سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے ستلج انڈیا لے چکا، چنانچہ دریائے ستلج خشک ہو گیا، پاکستان اس میں دریائے چناب کا پانی ڈال کر ستلج کے علاقے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے، سیلاب کے دنوں میں بھارت پانی چھوڑتا ہے تو علاقے میں تباہی ہمارا مقدر بن جاتی ہے، چنانچہ پاکستان نے چین کے تعاون سے یہاں ایک منصوبہ تیار کیا کہ یہاں پانی کا بندوبست بھی کیا جائے اور پل وغیرہ بھی بنایا جائے تاکہ ممکنہ نقصان میں کمی ہو... دریائوں اور نہروں پر ایسے منصوبے موسم سرما میں بنائے جاتے ہیں کیونکہ دریا ان دنوں خشک ہو جاتے ہیں اور پانی تھوڑا رہ جاتا ہے، مگر انڈیا نے چند دن قبل دریائے ستلج میں بغیر اطلاع کے اچانک پانی چھوڑ دیا جس سے زیر تعمیر منصوبہ نقصان اور تخریب کا شکار ہو گیا جبکہ کچے کے علاقے میں ہزاروں ایکڑ گندم کی فصل بھی تباہ ہو گئی ہے۔
جنرل راحیل شریف صاحب آرمی چیف بننے کے بعد ہیڈ سلیمانکی کا دورہ بھی کر چکے ہیں اس لئے کہ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971ء میں یہیں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ میں نے خود ہیڈ سلیمانکی کا دورہ کیا اور پاکستانی ٹاور پر چڑھ کر پورے علاقے کا جائزہ لیا۔ میں انڈیا کے اس علاقے کو دیکھ رہا تھا جسے میجر شبیر شریف نے فتح کیاتھا۔ اب مجھے تلاش تھی کسی ایسے سپاہی کی جس نے میجر شبیر شریف کی کمان میں معرکہ لڑا ہو۔ جستجو کے بعد جناب ابو بکر راشد نے مرزا انور بیگ کے بارے میں بتلایا۔ میں مرزا انور بیگ سے ملا، انہوں نے میجر شبیر اور ان کے ساتھ لڑے ہوئے معرکے کی تفصیل کو کچھ یوں بیان کیا:
میری عمر 17 سال تھی جب میجر شبیر صاحب کی کمپنی میں میری تعیناتی ہوئی، 1971ء کی جنگ سے کافی دن پہلے ہم ہیڈسلیمانکی پر پہنچ چکے تھے، میجر شبیر شریف نے جوانوں سے مخاطب ہو کر کہا، اپنے بازو مضبوط کر لو، جنگ ہوئی تو دست بدست لڑائی بھی ہو سکتی ہے، یہاں دوبارہ آپ لوگوں کی ٹریننگ ہو گی چنانچہ محاذ پر ٹریننگ شروع ہو گئی۔ میجر صاحب جوانوں کے ساتھ انتہائی شفیق تھے، لیکن ٹریننگ میں سخت تھے۔ ان کا حکم تھا کہ جو جوان میرے سامنے آئے دس ڈنڈ نکال کر آگے کو چلے۔
پھر وہ دن آن پہنچا جب مغرب کا ٹائم تھا ہم کھانا کھا رہے تھے، شبیر صاحب تشریف لے آئے ہم اپنے کمانڈر کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ کہنے لگے آپ تشریف رکھیں، کھانا سیر ہو کر کھائیں، آج دشمن پر حملہ کرنا ہے، آغاز میں خود کروں گا چنانچہ درجن کے قریب شیر دل جوان انہوں نے اپنے ساتھ لئے اور انڈیا کی جھنگڑ پوسٹ کے درمیان سے نکل گئے۔ وہ انڈیا کے گائوں ''گل مکھیڑا‘‘ کے ساتھ صبونہ نہر کے پل پر پہنچ گئے۔ شبیر صاحب ہمیں بتلا کر گئے تھے کہ اللہ نے ہمیں فتح دی تو میں آپ کو سگنل دوں گا اور آپ بھی مجھے آن ملنا، کوئی جوان واپسی کا بالکل نہ سوچے، بس آگے بڑھنا ہے، ہم جب شبیر صاحب کے پاس پہنچے تو ٹینک بھی آ چکے تھے، ہمارے توپ خانے کا گولہ انڈین ٹینک کو لگا تو وہ تباہ ہو گیا، کتنی دیر تک اس کے اندر کا اسلحہ پھٹتا رہا، انڈین فوجی بھاگ اٹھے، پھر انہوں نے دوسرا حملہ کیا تو تب پھر ایک ٹینک تباہ ہو گیا... اب انڈین فوج نے چار اور پانچ دسمبر کو پورے بریگیڈ کو یہاں پہنچا کر حملے کا پروگرام بنایا، شبیر صاحب کی کمان میں ہم متعدد کلو میٹر کے علاقے پر آگے بڑھتے ہوئے ان کے مورچوں پر قبضہ کر کے پوزیشن لے چکے تھے۔
