پاکستان کا موسم آج کل گرم ہے تو دوسری طرف سیاست کا موسم بھی کافی گرم ہو چکا ہے۔ گرم موسم میں وہ دن انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں جب حبس اور گھٹن ہو جاتی ہے، کہیں سے ہوا کا جھونکا آنے کا نام نہیں لیتا۔ تب کیا ہوتا ہے، جیسی گھٹن ہو ویسا طوفان آتا ہے۔ جس قدر گھٹن اور حبس زیادہ ہو گا اسی قدر طوفان اور آندھی زوردار ہو گی۔ ہوائیں اس قدر تیز چلتی ہیں کہ گھٹن کا وجود ختم ہو جاتا ہے، البتہ اس دوران نقصان بھی ہوتا ہے۔ زنگ آلود اور کمزور کھمبے گر جاتے ہیں۔ پرانے اور بوڑھے درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں۔ جو درخت ذرا مضبوط ہوں مگر ان کے ٹہنے بہت بڑھ چکے ہوں وہ ٹوٹ گرتے ہیں۔ کئی کئی منزلہ بوسیدہ مکان‘ جو اپنے مکینوں کو جدی پشتی رہائش فراہم کرتے ہیں، گر جاتے ہیں... ساتھ ہی بارش شروع ہو جاتی ہے، ندی نالے بہہ نکلتے ہیں، زمین صاف ہو جاتی ہے، کھیتوں میں فصلیں بہار دینا شروع کر دیتی ہیں، ہوا کے جھونکے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور زندگی پرسکون۔
رمضان کے مہینے میں سیاست کا موسم بھی کافی گرم ہوتا جا رہا ہے، حبس اور گھٹن بڑھتے جا رہے ہیں، گھٹن کو ختم کرنے کے لئے 58-2B کا روشندان ایوان صدر کی طرف کھلتا تھا جس کے تحت صدر مملکت حکومت کو ختم کرکے، نئے الیکشن کا اعلان کر دیتا تھا مگر سیاستدانوں نے اس روشندان کو بند کر دیا۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ وہ گھٹن پیدا نہ ہونے دیتے مگر اس میں وہ ناکام ہو گئے ہیں؛ چنانچہ گھٹن اس قدر بڑھ گئی ہے کہ طوفان کی آمد کو سب محسوس کر رہے ہیں۔ رمضان کریم قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے۔ ہمیں غور سے سننے کی فرصت ملے تو قرآن ہر انسان اور خاص طور پر حکمرانوں کو بول بول کر پیغام دے رہا ہے: ''جو شے (نظام اور عمل) انسانوں کو فائدہ دے گی وہی زمین پر قرار پکڑے گی‘‘ (الرعد: 17) یعنی جس سے انسانوں کو فائدہ نہ ہو گا وہ سسٹم طوفان کی زد میں آ کر ٹوٹ جائے گا۔ وہ منصوبہ جو کرپشن زدہ ہو گا، گھٹن میں اضافہ کرتا چلا جائے گا اور ایک دن آندھی کی نذر ہو جائے گا۔ وہ محکمہ جو بددیانتی کا شکار ہو کر گھٹن میں تیزی لائے گا، ایک دن تیز ہوائوں کو اپنی جانب آنے کی دعوت دے گا۔ یہ اللہ کا نظام ہے اور فطرت ہے۔ فطرت کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ تمام عوامل مل کر جب اس قدر گھٹن پیدا کرنے کا باعث بن جائیں کہ سانس لینا مشکل ہو جائے اور اموات کا خطرہ پیدا ہو جائے تو طوفان آنا یقینی ہو جاتا ہے۔
سیاست میں اس وقت جو گھٹن پیدا ہو چکی ہے... اگر سیاستدان متوقع طوفان سے قبل کچھ کھڑکیاں کھول دیں تو طوفان سے بچا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر سیاسی جماعتوں کے رہنما آغاز اپنی ذات سے کریں، وہ جمہوریت کا بہت نام لیتے ہیں مگر اپنی جماعتوں میں انہوں نے مکمل طور پر آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کا نفاذ کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر آزاد اور خودمختار بنایا جائے۔ پارٹیوں کے اندر انتخابات‘ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، الطاف حسین، چودھری شجاعت حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں کے سربراہ اگر اپنی پارٹی کے سربراہ بن جائیں تو قیادت کریں وگرنہ اہم رہنما بن کر اپنی پارٹی کی خدمت کریں۔ جناب آصف علی زرداری نے اپنے کھڑکی توڑ خطاب میں جو یہ فرمایا تھا کہ تم تین سال کے لئے ہو، ہم ہمیشہ رہیں گے... جی ہاں! بڑے شوق کے ساتھ‘ آپ ہمیشہ اپنی پارٹی کے سربراہ رہیں مگر پاکستان کے آئین کی پیروی کر کے... اسی طرح اگر الیکشن کمیشن کے انتخابی نتیجے میں کسی سربراہ کا بیٹا اپنے باپ کی جگہ سنبھالتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی وصیت اور نامزدگی سے سربراہ بنتا ہے اور پھر جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتا ہے تو پھر ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کس بلا کا نام ہے؟
طوفان سے بچنے کے لئے دوسری کھڑکی اس طرح کھولیں کہ بلدیاتی الیکشن باقی ماندہ دونوں صوبوں میں یعنی سندھ اور پنجاب میں فوری کرا کر اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کریں۔ خود ملک کا سوچیں اور بین الاقوامی برادری میں ملک کا نام اونچا کرنے کے لئے قانون سازی اور پالیسی سازی کا کام کریں۔ لیڈرشپ کا یہی کام ہے۔
تیسری کھڑکی اس طرح کھولیں کہ بیوروکریسی میں اپنے اختیارات سے رضاکارانہ طور پر دو یا تین سال کے لئے دستبردار ہو جائیں۔ نظام چلانے کے لئے ایک انتہائی صاف شفاف کمیٹی بنائیں۔ اپیکس کمیٹی اچھا تجربہ ہے مگر اسے زیادہ شفاف اس طرح بنائیں کہ کوئی اپنے سیاسی عہدے کی وجہ سے اس کمیٹی کا ممبر نہ بنے۔ پورے ملک میں ایک ہی کمیٹی بنائیں، ہر شعبے سے ایک ایک دیانتدار آدمی لیں... مثال کے طور پر ایک فوجی افسر ہو تو پولیس کی نمائندگی کے لئے ذوالفقار چیمہ جیسا افسر ہو، سیاستدانوں میں سے راجہ ظفر الحق جیسا سیاستدان ممبر ہو، عدلیہ کی نمائندگی کے لئے مریم قیصر جیسی خاتون جج ہوں جنہوں نے عدلیہ کو اس لئے چھوڑ دیا کہ یہاں کرپشن بہت ہے۔مجرموں کو سرعام لٹکائیں، انصاف تیز کر کے مقدمات ختم کر دیں، اسی طرح چاروں صوبوں کے دیانتدار آئی جی حضرات ہوں، ذوالفقار چیمہ اپنے جیسے چار افسر تلاش کر کے کمیٹی کو ان کے نام دیں، وہ آئی جی بن کر پولیس کی تطہیر کریں... الغرض! ہر شعبے کے سربراہ کا تعین یہ کمیٹی کرے اور ایسے دیانتدار شخص کو سربراہ بنائے جو کسی کی پروا نہ کرے اور اس پر کسی کا دبائو نہ ہو۔
میاں نوازشریف صاحب ایسا کام اپنے ہاتھ سے کر دیں، یوں شفافیت کے ساتھ جو مجرم سامنے آئے سزا پائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو طوفان کسی بھی وقت آ سکتا ہے مگر طوفان کو بھی آگاہ ہونا چاہئے کہ پہلے چار طوفانوں والا ایک پانچواں طوفان اپنی سابق ڈگر پر چلتا ہوا آئے گا تو ملک و قوم کا نقصان کرے گا۔ ڈگر تو اس کی یہی تھی کہ جن کو کرپٹ کہا اور طوفان بپا کیا تو ان میں سے جو طوفان کے ساتھ آن ملے وہ سفید اور باقی کالے قرار پائے۔ اس بار یہ نہیں چلے گا اور نہ طوفان کا ایسا انداز نظر آتا ہے... وہی اقدامات جو ہم نے تجویز کئے ہیں، انہی کا ٹھنڈا جھونکا طوفان نے چلا دیا تونقصان پرانے اور بوسیدہ درختوں کا ہو گا۔ گلشن اپنی بہار دیتا رہے گا۔ بہرحال! اب یہ برداشت نہ ہو گا کہ سجیلے جوان پاکستان میں امن کے لئے قربانیاں دیتے رہیں، ان کے جنازے اٹھتے رہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوتی رہیں، باپ اور مائیں چھاتی پر ہاتھ رکھ کر فخر کرتی رہیں کہ ان کے سپوتوں نے 18کروڑ عوام کے امن کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور مٹھی بھر لوگ ملک میں اقتدار کے جھولے پر دہشت گردوں کا ساتھ بھی دیں، مال بھی لوٹ کر باہر بھیجیں، تیز انصاف کی راہ میں رکاوٹ بھی بنیں اور خود بھی نہ کریں اور یہ ارادے باندھ کے بیٹھیں کہ ہم پھر مظلوم بن کر احیائے جمہوریت کی تحریک چلائیں گے تو نظریہ آتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ خواب پہلی بار ایک پریشان خیال ہو گا۔
لہٰذا! سیاستدانوں کے ہاتھوں نرم انقلاب بپا نہ ہوا تو پھر گرم کا انتظار ہو گا۔ امید یہ ہے کہ اس گرما میں گرمی کرپٹ لوگوں کے لئے ہو گی اور ٹھنڈک عوام کے لئے ہو گی یوں موسم انتہائی سہانا اور شاندار ہو گا۔ پاکستان پائندہ باد!