دوررس نگاہ رکھنے والا سیاستدان ہوتا ہے ناکہ فوجی... فوجی تو سلیوٹ مار مار کر دانشوری سے فارغ ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ جملہ جو سیاستدانوں کی نجی مجلسوں میں سننے کو اکثر ملتا ہے۔ میرا شمار ان لوگوں میں ہے جنہوں نے ہمیشہ اس جملے کو زمین پر پڑا بلبلہ سمجھا ہے جس کی کوئی زندگی نہیں ہوتی... اللہ بھلا کرے جناب اسد اللہ غالب کا کہ انہوں نے ''اے وطن کے سجیلے جوانو!‘‘ کتاب مجھے بھی ارسال فرمائی... میں نے ایک نشست میں ہی ساری کتاب پڑھ ڈالی اور کتاب کے جس صفحہ پر میرے بے اختیار آنسو بہہ نکلے وہ اقتباس اور اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے:
دسمبر 1971ء میں انڈین فوج فیروز پور سے آگے بڑھ کر قصور کو فتح کرتے ہوئے لاہور میں داخل ہونے کا پروگرام بنا چکی تھی۔ اس محاذ پر بریگیڈیئر اختر عبدالرحمن کی کمان میں پاک فوج نے آگے بڑھ کر انڈیا کی کئی کمپنیوں کا صفایا کیا اور قربانیاں دے کر انڈین علاقے میں دریائے ستلج پر قصرہند نامی قلعے پر فتح کا جھنڈا لہرا دیا۔ آگے فیروزپور کی جانب بڑھنے کی تیاریاں تھیں کہ 16دسمبر 1971ء کی صبح نے یہ خبر سنائی کہ پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔
بریگیڈیئر اختر عبدالرحمن اپنے مورچے سے باہر نہیں نکل رہے، عصر کا وقت ہو گیا، ان کے سٹاف میں تشویش کی لہر دوڑتی ہے کہ بریگیڈیئر صاحب باہر کیوں نہیں آ رہے۔ میجر قاضی صاحب آہستہ آہستہ مورچے کے دروازے پر آتے ہیں کہ مبادا صاحب سو رہے ہوں ان کی آنکھ نہ کھل جائے مگر جب عین دروازے پر آتے ہیں تو اندر سے بِلک بِلک کر رونے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ قاضی صاحب پریشان ہو کر سامنے جاتے ہیں تو بریگیڈیئر صاحب اپنے میجر سے لپٹ جاتے ہیں، آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ بریگیڈیئر کی گلوگیر آواز سے یہ جملہ ادا ہوتا ہے پاکستان دولخت ہو گیا۔
اس کے بعد جنرل عبدالمجید ملک کی الوداعی ضیافت میں بریگیڈیئر اختر عبدالرحمن‘ جناب اسد اللہ غالب کا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں ''ہمیں ایک کمینے دشمن سے پالا پڑا ہے جو ہمارے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور ستم یہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف جارحیت کرنے میں تنہا نہیں ایک سپرپاور روس پوری طرح اس کی پشت پر ہے۔ پاکستان کو ایک اسلامی ملک ہونے کی سزا دی جا رہی ہے مزا تب آئے گا جب اس دشمن سے براہ راست مقابلہ ہو گا۔ غالب صاحب حیرانی سے پوچھتے ہیں پاکستان اور روس کا کیا اور کیسا مقابلہ؟ بریگیڈیئر اختر عبدالرحمن صاحب بولتے ہیں! روس سے مقابلہ ہو گا، روس پاکستان سے ٹکرائے گا، روس کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپکے نہیں۔ وہ گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے، روسی زاروں سے لے کر کریملن کے نئے اشتراکی زاروں تک اس کی خواہش یہی رہی ہے کہ وہ بحیرئہ عرب تک رسائی حاصل کریں۔ ان کے لئے شارٹ کٹ افغانستان ہے اور جلد یا بدیر سوویت روس اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کرے گا اور یہیں پر وہ ایک ایسی جنگ میں پھنس کر رہ جائے گا کہ روس کے لئے اپنی تمام تر ایٹمی اور فوجی قوت کے باوصف اپنا وجود تک برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
