نسل در نسل خاندانی بادشاہ ہو یا صدر اور وزیراعظم، سب اپنی حکمرانی کے لئے انسانوں کے محتاج ہیں۔ اگر انسان ہی نہ ہوں تو حکمرانی کیسی؟ 2005ء میں شمالی علاقوں کے زلزلے میں آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ تب آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات تھے۔ انہوں نے روتے ہوئے بیان دیا کہ میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں۔ یعنی انسان ہی نہیں رہے تو میں وزیراعظم کس کا ہوں۔ جی ہاں! دنیا کی سپرپاور کا صدر ہو یا کسی امیر ترین ملک کا بادشاہ، وہ محتاج ہے، انسانوں کی موجودگی کا کہ رعایا کے بغیر وہ کوئی حکمران نہیں ہے۔
احمد پور شرقیہ میں قاری محمدیعقوب شیخ کے بنائے ہوئے عظیم علمی ادارے جامعہ عمر بن عبدالعزیزؒ میں گفتگو کرتے ہوئے، میں کہہ رہا تھا: سورئہ اخلاص میں اللہ کا تعارف یوں شروع ہوتا ہے کہ وہ ایک ہے اور ''الصَّمَدْ‘‘ یعنی بے نیاز ہے۔ عربی زبان کی معروف اور مستند لغت جسے علامہ ابن منظور نے 1291ء میں لکھا، وہ ''الصَّمَدْ‘‘کے معنی اور مفہوم بیان کرتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ ''الصَّمَدْ‘‘ ایسے حکمران کو کہتے ہیں جس پر حکمرانی کی انتہا ہو جائے اور وہ ایسا حاکم ہو کہ اس کی تمام رعایا ختم اور فنا ہو جائے تب بھی اس کی حاکمیت قائم و دائم رہے۔ یعنی جب کائنات اور مخلوقات نہ تھیں وہ تب بھی حاکم تھا اور جب یہ نابود ہو جائیں گی وہ تب بھی شہنشاہ ہی رہے گا۔ وہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے بے نیاز ہے اور اس کی بادشاہی کو ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ تمام انسان، جنات، فرشتے اور دیگر مخلوقات ختم ہو جائیں وہ تب بھی حاکم مطلق ہے۔ یہ ہے ''الصَّمَدْ‘‘کے معنی اور مفہوم جنہیں اہل لغت بیان کرتے ہیں۔ ایسا بے پروا اور بے نیاز بادشاہ جب اپنے بندوں کے لئے قوانین بناتا ہے تو ان قوانین میں بھی شانِ بے نیازی ہوتی ہے، کامل عدل ہوتا ہے اور جب وہ فیصلے فرماتا ہے تو ان فیصلوں میں بھی کامل انصاف ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی بات کا تقاضا اپنے بندوں پر بنے ہوئے حکمرانوں سے کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنی رعایا کے درمیان فیصلے کریں تو عدل سے کریں۔
یہاں حکمران کی آزمائش ہے، وہ اللہ کے بنائے ہوئے انسانوں کی موجودگی کا محتاج ہے۔ یہ حکمران بھی انہی جیسا ایک انسان ہے مگر اس حکمران نے کیا کیا کہ اپنا ایک شاہی خاندان بنا لیا۔ وراثتاً حکمرانی اس کے بیٹے اور پھر اس کے بیٹے کو منتقل ہونا شروع ہو گئی۔ آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ یہ شاہی خاندان لڑنے لگ گیا اور پھر حکمرانی ختم ہو گئی تو ایک دوسرا حکمران خاندان معرض وجود میں آ گیا۔ صدیوں سے یہی سلسلے چل رہے تھے کہ حضرت محمد کریمﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کو انسانوں کے لئے نمونہ قرار دے دیا۔ حضرت محمد کریمﷺ عرب کے حکمران بن گئے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک حکمران نے نہ اپنے سر پر تاج سجایا، نہ اپنا تخت بنوایا اور نہ محل۔ تاریخ انسانی نے پہلی بار ایسا حکمران دیکھا کہ جب وہ عزت مآب حکمران مدینہ سے باہر دور کے سفر پر روانہ ہوتے تو اونٹنی استعمال کرتے۔اپنے دارالحکومت کے اندر وہ اپنی رعایا کے گھروں میں پیدل ہی تشریف لے جاتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گدھے پر سواری فرما لیتے اور اپنی رعایا کے کسی بیمار فرد کے گھر جا کر عیادت فرما لیتے۔ انسانی تاریخ نے پہلی بار ایسا حکمران دیکھا کہ جس نے اپنا کوئی شاہی خاندان نہیں بنایا۔ اپنے بعد اپنے خاندان کے کسی فرد یا قبیلے کے کسی فرد کے لئے وصیت نہیں فرمائی کہ میرے بعد فلاں حکمران ہو گا۔ اشارہ ضرور فرمایا لیکن معاملے کو امت پر چھوڑ دیا۔ اسلامی تاریخ میں اس انداز کو ''خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کہا گیا یعنی نبوت کا جو راستہ ہے اس راستے پر چلتے ہوئے حکمران کا انتخاب بھی ہو اور حکمران بننے والا اسی راستے پر چلتا بھی جائے۔حضرت ابوبکر صدیق، حضرت فاروق اعظم، حضرت عثمان غنی اور حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہم سب اسی راستے پر چلے۔
دیکھ دیکھ دل دکھی ہوتا ہے کہ ان کے راستے کو غیروں نے اپنایا، اپنوں نے چھوڑ دیا۔ چین اس وقت سپرپاور بن چکا ہے، جدید چین کے بانی مائوزے تنگ جو کوٹ پہنتے اس میں پیوند لگے ہوئے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے پاکستانی وفد کے ایک رکن میر احمد یار خان مرحوم کو بتایا: میں نے جو کامیابی بھی حاصل کی ہے تمہارے جنرل عمرؓ کی صفات کو اپنا کر حاصل کی ہے۔
مہاتما گاندھی نے 1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں کانگریسی وزارتیں قائم کرتے وقت اس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: رام اور براہما وغیرہ ہمارے دیوتائوں کی زندگیوں کے واقعات طلسماتی ہیں، قابل عمل نہیں ہیں۔ عمل کے لئے حکمرانی کا انداز مسلمانوں کے دو خلفاء ابوبکرؓ اور عمرؓ سے حاصل کرو۔(روزنامہ ہریجن)
آج دیکھا جا سکتا ہے کہ چین سپرپاور ہے تو انڈیا بھی ایک ایسی پاور ہے، جس کے ادارے مضبوط ہیں۔ آج نریندر مودی طلسماتی دیوتائوں کی طرف جا رہا ہے یعنی انڈیا کو بربادی کے گڑھے میں دھکیلنے جا رہا ہے۔ امریکہ کو دیکھا جا سکتا ہے وہاں حقوق انسانی کے لئے جو قانون نافذ ہے، وہ عمرؓ لاء ہے۔ برطانیہ اور سیکنڈے نیوین ممالک سمیت یورپ کے کئی ملکوں میںعمرؓ لاء کے نام سے عورتوں، بچوں اور معذوروں کے لئے قانون نافذ ہے۔ وہ صرف قانون نافذ نہیں کرتے، عمل بھی کرتے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون چند دن پہلے ٹیوب ٹرین میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔ سیٹ نہیں تھی اور وہ کھڑے ہو کر گیلری میں سفر کر رہے تھے۔ یہی ڈیوڈ کیمرون اپنے ملک کے ایک علاقے میں الیکشن مہم پر جاتے ہیں تو ریل گاڑی کے برتھ میں سو جاتے ہیں۔ صبح اٹھتے ہیں اور اپنی پارٹی کے امیدوار کے لئے ووٹ مانگتے ہیں۔ ادارے وہاں مضبوط ہیں، خاندانوں کو نوازنے کا کوئی تصور نہیں کوئی یہ نہیں، کہتا کہ میں ناگزیر ہوں، میں ہٹ گیا یا مر گیا تو ملک بھی گیا، پارٹی اور جماعت بھی گئی۔
ذرا ہم بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ ہم اس قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، جس میں وہ آیت موجود ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ احد کے میدان میں زخمی ہوئے تو مشہور ہو گیا کہ حضورؐ شہید ہو گئے۔ بعض لوگوں نے تلواریں رکھ دیں کہ اب لڑنے کا کیا فائدہ؟ اللہ نے اپنے نبیﷺ کی زبان پاک سے کہلوایا: ''محمدﷺ بھی ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول ہو گزرے، کیا اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم الٹے پائوں واپس پلٹ جائو گے۔ سن لو! جو ایسا کرے وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، اپنا ہی نقصان کرے گا۔‘‘ (آلِ عمران:144) کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ایسی تعلیم کے حامل مسلمان حکمران اور امراء ادارے مضبوط کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ناگزیر بناتے ہیں، خاندان کو مضبوط کرتے ہیں، رشتے داریاں بنا کر اپنے اردگرد حلقے بناتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم ملک کو مضبوط کر رہے ہیں، جماعت اور پارٹی مضبوط کر رہے ہیں، نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ پھر یہی لوگ لڑتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں بھٹو خاندان کو باہم لڑتے دیکھا... اب تک یہ لڑائی جاری ہے۔ اب میاں نوازشریف کا خاندان اسی راستے پر ہے، علماء جنہیں راستہ دکھانا چاہئے تھا، چند ایک کے سوا، ہم نے ان کو بھی انہی راہوں پر انجام سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھا ہے مگر سبق ہے کہ کوئی نہیں سیکھتا۔ اپنا عزیز عالم ہو نہ اہل مگر مسند و منبر پر اسی کو براجمان کیا جاتا ہے۔ یوں ہر کوئی اپنے خاندان اور برادری کا گھیرا بنا کر اپنے آپ کو شان بے نیازی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے مگر اے کاش کہ ہم حضرت محمد کریمﷺ کے پیروکار سمجھ جائیں کہ ہم محتاج ہیں، ہم میرٹ کو سامنے رکھیں، اہلیت کو سامنے رکھیں، اس لئے کہ ملک ہو یا جماعت وہ مسلمانوں کی ہے، اس میں جو میرٹ پر آتا ہے قرآن کے حکم کے مطابق امانت اس کے سپرد کرو... ہاں! اپنی فیکٹری، کارخانہ یا دکان ہے تو اس میں خاندان کو ملازمت دو، میرٹ کی دھجیاں اڑائو جو مرضی کرو مگر ملک اور جماعت کو ذاتی فیکٹری یا دکان نہ بنائو کہ اسی کا نام اصلی بددیانتی ہے۔ محتاج حکمرانوں اور پارٹی سربراہوں کو یہ بددیانتی لائق نہیں ہے۔ یہ بددیانتی اگر یونہی جاری رہے گی تو ''الصَّمَدْ‘‘یعنی بے پروا حاکم کی ہم سے بے پروائی جاری رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور ہدایت نصیب فرمائیں۔ (آمین)