'کس قدر اندھیر نگری جیسا منظر ہے کہ فوجی حضرات جج بن گئے ہیں۔ عدالتوں میں بیٹھیں گے اور فیصلے کریں گے؟ ہو گا کیا؟ کیسا اندھیر مچے گا؟‘ ہمارے ذہنوں میں یہ جملے اس وقت کلبلانے لگے‘ جب ہم نے سینیٹ میں رضا ربانی صاحب کو دیکھا کہ وہ فوجی عدالت قائم کرنے کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں اور رو بھی رہے ہیں۔ اسی طرح اعتزاز احسن ووٹ دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اعتزاز آج مر گیا۔ بلاول بھٹو زرداری ووٹ دینے کا فیصلہ سنا چکے اور ساتھ یہ بھی کہہ گئے کہ ناک کٹ گئی ہے۔ میری برادری یعنی میرے مولوی برادران اسے اسلام کے خلاف کہہ گئے اور پارلیمنٹ میں خاموشی بھی اختیار کر لی۔ میرے جیسا ایک عام‘ سادہ سا مولوی اور سیاسی کارکن جب ایسے زعما کے بیانات ملاحظہ کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ ہماری فوج تو سب سے منظم اور ایک ایسا زبردست قومی ادارہ ہے کہ وہاں بچوں اور بچیوں کے سکولز بھی ہیں، کالجز بھی ہیں، یونیورسٹیاں بھی ہیں اور میڈیکل کالجز بھی‘ الغرض! ایک ایجوکیشن کور ہے جو پورے ملک میں تعلیم کا ایک زبردست نیٹ ورک بنائے ہوئے ہے۔ یہاں فوجیوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ان سے بڑھ کر عام شہریوں کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ میرٹ اور علمی معیار کمال درجے کا ہے۔ مگر میں اب اپنے بعض علمائے کرام اور سیاستدانوں کے بیانات پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ فوجیوں کو تو صرف پریڈ کرنا چاہئے اور لڑنا چاہئے‘ یہ ایجوکیشن کور کا بھلا ان سے کیا تعلق ہے۔ آج کے بعد مولویوں اور سیاسی لیڈروں کو ایجوکیشن کور کا ذکر کر کے بھی واویلا کرنا چاہیے اور اسے سیکولرازم قرار دینا چاہئے۔
فوج نے ایک اور کام کیا ہے۔ پورے ملک میں اپنے ریٹائرڈ آفیسرز اور شہدا کے وارثوں کیلئے فلیٹس بنائے ہیں۔ عسکری کالونیاں اور ڈیفنس سوسائٹیاں بنائی ہیں۔ ہائوسنگ کا ایک شاندار کلچر رواج دیا ہے۔ ان آبادیوں میں مساجد بنائی ہیں۔ ان مساجد میں فرقہ واریت نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ مولوی کا جب دل چاہے‘ حتیٰ کہ آدھی رات کو بھی لائوڈ سپیکر آن کرے اور تقریر شروع کر دے۔ چاہے تو ٹیپ ریکارڈر کے آگے مائیک لگا دے اور خود سو جائے، خدا کی بستی کے باسیوں کا سکون غارت کر دے... جی ہاں! میں تو اپنے سیاسی لیڈروں اور مولویوں کے بیانات کے بعد سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ فوجیوں کا کام ہائوسنگ کالونیاں بنانا، اپنے ادارے کے لوگوں کو گھر فراہم کرنا اور خوبصورت مساجد بنا کر انہیں آباد کرنا ہے یا جنگ لڑنا؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کا بھی ذکر ہونا چاہئے۔
