روس جو کبھی ''سوویت یونین‘‘ ہوا کرتا تھا، سادہ لفظوں میں بیسیوں ملکوں پر مشتمل دنیا کی ایک سپر پاور تھا۔ سوویت یونین رقبے کے لحاظ سے بھی دنیا کی سب سے بڑی جغرافیائی ریاست ہوا کرتا تھا۔ اس کے صدر مسٹر برزنیف نے افغانستان میں اپنی افواج داخل کر دیں۔ مزاحمت شروع ہو گئی۔ آخرکار بوڑھا صدر چل بسا۔ جنرل ضیاء الحق اس کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے ماسکو گئے۔ اگلا صدر آندروپوف تھا۔ وہ بھی بہت بوڑھا تھا۔ تھوڑے عرصہ بعد وہ بھی فوت ہو گیا۔ ضیاء صاحب اس کی آخری رسومات میں بھی غم کی تصویر بنے ''کریملن‘‘ جا پہنچے۔ چرننکو کو صدر بنایا گیا۔ وہ پولٹ بیورو کا ایسا رکن تھا‘ جو اپنے دونوں پیشروئوں سے بھی زیادہ بوڑھا تھا۔ ایک ڈیڑھ سال بعد وہ بھی فوت ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق چہرے کو ماتم زدہ کرتے ہوئے ''ریڈ سکوائر‘‘ جا پہنچے۔ روسیوں کو بڑا غصہ آیا کہ یہ ہم سے کیا مذاق ہو رہا ہے؛ چنانچہ اب کے انہوں نے ایک ادھیڑ عمر، مضبوط اور توانا آدمی کو صدر بنایا۔ اس کا نام گوربا چوف تھا... چند ہفتے پہلے گوربا چوف وفات پا گئے۔ ان کے دور میں ''سوویت یونین‘‘ ٹوٹ گیا اور روس باقی رہ گیا۔ مثال یہ بن گئی ہے کہ جو ملک میں روسی کردار ادا کرتے ہوئے لڑائیاں کرے اور مظلوموں کو دبا کر رکھنے کی قیمت ادا کرے‘ اس کو گورباچوف کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اپنا ملک تڑوائے گا۔
امریکہ نے افغانستان میں جنگ لڑی، عراق میں لڑی، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکہ کی ایک بڑی اور امیر ریاست کیلیفورنیا میں
آج کل امریکہ سے الگ ہونے کی مہم چل رہی ہے۔ اس ریاست کے 53 فیصد لوگ وفاق سے الگ ہو کر اپنا الگ ملک بنانے پر تیار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ریفرنڈم کا مطالبہ کر دیا ہے۔ امریکہ اپنے آئین کے مطابق ریفرنڈم کا پابند ہے لہٰذا اگر کیلیفورنیا الگ ہو گیا‘ تو سپرپاور ٹوٹ جائے گی۔ امریکی لوگ کہتے ہیں ہم بے مقصد امریکی جنگوں کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ معاشی میدان میں امریکہ کی ایک اور اہم ریاست جس کا نام ''نیویارک‘‘ ہے، وہ بھی علیحدگی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ سابق صدر بش جونیئر کی ریاست ٹیکساس‘ جو تیل کی دولت سے مالامال ہے‘ بھی علیحدگی کی سڑک پر آ گئی ہے۔ فلوریڈا بھی اسی راستے کی راہی بن چکی ہے؛ چنانچہ امریکہ اب اگر افغانستان میں مزید مہم جوئی کرتا ہے، عراق میں فوجیں اتارتا ہے تو پھر اسے ٹوٹنے سے بچانا ناممکن ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں فوجیں نہیں اتار رہا اور افغانستان میں رک نہیں رہا۔
حالیہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب بھارت کے نریندر مودی نے صدر اوباما سے ملاقات کی تو مہمانوں کی موجودگی میں انڈین وزیر اعظم نے اوباما سے برملا کہا کہ آپ افغانستان سے نہ جائیں... امریکہ اپنی جگہ پر افغانستان میں بھارت کو کردار دے کر جا رہا ہے، یعنی بھارت ایک طرف خوش ہے کہ وہ پاکستان کے عقب میں بیٹھ رہا ہوں، دوسری طرف پریشان بھی ہے کہ اس کا وہاں بنے گا کیا؟ بین الاقوامی حقائق پر نظر رکھنے والے لوگ واضح کر رہے ہیں کہ اوباما‘ جو اپنے ملک کے گوربا چوف بننے جا رہے ہیں‘ وہ بھارت کے وزیر اعظم کو گوربا چوف بننے کی راہ پر لگا رہے ہیں۔
