہ ایسی معمولی تھیں کہ ان کی قیمت چاندی کے چار درہموں کے برابر بھی نہ تھی۔ جس اونٹنی کی نشست گاہ پر تشریف فرما ہوئے وہ اک پرانی نشست گاہ تھی۔ حضورﷺ نے اس کے اوپر سائبان بھی نہیں لگوایا، آٹھ دن کے سفر کے دوران ایک بار بھی غسل نہیں کیا۔ سرمبارک کے بالوں کو گوند لگا کر جما دیا تاکہ بال بکھرنے نہ پائیں اور تیل کنگھی کی ضرورت نہ پڑے۔ راستے میں جو کھانا عام لوگ کھاتے تھے وہی میرے حضورﷺ کھا لیتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے جب آپﷺ صفا مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے، نہ کسی کو دھکا دیا جا رہا تھا اور نہ کسی کے ساتھ زور زبردستی کی جا رہی تھی۔ یعنی جو لوگ حضورﷺ کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے انہیں کچھ نہ کہا جاتا تھا... حضرت قدامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نہ ڈانٹ تھی نہ ڈپٹ اور نہ ہٹو بچو کی صدائیں ۔
اللہ کے رسولﷺ جب زم زم پینے کے لئے تشریف لائے تو وہاں ایک حوض بنایا گیا تھا جس میں زم زم کے پانی میں کھجور اور کشمش ڈالی گئی تھی تاکہ حاجی حضرات یہ شربت پئیں اور جسم کو توانائی ملے۔ حضورﷺ اس حوض پر تشریف لائے تو پانی پلانے کے ذمہ دار حضرت عباسؓ نے اپنے بیٹے فضلؓ کو آواز دی کہ چاٹی سے صاف ستھرا پانی لائو وہ چاٹی جو تمہاری ماں کے پاس ہے اور ساتھ ہی اللہ کے رسولﷺ سے عرض کی کہ آپؐ اس حوض سے نہ پئیں کیونکہ لوگ اس میں ہاتھ مارتے ہیں اور شربت پیتے ہیں۔ حضورﷺ نے حضرت عباسؓ کی پیشکش کو قبول نہ فرمایا اور اسی حوض سے پانی پی لیا... میں کہتا ہوں سہولت کی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو وی آئی پی کلچر یا شاہانہ کلچر نہیں کہا جا سکتا مگر میرے حضورﷺ نے ان معمولی سہولتوں کو بھی قبول نہ فرما کر، امت کے حکمرانوں کے لئے ایک نمونہ چھوڑا۔
قارئین کرام! یہ تھا اللہ کے رسولﷺ کا کلچر... اسے آپ اسلامی کلچر بھی کہہ سکتے ہیں، محمدی کلچر بھی کہہ سکتے ہیں، آج کے دور میں کیا میں اپنے حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے والے حکمرانوں سے اپنی خواہش وابستہ کر سکتا ہوں کہ وہ بھی وہی نمونہ پیش کریں جو نمونہ مدینہ منورہ کی لاجواب سرکار، سردارِ دو جہاں ؐنے پیش فرمایا؟ نہیں نہیں! یہ تو بہت بڑی خواہش ہے۔ ہمالیہ سے بھی بھاری اور بلند و بالا ۔ میرے نرم و نازک حکمران اتنی بڑی خواہش کو نہیں اٹھا سکتے، لہٰذا میں ان سے ایسی خواہش وابستہ نہیں کرتا۔ میں تو اپنے ننھے مُنے ریشم کی طرح ملائم اور نازک اندام حکمرانوں سے بس اتنی سی ننھی مُنی سی خواہش کرتا ہوں کہ!
آپ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے سپیشل ہوائی جہازوں میں سفر کریں ہمیں گوارا ہے، آپ بیرون ملک مہنگے ہوٹلوں میں رہیں، بیوی بچے بھی ساتھ لے جائیں ہمیں گوارا ہے، آپ کو کروڑوں کے جو تحائف ملیں وہ بھی رکھ لیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ ہمارے خرچے پر آپ دودھ میں آٹا گوندھ کر بیس بیس روٹیاں کھائیں، ساتھ ہرن کا گوشت اور پرندے کھائیں، ہم کچھ نہیں کہیں گے، آپ ہر روز دو مرتبہ سوٹ بدلیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، آپ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں سونے چاندی کے پلنگ بنوا لیں اور اس پر سویا کریں ہمیں کوئی پرابلم نہیں۔ ہیرے اور یاقوت کی بنی ہوئی پلیٹوں میں آپ کھایا کریں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں... لیکن اک چھوٹی سی خواہش ہماری بھی پوری کر دیں۔
پارلیمنٹ کے چند روزہ مشترکہ اجلاس پر 26کروڑ کا خرچہ ہوا، میں سمجھتا ہوں ہمارے ہمدرد حکمران جو ہماری ہمدردی میں یہاں اکٹھے ہوئے، ان کی خدمت کے لئے 26کروڑ معمولی سی رقم ہے اگر ایک ارب بھی خرچ ہو جاتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا... خیر! اب بھی وقت ہے، مشترکہ اجلاس بلانا کوئی مسئلہ نہیں ایک اجلاس اور بلا لیجئے خرچہ بیشک دو ارب کر لیجئے مگر میری اک ننھی سی خواہش بھی پوری فرما دیجئے:
بس ایک بل پاس کر دیجئے کہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ایک رکن سے لے کر وزیراعظم اور صدر تک پاکستان کے علاوہ کہیں بھی اپنا اثاثہ نہیں رکھ سکتا۔ میری اس ننھی سی خواہش کا فائدہ یہ ہو گا کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں سے دو سو ارب ڈالر واپس آ جائے گا۔ وہ بے شک پاکستان کے18کروڑ عوام کا ہے مگر ہمیں نہ دینا۔ آپ ہی رکھ لینا، بس پاکستان میں انویسٹ کر دینا۔ بیرون ممالک جتنی ملیں ہیں، پراپرٹی کا کاروبار ہے، محلات اور فلیٹس ہیں وہ اربوں ڈالرز کے پاکستان میں آ جائیں گے۔ یہاں انویسٹ ہو جائیں گے تو غریبوں کو روزگار ملے گا... آپ انہی پیسوں سے ڈیم بنا دیں، اپنا مناسب حصہ رکھ لیں، ہمیں بجلی مل جائے گی، سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے۔ حج کے موسم میں اے حکمرانو! حج بے شک نہ کرو ہم پر یہ نیکی کر دو... ہماری بھی چھوٹی اور ننھی سی خواہش پوری کر دو آپ کا کچھ نہ بگڑے گا مگر میرا پاکستان سنور جائے گا۔ شکریہ! بہت ہی زیادہ شکریہ!!