فوج نے پورے ملک میں ملٹری ہسپتالوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔ یہاں سیاچن کنٹرول لائن اور ضرب عضب کے زخمیوں کا علاج ہی نہیں ہوتا... یہاں تمام امراض کا علاج ہوتا ہے اور صرف فوجیوں کا نہیں ہر ایک کا علاج ہوتا ہے... سیاستدانوں اور اپنے مولویوں کی باتیں سن کر مجھے شک ہونے لگ گیا ہے کہ ان سے پوچھوں، فوجی ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹروں میں کہیں قصابوں کے ٹوکے اور خنجر و چھریاں تو نہیں چلتیں؟ اگر ایسا ہے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دہائیاں دیجئے، احتجاج کیجئے تاکہ جس کرپٹ جمہوری کلچر کی سیاست کا رواج آپ نے ڈالا ہے، اس کا حسن ذرا نکھر کر سامنے آئے۔
کینٹ کے علاقوں میں کبھی کبھی ہم ملٹری ٹریفک پولیس کا بھی نظارہ کرتے ہیں۔ رہی عدالت تو فوج کے اندر ملٹری کورٹس کا تذکرہ تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں۔ فوج نے اپنے شہداء کے وارثوں کے لئے ملز بھی بنا رکھی ہیں۔ الغرض! فوج ایک ایسا ادارہ ہے‘ جس کے اندر بہت سارے ادارے ہیں۔ میں سب اداروں کا تذکرہ نہیں کر سکتا... جی ہاں! ان اداروں میں ایک ادارہ عدلیہ کا بھی موجود ہے۔ ہمارے لیڈران جو بھی کہیں حقیقت یہی ہے کہ یہ سب ادارے قابل رشک ہیں، لہٰذا اکیلی عدالت ہی مطعون کیوں؟ اور اس پر ندامت کیوں؟
نائن الیون کے بعد دہشت گردی کا جو سلسلہ شروع ہوا‘ اس میں سب سے زیادہ قربانیاں فوجی جوانوں اور افسروں کی ہیں اور اب اس فہرست میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہو گئی ہیں... ان سب کے قاتل پکڑے گئے، جیلوںمیں گئے اور پھر رہا بھی ہوئے... ہمارے فوجی بھائی... سیاسی حکمرانوں سے بار بار کہتے ہیں کہ عدلیہ کا کچھ کرو، اس کا نظام ٹھیک کرو، تیز کرو اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائو، معاملہ انتہائی خراب ہو رہا ہے، مگر میرے معزز پارلیمنٹیرینز کہ جن کی عزتوں پر معمولی سا حرف آئے تو تحریک استحقاق پیش ہوتی ہے، شہیدوں اور ان کے وارثوں کے حق کیلئے
انہوں نے ایوانوں میں رونے مرنے کی باتیں نہیں کیں...
معزز اراکین! باتیں ضرور کریں لیکن اپنے کردار پر کریں کہ ہم نے عدلیہ کو ٹھیک نہیں کیا۔ افتخار چودھری صاحب کے سووموٹو لفظی ایکشن عدلیہ کے سوتوں سے پھوٹتے رہے مگر نہ تو رشوت ختم ہوئی، نہ انصاف تیز ہوا اور نہ حل ہی مل سکا... اس پر نہ کوئی رویا دھویا‘ نہ کسی نے افسوس کیا۔
اچھا... اب بھی موقع ہے رونے مرنے کا کیا فائدہ ہے؟ عزم کرو، فوجی عدالتوں کی مدت دو سال ہے۔ دو سالوں میں عدلیہ کو ٹھیک کر کے دکھلا دو، کوئی کیس باقی نہ رہے، انصاف تیز ہو، فوجداری مقدمہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں اور دیوانی چھ ماہ میں نبٹائو، جو جج لیٹ کرے اسے گھر بھیج دو... اور جو وکیل لمبا کرے اس کا لائسنس کینسل کر دو... یہ کر کے دکھلا دو اور اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کر دو۔ جو مراعات لیتے ہو اسے حلال کر دکھلائو... ڈھول سپاہی کی محدود اختیار کی حامل عدالت پر ندامت کا اظہار مت کرو، اپنی کارکردگی پر ندامت کا اظہار کرو، دلیری اور جرأت کو بیان کرو، اپنی ناکامی کا اعلان کرو... یہ کرو گے تو دو سال کے عرصہ میں سول عدلیہ بھی ٹھیک کر لو گے اور اگر نہیں کرو گے تو شاید مزید رونا پڑے، مزید مرنا پڑے اور نوحہ کرنا پڑے... میری دعا ہے ایسا نہ کرنا پڑے۔