معلوم ہو رہا ہے کہ امریکی ایما پر نریندر مودی نے اپنے مسل پھیلانے شروع کر دیے ہیں اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر عید قربان سے فائرنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان کے پانیوں کو بند کر کے پھر دو عدد ریلے چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب سے دوچار کر چکا ہے۔ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر سے زائد کا نقصان یعنی 15 ارب ڈالر برباد کر چکا ہے۔ بھارت نے یہی مشق افغانستان میں بھی شروع کر دی ہے۔ دریائے کابل کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کر دی ہے۔ وہاں ڈیم بنے گا اور پھر ہمارا صوبہ خیبرپختونخوا ڈبویا جائے گا۔ گوادر کی بندرگاہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اس نے افغانستان کے دارالحکومت کابل سے ریلوے پٹڑی اور بڑی سڑک کا پروگرام شروع کر دیا ہے۔ یہ پٹڑی ہرات سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہو گی اور ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان سے ہو کر چابہار کی بندرگاہ سے ملے گی۔ یوں بھارت وسط ایشیا کے ملکوں تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اور قازقستان کی تجارت کو افغانستان کے راستے سے ایران لے جائے گا تاکہ پاکستان کو ممکنہ فائدہ سے محروم کر دیا جائے۔ ساتھ ساتھ وہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو بھی ہوا دے رہا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ وہاں جو دہشت گرد پکڑے گئے‘ انہیں اسلحہ اور ٹریننگ بھارت نے فراہم کی۔ یہ حقائق سامنے آ چکے ہیں۔
اس سارے گھیرے کا مقصد پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے ہٹانا اور کشمیر کو بھارت کے اندر ضم کرنا ہے۔ یہ ہندوازم اور ''ہندوتوا‘‘ کے شور میں کشمیر کو ہضم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان سارے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان بھی میدان میں ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف ایسے جرنیل ہیں‘ جن کے ماموں راجہ عزیز بھٹی بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور بڑے بھائی میجر شبیر شریف بھی بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے؛ چنانچہ جنرل راحیل نے جہاں پاکستان میں بھارت نواز دہشت گردوں کی کمر توڑ دی‘ وہیں کشمیر پر بھی مضبوط سٹینڈ لیا ہے۔ میں چند دن پہلے شکر گڑھ میں تھا۔ لوگ مجھے بتا رہے تھے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاک فوج نے بارڈر پر تاخیر کئے بغیر فوراً جوابی کارروائی کر کے بھارتی توپوں کو خاموش کرایا ہے۔
بھارت اگر ایٹمی جنگ لڑتا ہے تو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اس سے بہتر ہیں۔ سارا بھارت برباد ہو جائے گا۔ ظاہر ہے پاکستان کو بھی نقصان ہو گا۔ ایٹمی جنگ دنیا ہونے نہ دے گی‘ نہ ہی ہونی چاہئے۔ روایتی جنگ انڈیا نے چھیڑی تو اس بار صرف فوجیں نہیں لڑیں گی، پاکستان کے لاکھوں تربیت یافتہ لوگ بھی بارڈر پار کر کے انڈیا کے شہروں میں داخل ہو کر لڑیں گے۔ یوں بھارت کو بکھرنے سے کوئی بچا نہ سکے گا۔ روایتی جنگ نہ ہوئی تو کشمیر بہرحال بھارت کو آزاد کرنا پڑے گا۔ افغانستان میں کردار بھی اسے مہنگا پڑے گا اور کشمیر میں بھی اب مزاحمت تیز ہو گی۔ دو محاذوں پر بھارت بے بس ہو جائے گا‘لہٰذا مستقبل کا نقشہ یہی نظر آ رہا ہے کہ نریندر مودی اپنے کردار کو پھیلا کر اپنے آپ کو گوربا چوف بنائیں گے... اگر مودی اس سے بچنا چاہتے ہیں، تو بچائو کی صورت صرف اور صرف کشمیر کو آزادی دینا ہے، سکاٹ لینڈ کی طرح رائے شماری کرانا ہے۔ اگر بھارت دنیا کے اس پُرامن اور معروف طریقے کی طرف نہیں آتا، مسئلہ کشمیر کو حل کر کے اچھے تعلقات اور جنوبی ایشیا کی معاشی خوشحالی کو اہمیت اور اولیت نہیں دیتا ، تو پھر تاریخ میں مودی کا کردار گوربا چوف کانظر آ رہا ہے۔ کاش یہ حقیقت مودی صاحب کو بھی نظر آ جائے اور برصغیر امن اور خوشحالی کے راستے پر چل پڑے۔