قارئین کرام! بریگیڈیئر اختر عبدالرحمن اپنے محاذ پر قصرِ ہند کے فاتح ہیں لیکن پاکستان کے مجموعی محاذ پر وہ شکست کے میدان میں کھڑے اک دانشور ہیں۔ دانشور فوجی کس قدر دوررس نگاہ رکھنے والا تھا کہ 16دسمبر 1971ء کی سہ پہر کو اس کی دانش نے جو کچھ سوچا، اللہ نے اس بریگیڈیئر کو جرنیل بنا کر اپنی برہان بنا دیا۔ روس ٹھیک بیس سال بعد 1991ء کو 15ٹکڑوں میں بکھر چکا تھا۔ اس میں مرکزی کردار جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل اختر عبدالرحمن کا تھا۔ وہ فورسٹار جرنیل تھا، اس نے جب روسی شکست کے آخری دنوں میں اپنے چیف کو یہ مشورہ دیا کہ وسط ایشیا میں مجھے کارروائیوں کی اجازت دی جائے پھر دیکھنا روس کس طرح تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا ہے تو تب ہر کوئی اس تجویز کا مخالف تھا مگر ضیاء الحق نے اجازت دے دی اور پھر وہی ہوا جو دانشور جرنیل نے 1971ء میں سوچا تھا۔
1971ء کے دانشور فوجی کو یاد کر کے میری آنکھوں نے خوب آنسو بہائے۔ میں نے جھٹ سے محترم اسد اللہ غالب کو فون کیا، خراج تحسین پیش کیا، میری نظر میں سوا دو سو صفحات پر مشتمل رنگین کتاب
میں اور کچھ نہ ہوتا، بس اسی واقعہ کو بار بار ہر صفحہ پر دہرا دیا جاتا تو کتاب تب بھی مکمل تھی اور پاکستان کی عسکری تاریخ کا اک شاہکار۔ میں یہ جملہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میں نے اللہ کے فضل سے دانشور فوجی کی دانش کو مجسم شکل میں ماسکو کے ریڈ سکوائر اور کریملن میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ قارئین کرام! جنرل اختر عبدالرحمن شہید جیسی دانشوری اللہ کا انعام ہے اور یہ انعام اس پر ہوتا ہے جو پیٹ سے بے پروا ہو اور اپنی قوم کا خیرخواہ ہو۔ اس قدر خیر خواہ اور ہمدرد ہو کہ اس کے دل میں درد کا سمندر ہو، اس سمندر کو لے کر آنکھیں نالہ فغاں ہوں تو رخسار پر نالہ براں ہوں۔ حضرت علامہ اقبال بس اتنا ہی کماتے تھے جتنے سے گزارا چل جائے اور ساری زندگی امت کو جگانے میں گزار دی۔ حضرت قائداعظم نے ساری کمائی پاکستان کے نام کر دی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے، جائیداد کا کلیم داخل نہ کیا اور دنیا سے رخصت ہوئے تو بغیر بنک بیلنس کے رخصت ہو گئے۔ یہ تینوں شخصیات مصور پاکستان، قائداعظم اور قائد ملت بن گئیں۔ یہ تھے سیاستدان۔ یہ تھے دوررس نگاہ رکھنے والے دانشوران ... آج جو سیاستدان ہیں، یہ تو پیٹ کے لئے سیاست کرتے ہیں اور جو پیٹ سے آگے نہ بڑھے اس کی سوچ اور ویژن کچھ نہیں ہوتی۔
محترم اسد اللہ غالب صاحب نے مجھے کہا کہ فوج میں کتابوں کو طلب کیا گیا ہے۔ میں نے کہا چلو کچھ تو فروخت ہو جائیں گی، کہنے لگے فوج کا بجٹ بڑا پورا پورا اور محدود ہوتا ہے، ان کے لئے مشکل ہو گا، میں نے کہا غالب صاحب! آپ نے درست فرمایا آج ہی کے اخبار میں دو خبریں ہیں، ایک شہہ سرخی ہے جس کے مطابق ملک کی حفاظت میںدہشت گردوں سے لڑتے ہوئے میجر ظفر اقبال شہید ہو گئے۔ دوسری سپرلیڈ ہے جس کے مطابق ہمارے وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار نے اپنے دو عدد غریب بیٹوں کو40لاکھ ڈالر کا تحفہ دبئی بھیجا ہے اس لئے کہ وہ وہاں عربوں کی ریت میں دو بلند و بالا ٹاور بنا رہے ہیں اور پھر وہ تحفہ واپس پاکستان میں بھی آ گیا ہے۔ میں نے کہا، انہی سے گزارش کر لو، آپ خود کہہ رہے ہیں کہ گورنمنٹ کالج میں اسحاق ڈار نامی سٹوڈنٹ آپ سے دو سال جونیئر تھا اور متوسط درجے میں غریب ہی تھا۔ غریب آدمی شاید ادھر بھی حصہ ڈال دے۔
اللہ کی قسم! آج پاکستان کی معیشت اس قابل نہیں کہ سیاستدان اس کے ساتھ کھلواڑ کریں مگر پیٹ کی خاطر ہو رہا ہے۔ میرے حضورﷺ نے فرمایا، سب سے بری تھیلی پیٹ کی ہے۔ اس بری اور بدبودار تھیلی کو بھرنے میں آج کے سیاستدان لگے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں جانیں قربان کر کے پاکستان کو بچا رہے ہیں تو فوجی جوان بچا رہے ہیں۔ ان کا چیف راحیل شریف ضرب عضب کا ویژن اور دوررس نظر کا حامل ہے۔کبھی فوجی عدالتیں بنواتا ہے تو کبھی اپیکس کمیٹیاں بنواتا ہے تاکہ پاکستان کی خیر ہو جائے۔ قارئین کرام! آیئے مل کر دعا کریں۔
اے اللہ! پیٹ کے بندوں سے نجات اور دوررس نظر کے حامل حکمران دے دے۔ (آمین)