دشمن کو شبیر صاحب کے مورچے کے بارے میں بالکل درست مخبری تھی چنانچہ ان کا میجر نرائن سنگھ ہمارے شبیر صاحب کے مورچے کی طرف بڑھا اور شبیر صاحب کا نام لے کر للکارا کہ اتنے ہی بہادر ہو تو باہر نکلو اور میرے ساتھ پنجہ آزمائی کرو۔ میجر نرائن سنگھ نے ایسا اس لئے کیا تھا کہ انڈین آرمی اور مذکورہ علاقے میں میجر شبیر کی دلیری اور بہادری زباں زدعام ہو چکی تھی۔ اب میجر شبیر شریف اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر مورچے سے باہر نکل آئے اور نرائن سنگھ کی جانب بڑھے، وہ اپنے جوانوں کے بازو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے تو اپنے بازو بھی مضبوط کر چکے تھے۔ نرائن سنگھ نے بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے کمینگی کا مظاہرہ کیا اور میجر شبیر شریف کے چہرے پر تیزاب کی بوتل پھینک دی۔ پروگرام اس کا یہ تھا کہ میجر صاحب کی آنکھیں ضائع ہو جائیں گی اور وہ معذور بہادر پر کامیابی حاصل کر کے انڈین فوج کا ہیرو بن جائے گا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ میجر شبیر کے رخسار اور ٹھوڑی جل گئے مگر ان کی آنکھیں محفوظ رہیں۔
میجر صاحب اب چیتے کی تیزی سے جھپٹے اور نرائن سنگھ کو قابو کر لیا، اسی کا پستول چھینا اور انڈین ساختہ پستول کی گولیاں بزدل نرائن سنگھ پر برسا کر اسے ٹھنڈا کر دیا، نعرئہ تکبیر بلند ہوا، مبارزت کا نظارہ جو قدیم جنگوں کے آغاز میں ہوا کرتا تھا، میجرشبیر نے اس کا سماں باندھ کر پورے انڈین بریگیڈ پر دھاک بٹھا دی۔ اس کے بعد گھمسان کا رن پڑا اور پھر چھ دسمبر کو انڈین ٹینک کا گولہ میجر شبیر سے ذرا فاصلے پر اس وقت پھٹا جب وہ میدان میں کمان کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ گولے کا پارچہ شبیر شریف کے چہرے پر لگا اور وہ خلعت شہادت پہنے اپنے اللہ سے جا ملے۔ مجھے ا چھی طرح یاد ہے کہ ہم سب نے اپنے کمانڈر سے عرض کی کہ وہ اپنے چہرے کے علاج کے لئے واپس چلے جائیں مگر انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ ان کا یہ جملہ بھی ہمیں یاد ہے کہ انڈیا کی کوئی گولی اللہ کے فضل سے میرے لئے نہیں بنی اور پھر اللہ نے ان کے جملے کی لاج اس طرح رکھی کہ گولی تو نہ لگی گولے کا پارچہ لگا جس سے وہ شہید ہوئے۔
16 دسمبر کو جب دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کا اعلان ہوا تو ان کا نام ''نشان حیدر‘‘ کے لئے بھیجا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت پاکستان کے صدر بن چکے تھے۔ وہ ہمارے فتح کئے ہوئے علاقے میں آئے، ہم اپنے مورچوں میں تھے، جب بھٹو صاحب میرے مورچے کے قریب آئے تو میں چھلانگ لگا کر باہر نکلا اپنے صدر کو سلیوٹ مارا، جناب بھٹو صاحب نے مجھے سینے سے لگایا، گال تھپتھپایا اور پوچھا کہ تم نے بھی اپنے کمانڈر کی کمان میں خوب لڑائی کی۔ میں نے عرض کی جی! میں بھی لڑا ہوں اور اللہ نے یہ علاقہ ہمیں فتح کی صورت میں دیا ہے۔ جناب بھٹو صاحب نے خود سارے حالات کا جائزہ لیا اور پھر میجر شبیر شریف کے لئے پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز ''نشان حیدر‘‘ کا اعلان فرمایا۔
قارئین کرام! میں نے یہ ساری تفصیل اس لئے عرض کی ہے کہ میجر شبیر شریف جیسے شیر دل بہادر کے چھوٹے بھائی آج پاکستان آرمی کے چیف ہیں۔ انتہائی متحرک اور چاق و چوبند ہیں وہ یہاں بھی تشریف لائے اور شکرگڑھ بھی گئے جہاں آئے دن انڈین فوج پاکستانی شہریوں پر گولہ باری کر کے ان کو شہید کر رہی ہے۔ انڈیا کی حکومت اور فوج کو سمجھنا ہو گا کہ آج پوری پاکستانی قوم اپنی فوج کی پشت پر ہے تو ان کا سالار بھی لاجواب قسم کا دانشور اور بہادر ہے لہٰذا امن ہی بہترین چوائس ہے۔ پاکستان کے سرحدی شہریوں کو شہید کرنا اور آبی جارحیت کر کے فصلوں کو ڈبونا، بالکل وہی حرکت ہے جو نرائن سنگھ نے کی تھی لیکن ایسی حرکت کرتے ہوئے یہ بھی بہرحال ذہن میں رکھنا ہو گا کہ آپ کا سامنا اور پالا شبیر شریف کے بھائی راحیل شریف سے ہے۔