میرا تعلق بیک وقت دو برادریوں علماء اور صحافیوں سے ہے، مجھے دونوں کا وقار عزیز ہے۔ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے بزدلانہ اور سفاکانہ حملہ کیا تو شہیدوں کے ورثاء سے ملااور کالم لکھے، ان کالموں پر محترم نذیر ناجی نے اس قدر حوصلہ افزائی فرمائی کہ اپنے کالم میں ذکر فرما دیا۔ فون پر بھی شفقت کا اظہار فرمایا۔ اب اسی ضمن میں میری جو کتاب ''حضورؐ عالیشان بچوں کے درمیان‘‘ سامنے آئی تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے کتاب پڑھ کر مجھے خط لکھا۔ آرمی سکول کے بچوں کی شہادت کے حوالے سے میرے صحافیانہ کردار اور کتاب کے مندرجات کو سراہا ... میاں صاحبان کے طرز حکمرانی پر میں نے ہمیشہ مثبت تنقید کی ہے۔ جہاں بہتری دیکھی وہاں توصیف میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔
آرمی پبلک سکول کے بچوں کا معصوم خون اس قدر پاکیزہ تھا کہ اس نے پاکستان کو امن کی راہ پر گامزن کر دیا۔ معاشرے میں سالہا سال سے پھیلی ہوئی اُن روایات کو‘ کہ جن کی وجہ سے انتہا پسندی اور نفرت بڑھتی چلی جا رہی ہے‘ ختم کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کو جاتا ہے۔ ان روایات میں سے ایک روایت ہمارے ہاں لائوڈ سپیکرز کی بھی ہے۔ اس پر میاں صاحب نے سخت ایکشن لیا ہے، ان کے اس ایکشن پر بہت سارے علماء ناراض ہیں تو مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی باک نہیں کہ عوام‘ حکومت کے اس اقدام سے خوش ہیں۔ اب میری برادری کو غور کرنا چاہئے کہ جس بات پر وہ ناراض ہیں اس پر عوام کیوں خوش ہیں؟ آگے چلنے سے قبل ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں اللہ کے پیارے اور آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کا ایک واقعہ عرض کر دوں تاکہ موجودہ صورتحال میں ہم سب رہنمائی حاصل کر سکیں۔
امام ابودائود رحمہ اللہ اپنی کتاب میں حدیث لائے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ اپنی مسجد میں اعتکاف بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے سنا کہ لوگ اونچی آواز میں تلاوت کر رہے ہیں، اس پر آپﷺ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا! ''اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ تم لوگ (تلاوت کے ذریعہ سے) اپنے رب سے باتیں کر رہے ہو لیکن خبردار! تم میں سے کوئی دوسرے کو ہرگز تکلیف سے دوچار نہ کرے اور تلاوت میں اپنی آواز اونچی نہ کرے۔‘‘
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ مسجد نبوی میں رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے، اپنے اپنے پردہ نما خیموں میں اللہ کے رسولﷺ اور بعض صحابہ ؓ بھی اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ اب اعتکاف میں کوئی آرام کر رہا ہے تو کوئی نماز پڑھ رہا ہے۔ کوئی غوروفکر کر رہا ہے تو کوئی ذکر کر رہا ہے۔ مسجد میں تلاوت اونچی آواز میں کرنے والوں کی وجہ سے باقی لوگوں کی عبادت اور یکسوئی میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس سے منع فرما دیا اور خبردار کر کے سختی سے منع کر دیا جی ہاں! دین تو یہ ہے جو حضورﷺ سمجھا رہے ہیں۔ اب میری برادری کے لوگ جو سالہا سال سے مسجد کے مینار پر آٹھ آٹھ لائوڈ سپیکرز لگا کر خطاب فرماتے ہیں، اعلانات کرتے ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں، چندہ مانگتے ہیں اور ایک ایک محلے کی کئی کئی مسجدوں سے بیک وقت یہی کچھ ہوتا ہے تواس محلے کے لوگوں کے سکون کو بے سکونی میں بدلنے کے ذمہ دار میری برادری کے افراد حضور سرور کونینﷺ کی مبارک زبان سے اپنے لئے خبردار کا لفظ کیوں نہیں سنتے؟ ہمارے عوام تو مسلمان ہیں، وہ تو ڈرتے تھے کہ علماء کو کچھ کہہ دیا تو گناہ گار نہ بن جائیں... اب حکومت کا قانون آ گیا تو اندر سے تو وہ بھی ستائے ہوئے تھے لہٰذا وہ خاموش اور خوش ہیں جبکہ میری برادری کے لوگ ناراض ہیں... میرا مشورہ یہ ہے کہ ناراض نہیں ہونا چاہئے اس پر غور کرنا چاہیے۔
ہمارے وہ پاکستانی مسلمان بھائی جو امریکہ و یورپ وغیرہ میں رہتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ محلے کا کوئی شخص ٹی وی کی آواز اسی قدر ہی کھول سکتا ہے جس قدر کہ وہ پڑوسی کو ڈسٹرب نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو شکایت پر پولیس آ کر مجرم کو لے جاتی ہے کہ اس نے پڑوسی کا ذہنی سکون تباہ کرنے کی حرکت کی اوریہ بہت بڑا جرم ہے۔
چند سال قبل تک شادی بیاہ پر لوگ لائوڈ سپیکرز منگواتے تھے، وہ ہفتہ ہفتہ چلتے رہتے تھے، ان پر گانے لوگوں کو زبردستی سنوائے جاتے تھے۔ پیسے دینے والوں کے ناموں کے اعلانات ہوتے تھے... مگر حکمرانوں کو بند کرنے کی توفیق نہ ہوئی، وقت کی رفتار نے ان کو بند کر دیا۔ شادی ہال بن گئے، سپیکروں کے رواج ختم ہو گئے۔ معاشر ے میں ایک ناسور کا خود بخود ہی خاتمہ ہو گیا۔ ویسے تو اب بھی ڈیک لگا کر اب بھی محلوں میں کہیں کہیں ایسی صورتحال پیدا کی جاتی ہے‘ حکومت کواسے بھی ختم کرنا چاہئے۔
اللہ اور رسولﷺ کا نام مساجد کے میناروں سے بلند ہوتا رہے گا۔ اذان کی آواز ہمارے دلوں کا قرار اور روحوں کی تسکین ہے۔ مگر اس روح پرور عمل کو حضورﷺ کے فرمان کے مطابق اس خوبصورتی سے انجام دینا چاہیے کہ پاکستان کا ہر مسلمان عش عش کر اٹھے۔ مثال کے طور پر بعض فقہی مسالک کے ہاں اذان ذرا تاخیر سے ہوتی ہے۔ بعض کے ہاں اول وقت میں ہوتی ہے، دونوں اوقات ہی شرعی لحاظ سے درست ہیں۔ بات تو صرف افضل اور غیر افضل کی ہے اور کیا ہی بہتر ہو کہ درمیان کا راستہ نکال لیا جائے اور پورے پاکستان میں پانچوں اذانوں کا بلحاظ خطہ و شہر ایک ہی وقت ہو۔ شہروں کا علاقوں کے لحاظ سے فجر، مغرب اور عشاء کا ٹائم تو پہلے ہی تقریباً ایک ہے۔ ظہر اور عصر کے ٹائم کو بھی ایڈجسٹ کر لیا جائے۔ کیا میری برادری کے لوگ ایسا کر کے قوم کو اپنے اتحاد کا عملی ثبوت نہیں دے سکتے؟ اذان کے الفاظ بھی سب کے ہاں ایک ہیں۔ بعض مسالک کے لوگ شروع میں اور بعض اذان کے آخر پردرود شریف پڑھتے ہیں۔ اگر میری برادری کے سب لوگ اذان تک محدود ہو جائیں اور باقی سارے کام اپنے اپنے مسلک کے مطابق لائوڈ سپیکر کے بغیر کر لیں، ہارن بھی کم کر دیں، لوگوں تک پہنچ کر ان کو قائل کر کے مساجد میں لائیں اور مساجد کے اندرونی سپیکرز استعمال کریں تو میری برادری کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ وہ بھی ادا ہو گا۔
لائوڈ سپیکر کے بے جا استعمال سے ننھے بچے بدک کر نیند سے جاگ جاتے ہیں، ڈر جاتے ہیں، گھروں میں خواتین جو نماز پڑھتی ہیں، ان کا خیال بھی ضروری ہے۔ گھروں میں جو لوگ تلاوت کرتے ہیں، ریسرچ کرتے ہیں، غوروفکر کرتے ہیں، آرام کرتے ہیں، مریض اور بیمار ہوتے ہیں، سب کا خیال ہمارے دین اور شریعت کا تقاضا ہے۔ ان کے حقوق سلب ہو گئے تو میری برادری کے لوگ یاد رکھیں ہمیں ان کے سامنے قیامت کے دن جوابدہ ہونا پڑے گا۔
ایک بات یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ خطیبوں کو لکھا ہوا خطبہ دیا جائے گا۔ میں حکومت کے ذمہ داران کی خدمت میں عرض کروں گا کہ یہ تجویز ناقابل عمل اور انسانی صلاحیت کو زنجیر ڈالنے کی غیردانشمندانہ حرکت ہے۔ بعض مسلمان ملکوں میں ایسا کیا جاتا ہے اور یہ ناپسندیدہ ہے۔ خطیب اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنے جوہر دکھلاتا ہے اور یہ اس کا حق ہے اور یہ اللہ کی عطا ہے۔ ہاں! ایک دائرئہ کار متعین ہو سکتا ہے کہ اختلاف کرتے ہوئے کسی کو دائرئہ اسلام سے خارج کرنے کا سلسلہ نہیں ہونا چاہیے۔ نفرت اور شرانگیزی نہیں ہونی چاہیے، باقی مثبت تنقید اور اصلاحی نقطہ نظر کا اظہار معاشرے کی ترقی کے لئے لازم اور فطری ہے۔ اسی طرح چوکوں، چوراہوں اور پارکوں میں دینی کانفرنسوں کا انعقاد حکومت کی اجازت سے ہوتا ہے... اس پر بھی نہ قدغن ہے نہ ہونی چاہئے۔ الغرض! حکومت کا مقصد اصلاح ہے اور یہ اصلاح بھی علماء کے مشوروں کی روشنی میں ہے تو میری برادری کو اس کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ لائوڈ سپیکرز ایکٹ کے آنے سے معاشرے میں موجود اذیت ختم ہوئی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھلائی بھی پشاور سانحہ میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کے پاکیزہ خون کی عطا ہے۔