"AHC" (space) message & send to 7575

امام کعبہ اور اکنامک کوریڈور

ڈاکٹر خالد الغامدی کعبہ کے امام ہیں۔ اسلام سے پہلے قریش کعبہ کے متولی تھے۔ اللہ نے ''قریش‘‘ کے نام سے قرآن میں ایک چھوٹی سی سورت نازل فرمائی اور قریش کو بتلایا کہ اللہ نے ان کے قلبی سکون کا بندوبست اس طرح کیا ہے کہ گرمیوں، سردیوں میں ان کے تجارتی قافلوں کا ایک اکنامک کوریڈور بنا دیا ہے لہٰذا اس نعمت پر قریش کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کعبہ کے رب کی عبادت کریں وہ رب کہ جس نے قریش کو تنگ دستی سے نکال کر معاشی خوشحالی دی اور بدامنی کے خوف کو ختم کر کے امن کی نعمت سے مالا مال فرمایا۔
آخر کار انہی قریش نے اسلام قبول کیا اور اللہ کے رسولؐ جو قریشی بھی ہیں اور ہاشمی بھی انہوں نے کعبہ کی تولیت قریش ہی کے پاس رہنے دی۔ حتیٰ کہ کعبہ کی چابی بھی آج تک اسی خاندان کے پاس ہے جس کے پاس اسلام سے قبل چابی ہوا کرتی تھی۔ ہم پاکستان کے لوگ قریش سے بھی بے حد محبت کرتے ہیں اور بنو ہاشم سے بھی اس لئے کہ ہمارے پیارے حضور محمد کریمﷺ قریشی بھی تھے اور ہاشمی بھی۔ تو ہمارے دلوں میں کھلی محبت کی کلیاں بہاریں کیوں نہ دکھلائیں کہ پاک سرزمین پر آج کے قریشیوں‘ ہاشمیوں اور دنیا بھر کے مسلم سلاطین کے امام تشریف لے آئے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے اماموں کو پاکستان میں بلانے اور عزت افزائیوں کی طرح ڈالنے کا کام مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا۔
لاہور کے مقامی ہوٹل میں ''حرمین شریفین‘‘ کے حوالے سے مرکزی جمعیت اہل حدیث نے امام کعبہ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کر رکھا تھا۔ میں اسٹیج پر امام کعبہ کے پیچھے بیٹھا تھا۔ امام صاحب کے ساتھ والی کرسی خالی ہوئی تو انتظامی کمیٹی کے روح رواں رانا نصر اللہ صاحب نے مجھے قریبی کرسی پر بٹھا دیا۔ امام صاحب نے اپنا روئے سخن میری طرف کیا تو میں نے ان سے مصافحہ بھی کیا اور عربی زبان میں چند جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ امام موصوف نے اپنے خطاب میں پروفیسر ساجد میر کی جماعت کے بارے میں جہاں تعریفی جملے ارشاد فرمائے وہیں پروفیسر ساجد میر صاحب کو دو بار روحانی باپ کہہ کر مخاطب کیا۔ پروفیسر صاحب کے لئے یقینا یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ امام کعبہ انہیں اس قدر محبت، اپنائیت اور احترام دے رہے تھے۔ حافظ عبدالکریم ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث نے اسٹیج پر تمام مسالک کی نمائندگی کا بھی انتہائی خوش آئند انتظام کر رکھا تھا۔ اعجاز ہاشمی صاحب، قاری زوار بہادر اور جامعہ نعیمیہ کے مفتی بھی یہاں موجود تھے۔ مولانا حسین اکبر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحیم، قاری حنیف جالندھری، مولانا امجد خان، قاری محمد یعقوب شیخ، طاہر اشرفی اور جناب لیاقت بلوچ تو تھے ہی، حکمران جماعت کے خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی بھی تھے۔ اسی طرح امام کعبہ نے اسلام پھیلانے کے حوالے سے جہاں علماء کا ذکر کیا وہیں اولیاء کا بھی تذکرہ فرمایا۔ چاروں آئمہ اور ان کے مسالک کے علمبرداروں کی اسلام کے لئے جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔ فرقہ واریت سے بچنے اور امت واحدہ بننے کا وعظ فرمایا۔ الغرض! امام کعبہ نے اپنے خطاب میں بالکل اسی طرح سب مسلمانوں کو یک جہت رکھا جس طرح سارے مسلمان حرم مکی میں یک جہت ہو کر امام کعبہ کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔ وہ ایک ہفتہ ہمارے یہاں رہے مگر اتحاد امت کی حسین یادیں چھوڑ کر گئے۔
کعبہ ہماری روحانی راہداری بھی ہے اور معاشی کوریڈور بھی۔ ہم جو عمرہ اور حج کرنے جاتے ہیں تو اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں، ساتھ ہی قرآن ہمیں چھوٹی موٹی کمائی سے بھی منع نہیں کرتا اور اسے اللہ کے فضل کی تلاش قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے وہاں جانے سے سعودی عرب کو معاشی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور وہ معاشی فوائد کو حرمین کے زائرین کی سہولت پر خرچ کر کے روحانی اور معاشی دونوں فوائد حاصل کرتے ہیںبلکہ اپنے پاس سے مزید کروڑوں ریال خرچ کرتے ہیں... مزید برآں! ہمارے پاکستان کے 25 لاکھ لوگ جو سعودیہ میں کام کرتے ہیں اگر ہر شخص کا رابطہ خاندان کے آٹھ
افراد سے جوڑا جائے تو یہ تعدا دو دو کروڑ بنتی ہے، یعنی پاکستان کے کم از کم دو کروڑ لوگ کعبہ کی سرزمین سے وابستہ ہو کر معاشی راہداری سے رزق حاصل کر رہے ہیں۔ الغرض! ہم پاکستانی لوگ روحانی اور معاشی اعتبار سے حرمین کی سرزمین کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ بندھن انتہائی مبارک بندھن ہے۔ اس میں جو لوگ دراڑ محسوس کر رہے تھے، انہیں بھی معلوم ہو گیا ہے کہ ہمارے شریفین یعنی میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف جو حرمین کے خادم شاہ سلمان کے پاس تشریف لے گئے ہیں اور وہاں سے وزراء اور امام کعبہ یہاں تشریف لائے ہیں تو اس سے دراڑ کوئی نہیں پڑی بلکہ بندھن کو مزید مضبوط کر لیا گیا ہے۔
جناب آصف علی زرداری صرف زرداری نہیں، بلکہ زیرک بھی ہیں۔ پارلیمنٹ کی قرار داد کے بعد وہ فوراً سعودی عرب کے سفارت خانے چلے گئے اور وہاں سعودی سفیر محمد جاسم الخالدی سے ملاقات کی اور کھل کر سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ چین کے معاملے میں بھی ان کے اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ نے اکنامک کوریڈور کو کالا باغ ڈیم سے تشبیہ دے کر ایک ابہام پیدا کیا تھا جناب آصف علی زرداری نے حالات بھانپتے ہوئے فوراً بیان دیا کہ پاک چین سرمایہ کاری منصوبے ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ جناب آصف علی زرداری جن کے سر پر زرداری قبیلے کی سرداری کی تاجداری بھی ہے جلد ہی
سمجھ گئے کہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تو وہ شخصیت تھے جو سعودی عرب اور چین کے ساتھ پاکستان کی دوستیوں کے معمار تھے۔ اب بھٹو کا جانشین کنارے پر چلے گا تو خسارہ اٹھائے گا۔ عمران خان البتہ وہ شخصیت ہیں جو چین کے ساتھ معاشی کوریڈور کے معاملے میں خاموش ہیں اور پرجوش نہیں ہیں تو سعودی عرب کے بارے میں پارلیمنٹ کے اندر غیر جانبدار رہنے کے الفاظ شامل کرانے کے ذمہ دار ہیں اور میاں شہباز شریف بھی اب اس معاملے میں عمران خان ہی کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کو خارجہ معاملات، خاص طور پر سعودی عرب اور چین کے معاملے میں اپنی جماعت کی خصوصی شخصیات خورشید محمود قصوری، شاہ محمود قریشی سے مشورہ کر کے آگے بڑھنا چاہئے کہ ان دونوں ملکوں کے معاملے میں ہوشیار باش رہنا ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہم روحانی اور معاشی کوریڈور کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں تو چین کے ساتھ ہمسائیگی اور معاشی کوریڈور کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان بندھنوں کے ساتھ جس سیاستدان کا کردار ڈھیلا نظر آئے گا، اس کی حکمرانی کا بندھن اسی قدر ڈھیلا پڑنا شروع ہو جائے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہر پاکستانی کے رگ و ریشے میں اتری ہوئی ہے لہٰذا سیاستدانوں کیلئے اس رگ و ریشہ کا خیال رکھنا عوامی نبض پر انگلیاں رکھنا ہے۔ اہل پاکستان کو مبارک ہو کہ دونوں کوریڈور ہمارے لئے نہ صرف کھلے ہوئے ہیں بلکہ اچھے مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔ امام کعبہ کا دورہ بھی اسی نوید کا پیغام ہے جس میں تسلسل اور استحکام ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں