"AHC" (space) message & send to 7575

چین کی فیاضیاں اور ہماری ذمہ داریاں

پاک چین دوستی کے معماروں میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا نام سرفہرست ہے۔ ملک معراج خالد مرحوم ان کے اہم ترین ساتھی تھے۔ ملک صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔ نگران وزیراعظم بھی بنے۔ مگر بیڈن روڈ پر کرائے کے ایک فلیٹ میں فوت ہوئے۔ مجھے ایک ایسی تقریب میں ان کے ساتھ بیٹھنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا جہاں وہ شادی میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے۔ میں نے وہاں نکاح پڑھانا تھا۔ ان کے علاقے کی ہیڈمسٹریس محترمہ ام یاسر مرحومہ نے ان سے میرا تعارف کروایا تھا۔ میں نے یہ تمہیدی الفاظ ملک صاحب سے متعلق ایک واقعہ سنانے کے لئے لکھے ہیں کہ جب وہ چین کے دورے پر گئے اور ان کی ملاقات چیئرمین مائوزے تنگ سے ہوئی تو ملک معراج خالد نے مائوزے تنگ سے پوچھا کہ آپ کے ملک میں مثالی قسم کا نظم و نسق ہے، کرپشن نام تک نہیں، امن اعلیٰ درجے کا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟ سوال سن کر مائوزے تنگ نے کہا:
"While you read Quran, we follow it"
''قرآن کی تلاوت تم کرتے ہو، پیروی ہم کرتے ہیں‘‘۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا واقعے کو اس وقت کے مشہور انگریزی اخبار ''پاکستان ٹائمز‘‘ نے فرنٹ پیج پر بڑے نمایاں انداز سے شائع کیا تھا۔ آج یہ واقعہ ہم اہل پاکستان کو پھر سے یاد کرنا چاہئے کہ مائوزے تنگ کے جانشین شی چن پنگ اپنی سنہری یادیں ہمارے پاکستان میں چھوڑ گئے ہیں کہ جو پاکستان کو ایک سنہرے مستقبل سے ہمکنار کرنے جا رہی ہیں۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ ہے، اس کا تعلق بھی ذوالفقار علی بھٹو سے ہے۔ ان کے دور میں بلوچستان کے گورنر نواب آف قلات میر احمد یار خان تھے۔ میں جب آج سے کوئی بائیس سال قبل بلوچستان گیا تو میر احمد یار خان مرحوم کے بیٹے میردائود جان مرحوم سے میری ملاقات ان کے محل میں ہوئی۔ وہاں میردائود جان نے مجھے واقعہ سنایا کہ جب ان کے والد میر احمد یار خان ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ چین کے دورے پر گئے تو وہ یعنی میردائود جان بھی ہمراہ تھے۔ ملاقات کے دوران میر احمد یار خان نے چیئرمین مائوزے تنگ سے سوال کیا کہ آپ کے کوٹ پر کندھے کی جگہ سے پیوند کیوں لگا ہوا ہے؟ اور کوٹ اس قدر پرانا کیوں ہے؟ چیئرمین مائوزے تنگ نے جواب دیتے ہوئے کہا، میں نے تمہارے جنرل عمرؓ کی زندگی کو پڑھا ہے، ان کے انداز حکمرانی کے ساتھ ساتھ میں نے ان کی سادگی کو بھی اپنایا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی سادہ لباس پہنتے تھے اور پیوند لگا لیا کرتے تھے۔
صدر شی چن پنگ اپنے جس شہر یعنی بیجنگ سے آئے ہیں وہاں امن و امان کا یہ حال ہے کہ رات دو بجے بھی اکیلی خاتون کو لٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ بیجنگ کو دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ صدر شی کی اپنی شہرت یہ ہے کہ بدامنی اور کرپشن کے لئے ان کی برداشت زیرو ہے۔ ہمارا ملک پاکستان کہ جس کے زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل 15ارب ڈالر ہیں یعنی ہماری کل دولت جس پر پاکستان چل رہا ہے وہ 15ارب ڈالر ہیں جبکہ صدر شی چن پنگ ہمیں 45ارب ڈالر کے منصوبے دے گئے ہیں۔ اب ہمارا امتحان ہے کہ ہم ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ لگنے دیں، اس وقت چین عالمی سطح کے تین بینک بنا چکا ہے جو مستقبل میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں پسے ہوئے اور سودی شکنجوں میں جکڑے ہوئے غریب ملکوں کے چھڑانے کیلئے ہیں۔ چین کی پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم معاشی ٹائیگر بنتے ہوئے سودی شکنجوں سے بھی جان نہ چھڑا لیں۔
دنیا آج ایک اہم موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے، افغانستان میں امریکہ کا جو حال ہوا وہ اب پہلے جیسی قوت نہیں رہا۔ روس جو افغانستان کی جنگ کے بعد ٹوٹ بکھرا تھا، اب دوبارہ سنبھل چکا ہے اور ایک اہم ترین طاقت ہے۔ چین اور روس عالمی پالیسیوں میں یکساں نظر آتے ہیں تو روس اور پاکستان کے تعلقات بھی بہتر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان میں صدر شی چن پنگ کا دورہ جان بوجھ کر لیٹ اس لئے کیا گیا تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کا جو ماحول ہے اسے ختم کر دیا جائے اور پھر چین کے صدر دورہ کریں چنانچہ ضرب عضب کے تحت میاں نواز شریف کی حکومت اور جناب راحیل شریف کے ویژن اور زوردار کردار نے پاکستان کو امن کی شاہراہ پر لاکھڑا کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بلوچستان میں مداخلت کرنے والی طاقتوں کو وارننگ بھی دی ہے۔ یوں امن کی شاہراہ بنانے کے بعد چین کے صدر نے اقتصادی شاہراہوں کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ یہ حکمت سے بھرپورمنصوبہ ہے جس کے دریچوں سے پاکستان کے عوام کے لئے روشنی کے فانوس جگمگ کرتے نظر آتے ہیں جن کا خواب وہ ایک عرصے سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
جی ہاں! جہاں ہم اہل پاکستان پر چین کی فیاضیوں کے نظارے دنیا دیکھ رہی ہے وہیں ہماری ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جو دہشت گرد ہمارے چینی مہمانوں پر حملہ کرے۔ یہاں کے منصوبوں کو مکمل کرنے والے چینی انجینئرز وغیرہ پر بندوق اٹھائے، ایسے دہشت گرد کو کڑی سزا اس طرح دی جائے کہ سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ اہل پاکستان کو پتہ چلا کہ ان کے دشمن کو سخت سزا سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کی بحالی کا فیصلہ حکومت کو جلد حاصل کرنا چاہئے تاکہ مجرموں کوسزا ہو سکے اور چینی مہمانوں پر حملہ کرنے والوں کو بھی فی الفور لٹکانا چاہئے۔ ہم فیاضیاں ہی نہ دیکھتے رہیں، اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔
ہم سمجھتے ہیں دہشت گردی کروانے والی غیر ملکی طاقتیں جو منصوبے بنا چکی ہیں وہ افغانستان، پاکستان اور چین کو ڈسٹرب کرنے سے باز نہیں آئیں گی مگر اہل پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ دہشت گردی کی حامل سازشوں کو تینوں ملکوں میں ناکام بنایا جائے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ تینوں ملکوں کی حکومتیں اس وقت یکجا ہیں۔ مستقبل یہی نظر آ رہا ہے کہ مندرجہ بالا تینوں ملک اور چوتھا روس جو سب اسی علاقے کے ممالک ہیں، ایک ہو چکے ہیں تو دہشت گردی کا پھلنا پھولنا ناممکن ہو کر رہ جائے گا اور یوں دنیا کے لوگ مندرجہ بالا چار ملکوں میں اک نئی جگمگاتی پرامن دنیا دیکھیں گے جس کے ساتھ نتھی ہونے والے اور بھی بہت سارے ملک جگمگ کرتے دکھائی دیں گے۔ (انشاء اللہ)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں