روس جیسی سپرپاور بھی افغانستان میں بارہ سالہ شدید جنگ کو برداشت نہ کر سکی اور بالآخر اسے یہ قیمت ادا کرنا پڑی کہ اس کے وجود سے پندرہ ٹکڑے الگ ہو کر نئے ملکوں کے نام سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئے۔ امریکہ اور یورپ اس لحاظ سے قدرے سمجھدار ثابت ہوئے کہ انہوں نے عراق جنگ سے جلد جان چھڑا لی اور وہاں ایران کے ہم مسلک لوگوں کو حکومت دے کر ایران کو مداخلت کا موقع فراہم کر دیا۔ ایران بڑا خوش ہوا کہ عراق عملاً اس کے ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ عراقی حکومت میں شامل امریکہ نواز حکمرانوں نے اہل سنت کو دیوار سے لگا دیا اور ظلم بھی ڈھا دیے۔ اب ردعمل میں امریکہ ہی کی پشت پناہی سے داعش کو کھڑا کر دیا گیا اور یوں اب عراقی حکومت ایران کی پشت پناہی سے داعش کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ داعش روز بروز قوت پکڑتی جا رہی ہے، ایران داعش کی کامیابی کا متحمل نہیں۔ یوں ایران یہ جنگ اعلان کیے بغیر بھرپور طریقے سے لڑ رہا ہے۔
ایران جس دوسرے محاذ پر اعلان کیے بغیر برسرپیکار ہے وہ شام کا محاذ ہے۔ حزب اللہ کے حسن نصراللہ یہاں برسرپیکار ہیں تو وہ بھی ایران کے اسلحہ اور پیسے سے برسرپیکار ہیں اوراب تیسرا محاذِ جنگ یمن میں حوثیوں کی پشت پناہی سے کھل چکا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کی مشترکہ طاقت ہے جو برسر پیکار ہے۔ یوں ایران کئی سال سے عراق اور شام کے محاذ پر اور اب یمن کے محاذ میں کودنے کے بعد تین محاذوں پر لڑ رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیا ایران اتنی بڑی قوت ہے جو روس اور امریکہ سے بھی زیادہ طاقت رکھتی ہے کہ تین محاذوں پر بیک وقت برسرپیکار ہے؛ حالانکہ اس کی معاشی حالت مسلسل عالمی پابندیوں کا شکار ہے۔ اتنی پابندیوں کے باوجود مسلسل تین جنگیں لڑنے کے اثرات یقینا ایران کی اندرونی حالت پر پڑیں گے اور اگر اندرونی بے چینی نے سر اٹھا لیا تو ایران کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران جب مسلسل عربوں کے گرد گھیرا ڈال رہا ہے، وہاں جنگ کی جا رہی ہے، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایران کے علاقے بلوچستان، سیستان اور خوزستان و کردستان کی سنی آبادی سکون اور چین سے زندگی گزارتی رہے، یقیناً محرومیاں بھی ہیں ؛ زبان، مسلک اور ثقافت کے اختلافات بھی ہیں، تو کیا ایران اس قدر طاقتور ہے کہ اسے اپنے اندر کسی بے چینی کا کوئی خطرہ نہیں ہے؟
قارئین کرام ! جب ہم نے عالمی ذرائع ابلاغ کے حقائق کو دیکھا تو ایران کے اندر کی صورت حال انتہائی بھیانک شکل میں ہمارے سامنے آئی۔ ایران کے صدر جناب حسن روحانی کے مشیراعلیٰ جناب اکبر تورکن انکشاف کرتے ہیں کہ ایران کی حکومت نے ایران کے مختلف قومی اداروں سے80 ارب ڈالر سے زائد لے کر مختلف اداروں کو قرضے دیے ہیں۔ ان کی واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ ان اداروں میں ''مسکن مہر‘‘ جیسے تعمیراتی پراجیکٹ بھی ہیں جو ایران میں متنازعہ پراجیکٹ ہیں۔ ایرانی بنکوں کی صورت حال پر جب راقم نے غور کیا تو بڑی حیرانی ہوئی کہ وہاں کے بنک 32 فیصد شرح سود پر قرضے حاصل کرتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے انبار لگتے جا رہے ہیں اور ادائیگی نہیں ہو پا رہی۔ ''مؤسّسات اعتباری‘‘ کے نام سے نجی ادارے یا پرائیویٹ بنک بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کے پیچھے ملکیت ایران کی مذہبی اشرافیہ کی ہے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق 900 کی تعداد میں یہ اعتباری بنک ناقابل اعتبار ہو چکے ہیں۔
ایران کی تباہ حال معاشی حالت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ ایران کی اشرافیہ کے پاس غیر ملکی کرنسی اور سونے کی مالیت 21 ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ ایران کے سنٹرل بنک میں جو ذخائر ہیں وہ صرف چار ارب ڈالر ہیں۔ اسی سنٹرل بنک کی جانب سے جو لسٹ جاری ہوئی ہے اس میں مذہبی اشرافیہ اور ان کی نگرانی میں سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے 575 افراد ایرانی عوام کے 9 ارب ڈالر ہڑپ کر چکے ہیں۔ صورت حال اس وقت اور گمبھیر ہو جاتی ہے جب ایران کے سپریم لیڈر جو انتہائی پاکیزہ شخصیت شمار ہوتے ہیں ، ان کے بارے میں امریکی میگزین نے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی جائداد کے اثاثے بتلائے تو جناب علی خامنہ ای کے اکائونٹ میں 36 ارب ڈالر کی رقم بتلائی۔ یہ خبر دنیا میں پھیلی تو ایرانی حکومت نے دفاع کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ وہ رقم ہے جو صدام کے خلاف لڑائی میں شہداء کے وارثوں، بیوائوں اور یتیموں کی ہے۔ اس اعتراف کے بعد سوال یہ کھڑا ہوگیا کہ اتنی بڑی رقم اب تک خرچ کیوں نہ ہو سکی اور یہ کہ جناب علی خامنہ ای صاحب کے ذاتی اکائونٹ میں کیوں پڑی ہے؟ لامحالہ اس سوال کا جواب ابھی تک تونہیں آ سکا، شاید کچھ عرصے بعد وضاحت آ جائے۔
سمگلنگ کی صورت حال یہ ہے کہ مارچ 2013ء سے لے کر مارچ 2014ء تک 25 ارب ڈالر تک کی سمگلنگ ہوئی جس سے ملک کی مقامی پیداوار تباہ ہو گئی۔ ایران کا صنعتی مال مقابلے کی دنیا میں پہلے ہی ناکام ہے ، پابندیوں نے مزید تباہ حال کر رکھا ہے۔ اب ان کے تجارتی لوگوں کا جو کاروبار خلیج کے ملکوں میں تھا، یمن کی صورت حال کے بعد وہ بھی تباہی سے دوچار ہے۔ یوں ہر جانب بدحالی کے ڈیرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایرانی اساتذہ کی تنخواہوں اور احتجاج سے ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے۔ ایرانی استاد کی اوسط تنخواہ تخمیناً 22 ہزار پاکستانی روپے کے برابر ہے جبکہ مہنگائی آسمان کو چھوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران کے کل ایک لاکھ 5 ہزار اساتذہ و سکول ملازمین سڑکوں پر نکل آئے، 6 ہزار اساتذہ نے تہران میں مظاہرہ کیا۔
امریکہ نے ایران سے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں جو گفتگو شروع کر رکھی ہے، ایران کو اس سے بڑی امید ہے کہ پابندیاں ہٹ جائیں گی تو وہ کھل کر تجارت بھی کر سکے گا اور اپنی جنگیں بھی جاری رکھ سکے گا۔ ایران کے120ارب ڈالر جو انقلاب کے وقت سے امریکہ نے منجمد کر رکھے ہیں، ان میں سے کوئی 25 ارب ڈالر امریکہ نے دے بھی دیے ہیں۔ انہی 25 ارب ڈالروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے یمن میں اسلحہ پھونکنا شروع کر دیا اور حوثیوں کی مدد تیز کر دی۔ ایرانی عوام بھی پابندیاں ختم ہونے کا انتظار کرتے کرتے اکتا گئے ہیں۔ جب صدر روحانی جنیوا میں دستخط کر کے حال ہی میں واپس آئے تو اسی امید پر لاکھوں ایرانیوں نے ان کا استقبال کیا مگر آزمائش لمبی لگ رہی ہے۔
ایران کے بانی انقلاب امام خمینی جنہوںنے انتہائی سادہ زندگی گزاری، ان کے بیٹے احمد خمینی فوت ہو چکے ہیں۔ اب ان کے پوتے حسن خمینی جو اپنے دادا کے دربار کے گدی نشین ہیں، اس وقت علی خامنہ ای اور دیگرصاحب اقتدار شیعہ علماء کے سخت ناقد ہیں۔ بہت سے لوگ شاہ کے دور کی باتیں کر رہے ہیں، سنی علاقوں کے لوگ بھی دبائو سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ امریکہ نے کردستان بنانے کا جو مسئلہ چلا رکھا ہے، عراقی کردوں کو اندرونی خودمختاری بھی مل چکی ہے۔ شام بھی عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ امریکہ ایران کو اپنے دام میں پھنسا کر یہاں بھی فساد مچائے گا اور یوں یہاں کے کرد بھی اشارے پر اٹھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یوں ایرانی علماء عرب علاقوں میں مسلکی آگ بھڑکاتے بھڑکاتے اپنے اندر اس آگ کو نہ روک سکیں گے۔ امریکہ کی ساری چالیں اسی لمحہ کو قریب لانے کے لیے ہیں۔ اب ہماری دانست میں ایران کے لیے دو ہی راستے ہیں۔۔۔۔۔ یا تو عالم عرب سے صلح کی جائے، یمن اور باقی علاقوں میں مداخلت بند کی جائے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے عدم مداخلت کی بنیاد پر صلح اور امن کا جو پیغام دیا اسے قبول کیا جائے۔ اور دوسرا راستہ وہی ہے جس پر ایران چل رہا ہے۔ اس کا نتیجہ بڑا ہی واضح ہے کہ اگر روس اور امریکہ جیسی طاقتیں ہمت کھو بیٹھیں تو ایران کب تک اپنے آپ کو بچا کر رکھے گا۔ تاریخ کا سبق اور ایران کے اندرونی حالات بہرحال بتلا یہی رہے ہیں کہ ایران بھی تاریخ کی فطری اور بھیانک قیمت کی ادائیگی سے بچ نہ سکے گا۔