"AHC" (space) message & send to 7575

سیلاب مگر پانی کمیاب

دنیا نے تیل اور گیس پر جنگیں دیکھ لیں اور تاحال دیکھتے چلے جا رہے ہیں مگر مستقبل میں یہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔ تمام عالمی ماہرین یہی کہہ رہے ہیں۔ پانی کے حوالے سے جب ہم مسلمان اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مدینہ منورہ میں منظر یوں نظر آتا ہے کہ یہودی مدینہ میں پانی فروخت کیا کرتے تھے۔ ''بئر رومہ‘‘ کے نام سے وہ کنواں آج بھی مدینہ منورہ میں موجود ہے جو یہودی کی ملکیت تھا، وہ اس کا پانی بیچتا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے یہ کنواں خرید لیا اور مسلمانوں کے نام وقف کر دیا۔ اس سے مسلمان تو فائدہ اٹھاتے ہی تھے، جو یہودی تھے وہ بھی مفت پانی بھرتے تھے۔ اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بھی ہے۔ اس باغ کے درختوں کی تعداد آج پندرہ سو پچاس کے قریب ہو گئی ہے۔ سعودی دور حکومت میں یہ باغ مدینہ منورہ کی بلدیہ نے حضرت عثمانؓ بن عفان کے نام پررجسٹرڈ کر دیا۔ اس باغ کی کھجوریں مدینہ میں آنے والے زائرین خریدتے ہیں تواس آمدنی سے اب ایک ہوٹل ''فندق عثمانؓ بن عفان‘‘ بن گیا ہے۔ اس کی سالانہ آمدن پانچ کروڑ ریال تک جائے گی، یعنی حضرت عثمانؓ کے وقف کردہ کنویں کے پانی کا صدقہ آج بھی باغ کی شکل میں موجود ہے جو اس کنویں سے سیراب ہوتا آیا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک جس کے سودی ساہو کار امریکی یہودی ہیں انہوں نے ہمارے پاکستان میں جنرل ایوب خان کو شیشے میں اتار کر پاکستان کے تین دریا انڈیا کو بیچنے پر مجبور کر دیا اور جواب میں دو ڈیم منگلا اور تربیلا بنا کر دے دیئے، یعنی ہم، جو پانی خرید کر وقف کرنے کی تاریخ رکھتے تھے، نے الٹا کام کیا کہ اپنا پانی یہودی کے کہنے پر ہندو کو بیچ دیا اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ انہی دریائوں سے آنے والے پانیوں سے ہم ہر سال ڈوبتے ہیں اور سال کے باقی دنوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنے زیر زمین پانی سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں اور سطح زمین پر بھی محروم رکھے جا رہے ہیں۔ کیسے؟ آیئے! جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے سیلاب کو دیکھتے ہیں اورپھر پانی کی کمیابی کو دیکھتے ہیں۔ 
انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان میں بہنے والے پانچوں دریائوں پر ڈیم بنا لئے ہیں اور تاحال بنتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں قدرتی طور پر جو انتہائی شاندار ڈیم بن سکتاتھا اور جس سے صوبہ خیبر، جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ اراضی آباد ہو سکتی تھی، ورلڈ بینک نے اسے چھوڑ دیا کہ بعد میں بنا لیں گے حالانکہ یہ پختہ پہاڑوں میں قدرتی ڈیم تھا جس سے پانی کی لیکج کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ اس کے برعکس تربیلا اور منگلا بنا دیئے جن سے پانی کی لیکج روکنے کیلئے آج بھی پاکستان کو آئے دن خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ جی ہاں! اس ڈیم کا نام کالا باغ ہے، انڈیا کی سازشوں سے اسے متنازعہ بنا دیا گیا، اس سے پاکستان بجلی کے بحران میں مبتلا ہوا۔ یوں انڈسٹری کے ساتھ زراعت بھی مہنگی ہو گئی کہ کسان ٹیوب ویل کے ذریعے زراعت کر کے خسارے کا شکار ہو گیا... اب جو زراعت وہ کرتا ہے، سال میں ایک فصل حاصل کرتا ہے اور دوسری فصل سیلاب کا شکار ہو جاتی ہے۔ یوں جہاں جہاں سیلاب آتا ہے، وہاں کی زراعت صفر ہو گئی ہے۔ مزید یہ ہوا کہ حکمرانوں نے مذکورہ ڈیم پر سیاست شروع کر دی۔ مٹھی بھر لوگوں نے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کر کے ایسا ڈرایا کہ کوئی بھی اس خوف سے باہر آ کر اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی بہتری کی بات کرنے پر تیار نہیں یعنی لیڈر شپ انتہائی نااہل ہے کہ وہ تباہی کی طرف جانے والی رو کا دھارا موڑنے سے قاصر ہے۔ ایسی حکمرانی کو محض حکمرانی تو کہا جا سکتا ہے، لیڈر شپ کسی بھی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ اس نااہل حکمرانی کا مزید نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بند ٹوٹ جاتے ہیں اور شہر اور علاقے سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ یہ ہے کہ بند بنانے پر جو پیسہ دیا جاتا ہے، وہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ نااہل حکمرانی کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ سیلابی راستوں کو روک کر وہاں بڑی بڑی رہائشی سکیمیں بنا دی گئی ہیں۔ محکمہ ہائوسنگ اور پلاننگ کہاں سو رہا ہے، یہ منظر لاہور سے گوجرانوالہ تک کئی جگہوں پر دیکھا جاسکتا ہے کہ انگریز نے جہاں سیلابی پانی کے گزرنے پر پل بنائے تھے وہاں پلوں کے آگے سکیمیں بن گئی ہیں۔ باقی پاکستان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے سیلابی تباہی مزید بڑھ گئی ہے۔ سیلابی علاقوں میں بڑی بڑی جھیلیں اور تالاب بن سکتے تھے مگر نااہل حکمرانی نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس سے زیر زمین میٹھا پانی بھی ہوتا اور سیلاب کے دنوں میں بچت بھی ہوتی۔ یعنی ہم نے خود بھی نااہلی کا ثبوت دیا، اوپر سے انڈیا جب اپنے لبالب ڈیموں کا پانی چھوڑتا ہے تو تباہی مزید ہوتی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سیلابوں میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ نقصان سندھ کا ہوا ہے۔ اس سے کم جنوبی پنجاب اور صوبہ خیبر کا اور اس سے کم پاکستان کے شمالی پنجاب کا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف دریا مختلف علاقوں سے گزرتے ہیں تو سیلاب کے دنوں میں سیلابی پانی علاقائی طور پر نقصان پہنچاتا ہے، لیکن یہی پانی جب جنوبی پنجاب میں اکٹھا ہونے لگتاہے تو یہاں زیادہ نقصان ہوتا ہے اور پھر یہی پانی سندھ میں ہر جانب سے اور زیادہ اکٹھا ہو جاتا ہے تو سندھ کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اگر اوپر کے علاقوں میں ڈیم بن جائیں تو سندھ نقصان سے بچ جائے۔ 
رونے کا نہیں بلکہ پیٹنے کا مقام ہے کہ ایک جانب زمین کی سطح پر ہم ڈوب رہے ہیں تو دوسری جانب زیر زمین میٹھے پانی سے ہم روز بروز محروم سے محروم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کا زمینی ڈھانچہ بنیادی طور پر ایک ہے۔ زیر زمین پانی کے نالے اور نہریں بھی ایک ہیں۔ ہمارے ہاں ڈیم اور جھیلیں نہ بننے سے زیر زمین پانی کم ہو رہا ہے۔ زرعی علاقوں میں تیزی کے ساتھ رہائشی سکیمیں بھی اس میں رکاوٹ بن گئی ہیں۔ ہمارا کسان بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے ٹیوب ویل سے بھی پانی نکال نہیں پا رہا۔ انڈیا کا کسان سستی بجلی کی بنیاد پر زیر زمین پانی بھی بہت بڑی مقدار میں نکال رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کا زیر زمین پانی انڈیا کی جانب جا رہا ہے۔ 
پاکستان جب سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر عالمی اداروں میں جاتا ہے تو وہاں پاکستان کو حق پر ہونے کے باوجود حمایت نہیں ملتی۔ ملتی ہے تو انڈیا کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی یہودیوں نے ہمارا پانی جو انڈیا کو فروخت کروایا اور جو فروخت کے بعد بچ رہا اسے بھی چوری اس لئے کروایاہے کہ امریکی یہودی ساہو کار انڈیا میں پانچ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پانی پر کر رہے ہیں۔ انڈیا میں اکثر ترقیاتی کام پانی کے ساتھ وابستہ کر دیئے گئے ہیں۔ پائپ، نہریں، سڑکیں، پل وغیرہ دریائوں کوسامنے رکھ کر بنائے جا رہے ہیں۔ یہ امریکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آئندہ 20 سالوں میں پانی کی تجارت کاحجم تیل اور زراعت سے بڑھ جائے گا۔ اس وقت دنیا میں 13 کے قریب یہودی مالیاتی کمپنیاں ہیں جو پانی کے عالمی حقوق حاصل کر رہی ہیں، وہ دنیا میں بڑی بڑی جھیلیں خرید رہی ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ان کی سرپرستی کر رہے ہیں اور سودی قرضے جاری کرتے وقت یہ حکمرانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے آبی ذخائر ان کی مالیاتی کمپنیوں کو فروخت کریں۔ پاکستان کے ساتھ وہ ایسا کر چکے ہیں اور ہمارا بیشتر پانی انڈیا کے حوالے کر کے اب اس پانی پر اربوں ڈالر خرچ کر کے واٹر انڈسٹری میں جا رہے ہیں۔
پانی بکنے کا ایک ہلکا سا منظر موجودہ سیلاب سے چند دن قبل کراچی میں یوں دیکھنے میں آیا کہ سرکاری پانی جو دریائی اور نہری پانی ہے، وہ بند ہوا تو ٹینکروں پر کئی گنا زیادہ ریٹ پر بکنا شروع ہوا۔ اس وقت دنیا میں جو صاف پانی بوتلوں میں بکتاہے، یہ کس قدر منافع بخش ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فوری طور پر سیلاب اور پانی کی کمیابی پر توجہ مرکوز کرے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیلابوں سے نمٹنے کیلئے بھی خالی خولی دعوے ہیں۔ میدان میں اس وقت پاک فوج ہے اور ایف آئی ایف کی کشتیاں چلتی نظر آتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ سیاسی حکمرانی کہاں ہے؟ کیا وہ صرف کشتیوں کے ذریعے ملک کا زرمبادلہ باہر منتقل کرنے میں ہی مصروف ہے؟ اور سیلاب زدگان کو کشتیوں پر سوار کرنا صرف پاک فوج کی ذمہ داری ہے؟ 
ہمارے حکمرانوں کو اس پر سوچنا چاہئے کہ ہم جو فروخت کر چکے وہ تو کر چکے، جو موجود ہے اس پر تو مفاداتی سیاست سے اوپر اٹھ جائیں اور کارکردگی دکھا کر ملک و قوم پر کچھ تو رحم کر جائیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں