"AHC" (space) message & send to 7575

حکمرانوں کی بیرون ملک جائدادیں

میں جب امریکہ‘ یورپ اور خاص طور پر بھارت جیسے دشمن ملک میں حکمرانوں کی جائدادوں کا سنتا ہوں کہ وہاں ان کے کاروبار ہیں، فیکٹریاں ہیں، گھربار ہیں، خاندان کے افراد موجود ہیں، وہاں کے بینکوں میں کروڑوں نہیں اربوں ڈالر ہیں تو اللہ کی قسم! میں کانپ کانپ جاتا ہوں۔ جی ہاں! یہ تو ہمارے حکمران ہیں کہ جن کی ساکھ اہل وطن کے نزدیک سوالیہ نشان ہے جبکہ میں جو مثال دینے لگا ہوں وہ حضرت محمد کریمﷺ کے مبارک زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مثال ایک صحابی کی ہے۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ مثال کے انطباق میں ضروری نہیں کہ سو فیصدمماثلت ہو۔ اس کا ایک پہلو بھی مطابق ہو سکتا ہے؛ چنانچہ میں جن جلیل القدر صحابیؓ کی مثال دینے لگا ہوں ان سے متعلق واقعہ کا ایک چھوٹا سا پہلو واضح کرنا چاہتا ہوں اور پھر اپنے حکمرانوں کا جائزہ لینا چاہوں گا۔صحیح بخاری اور سیرت کی کتابوں میں موجود یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:
مکہ کو فتح کرنے کا پروگرام بن گیا تھا، اللہ کے رسولﷺ مدینہ منورہ سے نکلنے کو تیار تھے کہ غزوئہ بدر میں شامل ہونے والے ایک صحابیؓ سے غلطی ہو گئی۔ انہوں نے مکہ کے مشرکین کے نام خط لکھ کرایک عورت کے حوالے کیا۔ خط میں مشرکین مکہ کو بتایاگیا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ مکہ فتح کرنے آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے فعل سے باخبر فرما دیا؛ چنانچہ آپﷺ نے تین افراد حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو اس عورت کے پیچھے دوڑایا اور فرمایا مکے کے راستے پر بڑھتے چلے جائو جب تم لوگ ایک مقام ''روضہ خاخ‘‘ پر پہنچو گے تو تمہیں ایک عورت ملے گی، وہ اونٹ پر سوار ہو گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے چھین کر لے آئو۔ٹھیک اسی مقام پر وہ عورت مل گئی، صحابہؓ نے اس سے کہا ، تمہارے پاس جو خط ہے وہ ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے خط کی موجودگی کا انکار کیا تو اسے خبردار کیا گیا کہ تجھے خط دینا ہو گا وگرنہ ہم تیری تلاشی لیں گے ؛چنانچہ وہ ڈر گئی اور اس نے اپنے بالوں کا گچھا کھولا اور اس میں سے خط نکال کر حضور نبی کریمﷺ کے صحابہؓ کے حوالے کر دیا۔وہ یہ خط لے کر واپس حضورﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اب اللہ کے رسولﷺ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو وہاں موجود تھے، کہنے لگے، اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، اس نے آپ کا جنگی راز دشمنوں کو بتانے کی کوشش کی ہے ۔اس پر حضرت حاطبؓ عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسول! میرے معاملے میں جلدی میں کوئی فیصلہ نہ فرمایئے، میں حقیقت عرض کئے دیتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں قریشی نہیں ہوں بلکہ قریش کا حلیف ہوں، جبکہ مہاجر صحابہؓ کی قریش سے رشتہ داریاں ہیں، ان تعلقات کی وجہ سے ان کے اہل خانہ، جو وہاں ہیں اور جومال اموال ہے ،اس کی حفاظت ہو جائے گی۔ اب میں نے سوچا کہ میری تو کوئی رشتہ داری نہیں، لہٰذا کیوں ناں قریش کو خبردے کر احسان کر دیا جائے کہ جس سے میرے گھر والوں اور مال جائداد کی حفاظت ہو جائے گی۔ اے اللہ کے رسول! میں نے مذکورہ فعل اس لئے نہیں کیا کہ میں اسلام سے ہٹ گیا ہوں، میں پکا مسلمان ہوں۔ اب اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: حاطب! تم نے صحیح بات کہہ ڈالی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا، یہ بدر کی جنگ میں شامل ہوا ہے ۔جبکہ اہل بدر کی شان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا اور فرما دیا، جو چاہو کرو، میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔
قارئین کرام! حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ مخلص اور بدری صحابی تھے، ان سے غلطی ہو گئی، اللہ نے معافی فرما دی، اللہ کے رسولﷺ نے بھی معاف فرما دیا، مگر اس پورے واقعہ میں اتنا سا پہلو ہمارے لئے بطور سبق موجود ہے کہ جن کے مفادات ، جائدادیں اور اہل و عیال غیروں کے پاس ہوں وہ پھسل سکتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تو دین کی خاطر سب کچھ وہاں چھوڑ کر آئے تھے اور چونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے لہٰذا بشری کمزوری کی وجہ سے ان سے غلطی سرزد ہو گئی لیکن ہمارے حکمران تو پاکستان سے حاصل کیا ہوا مال امریکہ، یورپ اور بھارت میں اس ارادے سے رکھ رہے
ہیں کہ پاکستان کی نسبت وہاں زیادہ محفوظ ہے۔ جی ہاں! حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے مجبوری اور بھول میں ایک غلطی ہو گئی مگر ہمارے حکمران تو قصداً ایسا کر رہے ہیں۔ مزید برآں! وہ تو مخلص اور قربانیاں پیش کرنے والے تھے۔ یہ آج کے لوگ تو بکنے اور بلیک میل ہونے والے لوگ ہیں، جب بھی ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا، تو ملک و قوم کے مفادات کو قربان کر دیں گے... مزید ستم کی بات یہ ہے کہ بطور حکمران،ریاست کے سارے رازوں کے مالک و مختار بھی یہی لوگ ہیں؛چنانچہ حضورﷺ کے مبارک دور کا جو واقعہ ہے، میں سمجھتاہوں وہ ہمارے لئے قیامت تک کے لئے سبق ہے ۔ حضورﷺ کی مبارک زندگی میں پیش آنے والا ہر واقعہ ہمارے لئے نمونہ ہے۔ نمونہ اور سبق یہ ہے کہ ہمارے جن حکمرانوں کے مال و اموال اور جائدادیں غیروں کے ہاں پڑی ہیں، ان کے بارے میں فوراً قانون بنا دیا جائے کہ وہ اپنے تمام اثاثے پاکستان لے آئیں۔ اگر نہیں لاتے تو حکمرانی کے لئے نااہل قرار دیے جائیں۔ بہتر یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ جائیں اگر انہیں اپنا مال اموال اور گھربار باہر رکھنا زیادہ محبوب ہے اور وہ اپنی روش پر اصرار کریں تو ملک و قوم کے مفاد کاتقاضا یہ ہے کہ قانون بنا کر مذکورہ روش کا خاتمہ کردیاجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں