جنرل حمید گل ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، وہاں جہاں ہر ایک نے جانا ہے۔ جب تک وہ دنیا میں رہے دوست اور احباب بناتے رہے، اپنے حلقے بناتے رہے۔ صحیح بخاری میں اللہ کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق روحوں کی دنیا میں جو لوگ آپس میں متعارف ہو جاتے ہیں، باہم جان پہچان کر لیتے ہیں، الفت و مؤدت کا ایک رشتہ بنا لیتے ہیں، اس دنیا میں جب وہ جسمانی وجود کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں تو یہاں بھی باہم متعارف ہو جاتے ہیں دوست بن جاتے ہیں... اگلی تیسری اور آخری منزل آخرت کی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ واضح کرتے ہیں کہ جن کی محبت محض اللہ کی خاطر ہو گی، دنیاوی مفاد کی خاطر نہ ہو گی وہ جنت میں باہم دوست ہوں گے، باقی دوستیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ محبت کا رشتہ جو محض اللہ کی خاطر ہو گا‘ ایسے دوستوں کو اللہ تعالیٰ نور کے منبروں پر جلوہ افروز فرمائے گا۔
جنرل حمید گل سے میرا رابطہ آج سے 25سال قبل اس وقت ہوا جب وہ ملتان کے کور کمانڈر تھے۔ میں نے انہیں خط لکھا۔ کیا لکھا؟ اب مجھے یاد نہیں البتہ ان کا جوابی خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ خط 28 اکتوبر 1990ء کو مجھے لکھا گیا تھا۔ خط کے آخر پر لکھتے ہیں ''اوپر لکھا ہوا میرا پتہ درست ہے‘‘۔ یعنی اس درست پتے پر رابطہ رہے گا اور پھر ایسا رابطہ ہوا کہ محبت و پیار میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ 18 سال قبل مجھ پر حملہ ہوا تو پہلا فون انہی کا آیا۔ فرما رہے تھے: ''الحمدللہ! اللہ نے محفوظ رکھا۔ اپنا خیال رکھیے گا۔‘‘ 14 اپریل 2015ء کو میں عمرہ پر جانے کے لئے اپنی اہلیہ کے ہمراہ لاہور ایئر پورٹ پہنچا تو اللہ کے مہمان کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ آپ کا نام اس فہرست میں ہے جو باہر نہیں جا سکتے۔ اگلے دن ایف آئی اے نے یہ خبر اخبارات کو جاری کر دی۔ جنرل صاحب نے پھر مجھے فون کیا، فرمایا: ''پریشان نہیں ہونا، لگتاہے کسی غلط فہمی کی بنا پر آپ کا نام ڈال دیا گیا ہے۔ میری خدمات حاضر ہیں۔‘‘ لیکن میں نے روکنے والوں کا معاملہ اس اللہ میزبان کے سپرد کر دیا جس کے مہمان کو بلاوجہ روکا گیا۔
جنرل صاحب کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ وہاں پتھر کا ایک ٹکڑا پڑاتھا۔ ساتھ ہی تحریر بھی تھی۔ اس پتھر کا تعلق دیوار برلن سے تھا۔ جرمنی کو جب روس نے شکست سے دوچار کیا تو جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی جرمنی میں روس کا کمیونزم تھا جبکہ مغربی جرمنی میں جمہوری نظام اور آزادی تھی، ساتھ خوشحالی بھی تھی۔ برلن شہر کے وسط میں دیوار کر دی گئی تھی۔ یوں رشتوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔ کتنے ہی لوگ اس دیوار کو کراس کرتے ہوئے اور پھلانگتے ہوئے مارے گئے تھے۔ جب افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور 14ٹکڑے آزاد ملکوں کی صورت میں اس سے الگ ہوئے تو مشرقی یورپ کے ممالک کمیونزم سے بھی آزاد ہوگئے۔ اس موقع پر جرمنی کی دیوار کو توڑ دیا گیا۔ برلن کی دیوار کے ٹکڑے ہو گئے۔ یہ ٹکڑے عجائب گھروں میں محفوظ ہوئے۔ ایک ٹکڑا جنرل حمید گل کو بھیجا گیا۔ جنرل صاحب کے نام جو تحریر میں پڑھ رہا تھا اس پر جرمنی کے حکمرانوں نے لکھا: ''جنرل گل صاحب! اس دیواربرلن کو ہم نے نہیں آپ نے گرایا ہے۔ آپ کے کردار سے گرا ہوا ایک ٹکڑا آپ کی خدمت میں پارسل کر رہے ہیں۔ ‘‘
دفاع پاکستان کونسل کے جلسوں میں جب میں اپنی تقریر میں مذکورہ واقعہ کا تذکرہ کرتا اور کبھی جنرل صاحب کو مائیک پر آنے کی دعوت مذکورہ واقعہ کے حوالے سے دیتا تو جنرل حمید گل شکریے کے ساتھ عجز و انکسار کا مجسمہ بنے ہوئے خطاب کے لئے آتے اور چہرہ یوں کھل اٹھتا جیسے گلاب کے پھول نے ابھی ابھی اپنی سرخ پنکھڑیوں کو کھول کر گلستان کے حسن اور عطر بیزی میں اضافہ کر دیا ہو۔
ایک بار میں نے ان سے پوچھا: ''جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ آپ نے ایک عرصہ تک کام کیا۔ روس کے خلاف لڑتے رہے۔ کوئی اہم اور ذاتی واقعہ۔‘‘ فرمانے لگے: ''ہم معمول سے ہٹ کر رات کو کسی خفیہ جگہ پر بھی میٹنگ کر لیتے۔ بعض اوقات صدر صاحب میرے گھر میں آ جاتے۔ بغیر سکیورٹی کے ایک بار آ گئے۔ ہم رات دیر تک پروگرام بناتے رہے۔ بیگم صاحبہ نے تیتر بٹیر کا سالن تیار کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے شوق سے کھایا۔ یوں دشمن کو شکار کرنے کی تدبیریں راتوں کے رت جگے میں ہم لوگ کرتے تھے۔‘‘ جب ہم نے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا تو جنرل صاحب کے ساتھ ٹرک پر رہے۔ پھر گجرات میں ایک محبت کرنے والی شخصیت کے ہاں اکٹھے قیام کیا۔ پھر گاڑی میں اکٹھے ہی اسلام آباد تک سفر کیا۔ اس سفر کے دوران جنرل صاحب سے مختلف موضوعات پر دنیا جہان کی باتیں ہوتی رہیں۔ عبداللہ گل بھی ہمراہ تھے۔ جنرل صاحب مجھ سے فرمانے لگے: ''یورپ کے یہ نامراد لوگ جو توہین آمیز خاک بناتے ہیں آپ نے ''رویے میرے حضورؐ کے‘‘ لکھ کر بڑا عمدہ کام کیا ہے، مگر جن روایات پر وہ جاہلانہ اعتراض کرتے ہیں، آپ علماء کو اکٹھا کر کے زبردست قسم کا علمی جواب تیار کروائیں اور اپنے قلم سے یہ خدمت انجام دیں۔‘‘ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے حضورؐ کی محبت میں یوں لگ رہا تھا جیسے حمید گل کے منہ سے حب رسولؐ کے پھولوں کی پتیاں جھڑ رہی ہیں۔ ایک بار اپنے گھر کے لان میں مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمانے لگے: ''پاک فوج کے لئے جہاد کے موضوع پر آپ ایک کتاب لکھیں، میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم میں تاثیر اور قوت رکھی ہے۔‘‘
بہرحال! ان کے ساتھ محبتوں اور قربتوں کا رشتہ 25سال یعنی ایک صدی کے چوتھے حصے پرپھیلا ہوا ہے، چند صفحات پر حقِ ادائیگی ناممکنات میں سے ہے۔
چند ماہ قبل آئی ایس آئی کے موجودہ چیف جنرل رضوان اختر نے اپنے محترم بزرگ حمید گل کو آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں تشریف فرما ہونے کی دعوت دی۔ یقینا حالات سے بھی آگاہ کیا گیا اور خصوصی عزت افزائی یہ تھی کہ جنرل گل صاحب کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ بحمداللہ! پاکستان دہشت گردی کے بھنور سے نکل چکا ہے، مضبوط اور طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے، ضربِ عضب کی کاٹ میں تسلسل، غیر جانبداری اور عدل کی نگہداری ہے۔ اس پر جنرل حمید گل بہت خوش تھے۔ 69ویں یوم آزادی پر وزیراعظم میاں نوازشریف نے جس طرح آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کنونشن سنٹر میں ان کی موجودگی میں جس طرح شرکاء نے جنرل راحیل شریف کا پرتپاک استقبال کیا اور والہانہ انداز سے محبت کا اظہار کیا، بلوچستان میں 400فراری ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے، یہ سب کچھ دیکھ کر جنرل حمید گل انتہائی خوش تھے۔ ایک کم 70ویں یوم آزادی پر یہ منظر کس قدر ایمان افروز تھا کہ جنرل ناصر جنجوعہ ہتھیار ڈالنے والوں سے کہہ رہے تھے: ''ہم اسلام اور پاکستان کے لئے لڑتے ہیں، یہی دینِ اسلام کا تقاضا ہے جبکہ کسی اور مقصد (قومیت پرستی وغیرہ) کے لئے لڑنا شرک ہے۔ جو بھی ہتھیار ڈال کر قومی پرچم تھام لے وہ ہمارا بھائی ہے،ہم اسے گلے لگا لیں گے۔‘‘ یوں اس یوم آزادی پر پاک فوج نے اپنے جوانوں کے گلے کاٹنے والوں کے لئے معافی کا اعلان، بھائی بنا کر گلے لگانے کا اعلان اور عمل کر کے حضور رحمت دو عالمؐ کی سنت کو تازہ کر دیا جب آپﷺ نے مکہ فتح کر کے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند اور قاتل وحشی تک کو معاف کر دیا تھا۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر جنرل حمید گل بہت خوش تھے۔ وہ اپنی اس خوشی کا اظہار جناب کامران شاہد کے ساتھ اپنی گفتگو میں بھی کر رہے تھے۔ وہ بے لاگ ہوتے ہوئے احتساب پر اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے اعلان کیا کہ فوج کے اندر جو احتساب کا عمل شروع ہوا ہے‘ اس کے سامنے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں، آغاز مجھ سے کیا جائے۔ جی ہاں! ایسا اعلان وہی کر سکتا ہے جس کا دامن صاف ہو۔ جنرل صاحب نے مقبوضہ کشمیر میں آسیہ اندرابی جیسی دلیر خاتون کو دیکھا کہ وہ 14اگست کو کس طرح یومِ پاکستان منا رہی ہیں اور کس طرح دلیری کے ساتھ 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر احتجاج کر رہی ہیں۔ یوں14اور 15اگست کے مناظر دیکھ کر... اور پھر ٹی وی کی سکرین پر یوم سیاہ کے منظر سے کشمیر کی آزادی کی صبح کو طلوع ہوتے چشم تصور میں دیکھتے ہوئے وہ اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ مولا کریم! حمید گل تیرا ایک بندہ تھا، بشری خطائوں اور کمزوریوں کا حامل تھا۔ نیکیاں اور اچھائیاں قبول فرما لیں۔ کمزوریوں سے درگزر فرما لیں۔ ان کی رفیقۂ حیات، بیٹی عظمیٰ گل، بیٹوں عمر اور عبداللہ گل اور تمام لواحقین کو صبرِ جمیل اور جنرل گل کو فردوس کے کھلے پھولوں کی بہار عطا فرما دے۔ (آمین)