"AHC" (space) message & send to 7575

روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ اور مسئلے کا حل!

کراچی میں برما (اب میانمار)کے روہنگیا مسلمان کافی تعداد میں آباد ہیں، حتیٰ کہ کراچی میں ان کی آبادی ''برما کالونی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آج سے 20 سال قبل میری اسی ''برما کالونی‘‘ میں ان مظلوم مسلمانوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے جو مظالم سنائے انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ؛ چنانچہ میں ''برما کالونی‘‘ سے نکلا تو بنگلہ دیش پہنچ گیا۔ ڈھاکہ میں میرے میزبان روہنگیا مہاجر مسلمان تھے۔ میں ان کے ہمراہ چٹاگانگ میں روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میںگیا۔ کاکسس بازار اور ٹیکناف خلیج بنگال کے ساحلی شہر ہیں۔ دریائے ناف جو بنگلہ دیش اور روہنگیا مسلمانوں کے علاقے ''اراکان‘‘ کے درمیان سرحد بناتا ہوا خلیج بنگال میںگرتا ہے، وہاں بھی روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میںگیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آٹھ فٹ چوڑے اور بارہ فٹ لمبے کپڑے کے خیموں میں ایک خاندان گزارہ کر رہا تھا اور ان خاندانوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
برما کی فوج اور پولیس کے مظالم سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مہذب دنیا کہاں سوئی ہوئی ہے جسے ان مظلوموں کی کوئی خبر ہی نہیں ۔ میں نے جب روہنگیا مسلمانوں کے علاقے ''اراکان‘‘ کا تاریخی اور جغرافیائی جائزہ لیا تو مجھے بنگلہ دیش کے پہلو میں ایک اور مقبوضہ کشمیر دکھائی دیا جو برما کامقبوضہ ہے اور روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت کا حامل علاقہ ہے۔ اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ اسے سیکڑوں کلومیٹر لمبا ساحل لگتا ہے۔ سمندری پانی نے اندر آ کر چھوٹی چھوٹی خلیجیں اورکھاڑیاں بنا رکھی ہیں۔ پیچھے کی طرف سے ایک لمبا پہاڑی سلسلہ ہے جس پر گھنے جنگلات ہیں اور یوں اس پہاڑی سلسلے نے اراکان کو برما سے کاٹ رکھا ہے۔ اراکان کا بنگلہ دیش کے ساتھ زمینی رابطہ بھی ہے اور ساحلی علاقہ بھی ملتا ہے جبکہ برما کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے برما ان مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں یہاں سے بے دخل کر دینا چاہتا ہے۔ انڈیا اپنی شمال مشرقی ریاستوں سے گزر کر اراکان کے راستے ایک اقتصادی کوریڈور بنا کر مشرق بعید کے ملکوں سے تجارت کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ بھی یہاں کے مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی سازش میں انڈیا بھی پوری طرح شامل ہے۔
میں نے دریا اور بے پناہ گھنے جنگل کو عبور کر کے اراکان کے اندر جا کر بھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا اور جغرافیائی صورت حال کو بھی بغور اور بنظر عمیق دیکھا... آج 20 سال بعد پھر ان مظلوموں کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ وہ آگ اور قتل عام سے بھاگتے ہوئے بنگلہ دیش آتے ہیں تو انہیں وہاں بھی پناہ نہیں ملتی اس لیے کہ شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی کا تعلق بڑا گہرا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اور مشرق بعید کے ساحلوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا وہاں اراکان میں سمندری کھاڑیاں اور خلیجیں دور تک اندر آ گئی ہیں ، پانچ دریا بھی ہیں جو اراکان میں سے گزرکر سمندر میں گرتے ہیں ، اس لیے لوگ دیہات میں جانے اور کھیتی باڑی کرنے کے لیے کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ یوں ہر گھر میں کشتی ضرور ہوتی ہے، یہ کشتی ان کھاڑیوں اور دریائوں کے لیے ہے ، کھلے سمندر کے لیے نہیں ہے، مگر یہ مظلوم آگ کے سمندر سے بھاگتے ہوئے پانی کے سمندر میں کود پڑتے ہیں، کچھ ڈوب جاتے ہیں اور جو ساحلوں پر پہنچ پاتے ہیں انہیں واپس دھکیل دیا جاتا ہے ، کہیں پناہ بھی مل جاتی ہے۔ میڈیا پر جب یہ خبریں عام ہوئیں تو دنیا میں ایک شور مچا۔ صدراوباما نے بھی آواز بلند کی ہے، صدر طیب اردوان اور ہماری پاکستان کی حکومت نے بھی ان مظلوموں کے لیے کمیٹی بنا دی ہے جس کے سربراہ وفاقی وزیر داخلہ جناب چودھری نثار ہیں جو ایک درد دل رکھنے اور انسانیت سے محبت کرنے والے آدمی ہیں۔ پاکستان سے دینی اور سیاسی جماعتیں بھی آواز اٹھا رہی ہیں جو خوش آئند ہے اور انسانیت دوستی کا تقاضا بہرحال یہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کیسے کی جائے کہ وہ موجودہ مشکلات سے نکل کر امن و سکون کی زندگی گزار سکیں؟ اس کے لیے ایک تجویز تو یہ ہے کہ 57 مسلمان ملکوں میں سے چند مسلمان ممالک روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد کر لیں۔ پھر ان میں سے بھی وہ مسلمان ملک جو آس پاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان کو گلے لگا لیں۔ ان میں سرفہرست بنگلہ دیش ہے جو پہلے ہی مہاجروں کو اپنے ہاں بسائے ہوئے ہے۔ پاکستان میں بھی یہ لوگ موجود ہیں، مزید قبول کیے جا سکتے ہیں۔ ملائشیا اور انڈونیشیا میں جا سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ دونوں ملکوں میں اس وقت روہنگیا مسلمانوں کو پناہ بھی دی گئی ہے۔ سعودی عرب نے بھی عرصہ پہلے برما کے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔
ایک دوسری تجویز بھی ہے اور وہ یہ کہ اراکان اور برما کے دیگر علاقوں کے مسلمان جنہیں جنرل نی ون نے 1962ء میں برما کی شہریت سے محروم کر دیا تھا، انہیں برما کی شہریت دلائی جائے۔ عالمی برادری یو این کے ذریعے اس عمل کو یقینی بنائے اور جس قدر بھی روہنگیا مسلمان دوسرے ملکوں میں مہاجر ہیں وہ باعزت طریقے سے واپس لوٹیں اور اپنے ملک میں ایک باوقار شہری کے حقوق لے کر زندگی گزاریں۔ جس انداز سے ان مظلوموں کی داستان دنیا کے سامنے آئی ہے، اس پر برما کی حکومت کومجبورکیا جا سکتا ہے۔ برما کی مضبوط اپوزیشن رہنما آنگ سانگ سوچی جو اپنے ملک کے مظلوموں پر آواز اٹھانے سے ہچکچاتی ہیں، ان کو بھی دنیا باور کروائے کہ امن کا نوبل انعام واپس لیا جا سکتا ہے کیونکہ جب وہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے حقوق پر خاموش ہے تو نوبل پرائز یافتہ ہونے کا کیا مطلب؟ یہ تو نوبل پرائز کی توہین اور اہانت ہے۔
تیسری تجویز یہ ہے کہ روہنگیا کے مسلمان ''اراکان‘‘ میں صدیوں سے آباد ہیں، یہاں ان کی آزاد حکومت بھی قائم رہی ہے، برطانیہ جو برصغیر کے ساتھ ساتھ برما پر بھی قابض تھا، اس سے اراکان کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزادی کا حق مانگا تھا۔ انگریز نے ان کے حق کو مانا تھا لیکن حق دیا نہیں، اس لیے روہنگیا مسلمانوں کی محرومی کا ذمہ دار برطانیہ بھی ہے۔ برطانیہ اب اس لحاظ سے ایک کردار ادا کر سکتا ہے کہ آسٹریلیا پر علامتی حکومت ملکہ برطانیہ کی ہے ، لہٰذا اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو آسٹریلیا میں آباد کر دیا جائے۔ یو این کے تحت فنڈ قائم کر کے انسانیت کی بھلائی کے اس عمل کو فوری کیا جائے۔ آسٹریلیا ویسے بھی مشرق بعید میں ہی واقع ایک براعظم ہے۔ وہاں دس لاکھ لوگوں کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
میری چوتھی اور آخری تجویز یہ ہے کہ جس طرح مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان، بوسنیا اور کوسووا کے لوگوں کو دنیا میں بسانے کے بجائے ان کے اپنے علاقے میں ان کو آزادی دے دی گئی اسی طرح اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو ان کے علاقے میں آزادی دے دی جائے۔ روہنگیا کے مسلمانوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا آزاد اراکان چاہتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کے مسلمانوں کو بھی حق خود ارادیت دے دیا جائے تو جنرل راحیل شریف کے بیان کے مطابق برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا مکمل ہو جائے گا اور یہ پورا خطہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں جنوبی ایشیا میں امن کی پائیداری کے لیے اور خطے کے لوگوں کی خوشحالی کے لیے ایسا کرنا صرف خطے ہی کے نہیں دنیا کے مفاد میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں