"AHC" (space) message & send to 7575

یمن‘ سعودی عرب اور عالمی منظر

کعبہ شریف کے چار رکن یا چار کونے ہیں۔ ان میں سے دو ارکان کے نام ''رکن شامی‘‘ اور ''رکن عراقی‘‘ ہیں۔ شام اور عراق کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے ناموں سے کعبہ کے دو رکن موسوم ہیں۔ صحیح بخاری کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ طواف کرنے لگے تو آپؐ نے مندرجہ بالا دونوں ارکان کو ہاتھ مبارک نہیں لگایا۔ پھرجب آپؐ تیسرے رکن یعنی رکن یمانی کے پاس تشریف لائے تو اسے ہاتھ مبارک لگایا، اگلا رکن پھر حجراسود ہے۔
کعبہ کے رکن ''رکن عراقی‘‘ کی سمت میں عراق وہ ملک ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے امریکی سازشوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کی حالیہ یلغار کے بعد ایران کو اثرورسوخ بڑھانے کا موقع دیا گیا اور اس وقت عراق کی حیثیت ایران کے بعد ایک دوسرے ایران کی ہے۔ سعودی عرب یہ ساری صورتحال دیکھتا رہا اور خاموش رہا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کعبہ کے ''رکن شامی‘‘ کی سمت میں واقع ملک شام بھی عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ سعودی عرب نے اب بھی کوئی مضبوط کردار ادا نہ کیا اور خاموش رہتے ہوئے اپنا ہاتھ دور رکھا۔ پھر کیا ہوا؟ کعبہ کے یمنی رکن کی سمت میں واقع یمن بھی عدم استحکام سے دوچار ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کی جانب سے ہر طرح کا تعاون مل رہا ہے۔ اب کے سعودی عرب سے برداشت نہ ہوا۔ اس لئے کہ یمن کا بارڈر سعودی عرب کے ساتھ تو 1800کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے‘ بحراحمر میں سمندر کے ساتھ بھی ملا ہوا ہے لیکن ایران کے ساتھ یمن کا زمینی رابطہ ایک انچ کا بھی نہیں۔ سمندری رابطہ بھی کوئی نہیں۔ اس کے برعکس ایران خلیج عرب کے دوسری جانب واقع ہے جبکہ یمن، بحراحمر اور بحرِ عرب پر واقع ہے۔ اس جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب نے اب اپنا ہاتھ بڑھایا اور سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کے کہنے کے مطابق ''سعودی عرب ایران کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہے‘‘ وہ تو صرف وہاں باغیوں کی سرکوبی اور جائز حکومت کی بحالی کے لئے گیا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''ایران وہاں اپنی مداخلت بند کر دے تو مسئلہ حل ہو جائے گا‘‘۔
قارئین کرام! صورتحال کا ایک یہ پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو ایک سال بعد عراق میں بھی فوجیں داخل کر دیں۔ افغانستان اور عراق میں شکست کے آثار دیکھے تو عراق کو ایران نواز نوری المالکی کے حوالے کر کے افغانستان پر توجہ مرکوز کر دی۔ ادھر شام کا محاذ گرم ہوا تو قریب تھا کہ بشار کی حکومت گر جائے مگر روس اور ایران کی مدد نے اسے گرنے نہ دیا۔ اب امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر واپس مشرق وسطیٰ میں بھاگا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ روس اور چین طاقتور ہو گئے ہیں۔ دونوں کی پالیسی باہم تعاون کرنے والی ہے اور وہ جنگیں لڑ کر پیچھے رہ گیا ہے لہٰذا مشرق وسطیٰ میں روس اور چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔
یاد رہے! دنیا کے وسائل سے وہی ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کی سمندر پر حکمرانی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی سمندری موٹروے مشرق وسطیٰ سے گزرتی ہے۔ مشرق بعید کے سارے ملکوں کی تجارت بحرہند کے ذریعے گوادر کے سامنے سے گزرکر یمن کے ''باب المندب‘‘ کے قریب بحراحمر میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر وہاں آگے بڑھتے ہوئے بحرروم اور یورپ میں پہنچ جاتی ہے۔ افریقہ کا براعظم ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یوں اس بحری راستے پر جس کا کنٹرول ہو گا وہی دنیا کا تھانیدار ہو گا۔
اس سارے روٹ میں اہم ترین سمندری پوزیشن یمن کی ہے کہ جس کے بارڈر سے تین سو کلومیٹر دور سمندر میں ایک یمنی جزیرہ ہے
جسے سقوطری (SOCOTRA) کہا جاتا ہے۔ اس پر کبھی روس کا قبضہ تھا اس لئے کہ جنوبی یمن اس کا اتحادی تھا۔ پھر جب روس ٹوٹا، یمن ایک ہوا تو یہ جزیرہ بھی روس خالی کر گیا۔ 19جنوری 2010ء کو امریکی جرنیل پیٹریاس نے یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے ساتھ معاہدہ کر کے یہ جزیرہ حاصل کر لیا۔ بحرہند اور بحرعرب پر نظر اور کنٹرول رکھنے کے لئے امریکہ کے پاس پہلے بھی ایک جزیرہ موجود ہے۔ یہ ڈیگوگارشیا کا جزیرہ ہے۔ امریکہ سے باہر پوری دنیا میں امریکہ کا یہ سب سے بڑا بحری اڈہ ہے۔ یہ سری لنکا سے شمال کی جانب کوئی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر جبکہ سقوطری سے3ہزار کلومیٹر دور ہے۔ یمن کے ساحل سے سقوطری صرف پونے تین سو کلومیٹر دور ہے۔ اس لئے امریکہ نے قریب ترین جگہ پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ہوائی اڈہ اور دیگر بہت ساری تنصیبات کا کام مکمل ہو چکا ہے اور مزید کام جاری ہے۔ یاد رہے! امریکی بحری جہاز ''کول‘‘ پر یمن سے ہی القاعدہ نے حملہ کیا تھا، لہٰذا جس کے کنٹرول میں یمن اور اس کا جزیرہ سکوٹرا یا سقوطری ہو گا وہی دنیا کے اس سب سے بڑے سمندری راستے کو کنٹرول کرسکے گا۔
چین اور روس کی کوشش ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تیل اور گیس کے خزانوں کو سمندری اور زمینی راستوں سے اپنے اپنے ملک تک لائیں اور پھر ان کی مصنوعات، خاص طور پر چین کی مصنوعات سمندری راستوں سے افریقہ، مشرق وسطیٰ اور یورپ تک جائیں۔ اب ایران، روس اور چین کے مفادات کو سامنے رکھ کر ان کے ساتھ کھڑا ہے اور امریکہ جو اس کے ہاں ''شیطان بزرگ‘‘ تھا، ایک عرصہ سے اندر ہی اندر اسے ''برادر بزرگ‘‘ مان کر اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ مفادات جب سعودی عرب کے ساتھ ٹکرائے ہیں اور اس نے کعبہ کی ہر سمت سے اپنے گرد گھیرا دیکھا ہے تو اسے کعبہ کا چوتھا رکن حجراسود یاد آ گیا ہے کہ کئی سو سال پہلے ایسے ہی ایک گھیرے میں حجراسود کو یہاں سے اتار لیا گیا تھا۔ پھر ایک عرصہ بعد خلیفہ وقت نے اسے واپس حاصل کیا تھا۔ چاندی کے فریم میں حجراسود کے تین ٹکڑے آج بھی تاریخ کے ایک کربناک دور کی یاد دلاتے ہیں۔
بین الاقوامی سازشیں بڑی گہری اور پیچیدہ ہیں، پاکستان کے سامنے بھی یہ سازشیں پوری طرح موجود ہیں لیکن ایمان اور وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سعودی عرب کی آواز پر لبیک کہا جائے اور معاملے کو رکن یمانی سے آگے ''حجراسود‘‘ تک نہ جانے دیا جائے۔ پاک افواج نے کعبہ کی پاسبانی کا پہلے بھی حق ادا کیا ہے کہ جب کئی سال قبل گمراہ شرپسندوں نے مسجد حرام کے میناروں کو مورچے بنا لیا تھا۔ یہی پاک فوج آج بھی تیار ہے اور کہہ چکی ہے کہ ہم سعودی عرب کی سالمیت کا دفاع کریں گے مگر میاں نواز شریف کی حکومت کا فرض ہے کہ سازش کو یمن میں ہی روکے‘ آگے کا نہ سوچے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں