روس جو کبھی "USSR" ہوا کرتا تھا‘ اس نے بھارت کا ساتھ دے کر 1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔ اسی پاکستان کی پشت پر آدھی سے زیادہ دنیا کھڑی ہوئی اور 1991ء میں یعنی 20سال میں "USSR" دنیا کے نقشے سے غائب ہو گیا۔ 15ٹکڑے اس سے الگ ہو گئے اور دنیا کے نقشے پر موجودہ روس نمودار ہوا۔ ٹھیک انہی دنوں راقم ماسکو کے ریڈ سکوائر میں کھڑا تھا، کریملن کے سامنے وہی تاریخی میدان جہاں 2015ء میں جنرل راحیل شریف کھڑے تھے مگر آج دنیا کس قدر تبدیل ہو چکی ہے۔ خود روس کس قدر بدل گیا کہ "USSR" میں اللہ کا نام لینا بہت بڑا جرم تھا مگر آج کے روس میں جب جنرل راحیل شریف کو ریڈسکوائر میں گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا تھا تو پاکستان کا ترانہ بھی پڑھا جا رہا تھا۔ جب آخری جملہ ''سایہ خدائے ذوالجلال‘‘ ریڈ سکوائر کی فضائوں میں گونجا تو عجب نظارہ تھا۔ صدر پوٹن کی قیادت میں جدید روس اب اللہ کو ماننے والا ہے اور دونوں ملک روس اور پاکستان جو ایک دوسرے کو توڑنے والے تھے‘ آج ایک دوسرے کو جوڑنے والے بن کر کھڑے ہیں۔ ایک دوسرے سے اسلحہ کی پابندیاں ہٹانے والے بن گئے ہیں۔ باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے والے بن گئے ہیں۔ خطے میں ''شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ جس کے روح و رواں روس اور چین ہیں، پاکستان کو اس کی مکمل ممبرشپ دینے میں کردار ادا کرنے والے بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی روس میں موجودگی کے دوران یہ طے ہو چکا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف عنقریب روس جائیں گے اور ماسکو میں رکنیت کی دستاویز پر دستخط کریں گے۔ جولائی کے شروع میں روس کے شہر ''یُوفا‘‘ میں تنظیم کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے اس میں وہ شرکت بھی کریں گے یوں چین کے ساتھ ساتھ روس بھی پاکستان کے علاقائی دوستوں میں سرفہرست سامنے آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی حکومت نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔
انہی دنوں جب جنرل راحیل شریف ماسکو میں تھے تو پاکستان میں عدم استحکام اور دہشت گردی کی علامتوں کو جس طرح ''ضرب عضب‘‘ کے ہتھیار سے جڑ سے اکھیڑا جا رہا ہے، اس کی زد میں آنے پر سابق صدر آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا۔ اپنے دوستوں کو مدد کے لئے بلانے کا آغاز کیا تو صاف نظر آ رہا تھا کہ خطے کی بدلتی صورتحال میں اس آواز کو کوئی نہ سنے گا اور پھر وہی ہوا، خود زرداری صاحب کو کہنا پڑا کہ میری آواز بھی سابق ہو چکی، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ امریکہ اب پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والی سیاسی اور مذہبی طاقتوں کی پشت پناہی کے قابل نہیں رہا جبکہ روس اور چین، پاکستان کے استحکام کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ اس لئے کھڑے ہیں کہ ان کا مفاد اسی میں ہے۔
جن دنوں جنرل راحیل شریف روس میں تھے انہی دنوں سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بھی روس کے پرانے دارالحکومت ''سینٹ پیٹرز برگ‘‘ میں صدر پوٹن سے ملاقات کر رہے تھے۔ شہزادہ محمد کا یہاں آنا اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ موجودہ بادشاہ شاہ سلمان کے بیٹے ہیں۔ غور فرمایئے! کل تک شام کے معاملے میں روس جو سعودی عرب پر حملے کی دھمکی دے رہا تھا‘ اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اور روس ایٹمی ٹیکنالوجی پر مختلف شعبوں میں باہم تعاون کے سمجھوتے کر رہے ہیں‘ یمن کی صورتحال پر اتفاق کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی میں پاکستان کے کردار کو کسی طور پر بھی دنیا نظرانداز نہ کر سکے گی۔ پاکستان کا پڑوسی ایران جو روس اور چین سے اچھے تعلقات رکھتا ہے‘ وہ پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی درخواست دے چکا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جنوبی ایشیا ہی نہیں، مشرق وسطیٰ کے حالات میں بھی پاکستان ایک اہم کردار ادا کرنے والا ملک بنتا جا رہا ہے لہٰذا پاکستان میں اب علاقائیت کے نام پر کارڈ کھیلنے کی گنجائش ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ خاندانی شخصیات کے نام پر اور شہادتوں اور قربانیوں کے نام پر ذاتی مفادات کو آگے بڑھانے اور بلیک میل کرنے کی گنجائش اپنے اختتام کو پہنچتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کے سیاسی و مذہبی سیاستدان اس حقیقت کو بھانپنے میں دیر کر چکے تھے وگرنہ وہ اپنے آپ کو حقیقت کے مطابق ڈھال لیتے لیکن اب انہیں اپنے آپ کو بہرحال ڈھالنا ہو گا اگر وہ وقت کی رفتار کے مطابق ایسا نہ کر سکے تو زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ اس لئے کہ خطے کے حالات میں ان کی روایتی سوچ اور سیاست کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
روس جو اس وقت دوبارہ ایک عالمی طاقت ہے، چین اس کے ساتھ اس طرح جڑائو پیدا کر رہا ہے کہ سڑک اور ریل کو کاشغر سے سابق روسی ریاستوں سے گزار کر روس کے ذریعے یورپ تک وسیع کر رہا ہے۔ اس کوریڈور کا استعمال شروع بھی ہو چکا ہے۔ روس اپنے سمندر بحیرئہ خزر (Caspian Sea)کے ذریعہ ایران سے پہلے ہی ملا ہوا ہے۔ خشکی کے راستے وہ ترکمانستان سے ہو کر ایران کے مشہد سے بھی ملا ہوا ہے۔ افغانستان کے راستے سے بھی وہ گوادر سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اٹھائے گا... جہاں تک چین کی صورتحال کا تعلق ہے، اس کا دارالحکومت بیجنگ جنوبی چین میں ہے۔ یہاں اس کے جنوبی سمندر میں جسے ''جنوبی بحیرہ چین‘‘ کہا جاتا ہے‘ وہاں کے امریکہ نواز ممالک مصنوعی جزیرے بناتے چلے آ رہے ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے چین اسے اپنی ملکیت قرار دیتا ہے چنانچہ اس نے
پچھلے اٹھارہ مہینوں میں یہاں سب سے زیادہ اور بڑے مصنوعی جزیرے بنا دیئے ہیں اور اپنی حاکمیت پر امریکہ کے احتجاج پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس جنوبی چین سے آگے بڑھ کر جب وہ آئے گا تو ملاکا کی پٹی سے نہر سویز کی طرح وہ نہر بنا کر اپنے سمندری سفر کو کم کر چکا ہو گا اور آگے سری لنکا میں بھی وہ بندرگاہ بنا چکا ہے۔ ہمبنٹوٹا شہر مجھے دیکھنے کا موقع سونامی کے بعد ملا۔ اب یہاں چین کی بندرگاہ بن چکی ہے۔ مالدیپ میں ''مارائو‘‘ اور میانمار میں ''کیائو کپائو‘‘ کے مقام پر بھی بندرگاہیں بن چکی ہیں۔ آگے پھر وہ گوادر کے ساتھ اس لڑی کو مکمل کر چکا ہے۔
گوادر سے آگے عدن کی بندرگاہ سے ہو کر تجارتی راستہ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور نہر سویز سے گزر کر شام اور یورپ سے ملے گا۔ یوں یمن میں بھڑکائی ہوئی آگ بھی زیادہ دیر تک باقی نہ رہ سکے گی اس لئے کہ خطے کے ملکوں کا مفاد اسی میں ہے۔ اسی مفاد کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں امن ہو، لہٰذا انڈیا کو بھی من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔ اور وہ لوگ جو امریکہ اور انڈیا کے کارڈ پاکستان میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں ان کے لئے فضا ناسازگار ہو چکی ہے لہٰذا میں ایک بار پھر کارڈ کھیلنے والوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے اپنے کارڈ کھیلنے سے رک جائیں، اپنی اصلاح کر لیں وگرنہ نظر یہ آ رہا ہے کہ مستقبل کے پاکستان میں ایسے لوگوں اور لیڈروں کا اب کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ان کی سوچ اور طرز سیاست کی گنجائش تنگ ہو چکی ہے۔ عنقریب یہ گنجائش اپنی موت مر جانے والی ہے اور پاکستان ایک مضبوط، توانا اور خوشحال پاکستان بن کر ابھرنے جا رہا ہے۔ (ان شاء اللہ)