زلزلہ زدگان کی خبر لینے اور ان تک تعاون پہنچانے، میں چترال بھی گیا۔ بمبوریت کے مسلمانوں کے پاس بھی گیا اور کافرستان کے کالاش انسانوں کے پاس بھی پہنچا، دیر اور میدان میں بھی گیا اور تیمرگرہ کے ہسپتال کے بیماروں اور لاچاروں کی خدمت میں بھی پہنچا۔ جو شہید ہو گئے وہ اپنے اللہ کے پاس جا پہنچے، جو زخمی ہو گئے پاک فوج کے ذریعے دھڑا دھڑ ہسپتالوں میں جا پہنچے، ان کا علاج ہو رہا ہے۔ حکمران اور لیڈر یہاں پہنچے، بیماروں کی خیریت دریافت کی، فوٹو شائع ہو گئے، حسبِ معمول خدمت کرنے کے بیانات بھی شائع ہوئے اور یوں وہ اپنے فرائض سے فارغ ہو گئے۔ اب مسئلہ تو ان بے بس اور لاچار زلزلہ زدگان کا ہے جن کے مکانات بالکل تباہ ہو گئے وہ اپنے رشتہ داروں کے سروں پر بوجھ بن گئے۔ ہجرت کر کے ان کے گھروں میں مقیم ہو گئے اور دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جن کے گھروں کو میں نے دیکھا کہ زلزلے نے ان کو اس قدر جھنجھوڑ مارا کہ وہ کٹے پھٹے بس گرنے کے قریب ہیں۔ ان گھروں کے مکین اپنے گھروں سے سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو خطرے سے دوچار کر کے سامان نکال رہے ہیں۔ سامان نکالتے ہوئے جب آفٹرشاکس کی وجہ سے مکان کا کوئی حصہ گرا تو یہ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں کہ جن کے مکانوں کی دیواروں اور چھتوں کو دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ ان مکانوں میں رہا بھی جا سکتا ہے اور خطرہ بھی موجود ہے۔ ایسے مکانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور لوگ انہی میں رہ رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ گرے حصوں کی مرمت بھی ہو رہی ہے۔ ان سارے لوگوں کو تعاون کی فوری ضرورت ہے مگر سوال یہ ہے کہ فوری تعاون ہے کہاں؟
جی ہاں! تعاون ہو گا، ضرور ہو گا مگر اس کا ایک طریق کار ہے، ایک طریق کار میرے پیارے رسولؐ کا ہے، حضورﷺ کے تربیت یافتہ حضرت فاروقؓ کا ہے اور دوسرا طریق کار میرے ملک کے حکمرانوں کا ہے... آیئے! پہلے سیرت رسولﷺ کے خوشبودان کوسونگھتے ہیں۔ یہ خوشبو یوں نظر آئی: فاقہ کش مسکینوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ آیا۔ میرے حضورﷺ نے ان لوگوں کی خستہ حالی کو دیکھا تو دل دکھی ہو گیا۔ مدینہ کے لوگوں کو مسجد میں طلب فرمایا، چندے کا اعلان کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لباس، خوراک اور نقدی کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ سارا کچھ فوراً مستحقین کے سپرد کر دیا گیا۔ وہ خوش ہوئے تو حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ کا چہرہ مبارک جو ذرا پہلے اداس تھا، روشن آفتاب کی طرح چمک رہا تھا۔
امام احمد بن حنبلؒ بتلاتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمرؓمدینہ اور اس کے مضافات کا گشت کرتے ہوئے ''صرّار‘‘ نامی جگہ پہنچے۔ آپ کے خادم اسلمؓ کے مطابق امیرالمومنین کو وہاں آگ جلتی دکھائی دی۔ حضرت عمرؓ قریب گئے تو دیکھا کہ ایک عورت کے گرد بیٹھے بچے رو رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے خاتون سے پوچھا، بچے کیوں رو رہے ہیں، کہنے لگی بھوک سے۔ حضرت عمرؓ نے پھر پوچھا، ہنڈیا میں کیا ہے، کہنے لگی کچھ بھی نہیں۔ بس بچوں کو دلاسا دے رہی ہوں تاکہ سو جائیں، ہمارے اور ہمارے حکمران عمرؓ کے بارے میں اللہ ہی فیصلہ کرے گا۔ حضرت عمرؓ کہنے لگے، بی بی! بھلا عمرؓ کو تمہاری کیا خبر ہے؟ کہنے لگی، عمرؓ ہمارے معاملات کا نگران بنا پھرتا ہے اور کیسا نگران ہے کہ ہم سے غافل ہے۔ خادم اسلمؓ کہتے ہیں کہ عورت کی اس بات کا سننا تھا کہ حضرت عمرؓ واپس پلٹے، دوڑے دوڑے سیدھے گودام میں گئے، آٹے کا تھیلا اور گھی کا مٹکا نکالا اور مجھے حکم دیا میری کمر پر لاد دو۔ میں نے عرض کی، میں اٹھاتا ہوں، کہا قیامت کے دن بھی میرا بوجھ تو اٹھائے گا؟ پھرہم بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے۔ حضرت عمرؓ نے آٹے اور گھی کو ملا کر حریرہ بنایا۔ ہنڈیا میں چڑھا کر پھونکیں مارنے لگے، دھوئیں کے مرغولے ان کی داڑھی میں سے نکل رہے تھے۔ حریرہ پکا کر نیچے اتارا، اب عورت کو کہا، پرات لائو، اس میں حریرہ ڈالا۔ گرم حریرے کو پھیلایا تاکہ جلد ٹھنڈا ہو۔ عورت سے کہا، اب ان کو کھلائو، حضرت عمرؓ کھانا ٹھنڈا کرتے رہے، وہ عورت کھلاتی رہی، جب وہ سیر ہو گئے تو حضرت عمرؓ چل پڑے۔ عورت کہنے لگی، اے اللہ کے بندے، اللہ تجھے جزائے خیر دے، کاش عمر کے بجائے تو حکمران ہوتا۔ حضرت عمرؓ نے کہا، بی بی! جب تو امیرالمؤمنین کے پاس جائے گی تو مجھے بھی وہیں پائے گی۔ پھر عمرؓ ذرا فاصلے پر ٹھہر گئے۔ جب بچے ذرا اچھل کود کر سو گئے تب امیر المومنین وہاں سے واپس روانہ ہوئے۔
قارئین کرام! یہ تھا اللہ کے رسولﷺ اور آپ کے خلفاء کا اندازِ حکمرانی... اب میں نے اپنے پاکستانی حکمرانوں کا جو اندازِ حکمرانی دیکھا وہ یہ تھا کہ ایک ہفتہ عشرہ بعد تک بھی مختلف محکموں کے لوگ لسٹیں تیار کر رہے ہیں، خفیہ ادارے جو ایک درجن سے اوپر ہیں، نقصانات کے اندازے اور زلزلہ زدگان کی لسٹیں تیار کر رہے ہیں، صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے ادارے لسٹیں تیار کر رہے ہیں۔ سامان روانہ ہو چکا ہے مگر لسٹوں کی تیاری کے بعد ملے گا۔ نقدی کا اعلان ہو چکا مگر لسٹوں کی تیاری، پھر منظوری پھر چیکوں کی تقسیم، پھر بینکوں کے پھیرے اور تب تک ذرا سوچئے کہ اس شدید ترین سردی میں لاچاروں کا کیا بنے گا؟ ڈیزاسٹر مینجمنٹ نامی ایک محکمہ بھی ہے وہ کہاں ہے کیا کرتا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ مدد وہ ہے جو بروقت پہنچے۔ جب مدد وقت کی بجائے جامد اور بوسیدہ طریق کار طے کرتے ہوئے مہینوں بعد پہنچتی ہے تب تک لاچار لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کو کچھ نہ کچھ رواں کر چکے ہوتے ہیں۔ فلاحی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے قدرے کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ عزیزوں اور اہل علاقہ کے ذریعے زندگی کا پہیہ سست ہی سہی مگر اسے چلا چکے ہوتے ہیں۔ تب حکومتی مدد جن کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ان کی نیت میں بھی فتور آ جاتا ہے۔ ہمدردی کا مفقود ہونا اک فطری سا تقاضا بن جاتا ہے اور پھر یہی ہوتا ہے کہ واجبی سا تقاضا پورا کیا جاتا ہے اور باقی امداد کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔ ہم سالہا سال سے ہر ڈیزاسٹر (مصیبت) پر یہی انداز دیکھ رہے ہیں۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، طریق کار یہی ہوتا ہے؛البتہ پاک فوج کو مدد کرتے عملی میدان میں‘ میں نے خود دیکھا۔
کمبڑ میدان کے میڈیکل کیمپ میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ڈاکٹر مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔ میں اس کیمپ کے ایک منہدم کونے کو دیکھ کر پیچھے ہٹا ہی تھا کہ چھت کا ایک حصہ گر پڑا۔ جس برآمدے میں بیٹھا تھا، وہ بس گرنے کے قریب ہو گیا تھا چنانچہ فوراً کیمپ کو خالی کروا لیا گیا۔ اسی طرح وادی کیلاش میں جہاں میں نے اپنے ڈرائیور اور دو بیٹوں کے ساتھ رات گزاری، اس کی چھت شارٹ سرکٹ سے جل چکی تھی۔ سیمنٹ کے ٹکڑے اکھڑ کر لٹک رہے تھے، دیواریں اپنی دراڑوں کے ساتھ ڈرا رہی تھیں۔ پتھریلی دیوار کا ایک حصہ آگے کو بڑھا ہوا تھا، نہ جانے کب چھت کو لے کر نیچے گر پڑے۔ ہم نے اسی میں رات گزاری، میں نے آیت الکرسی پڑھ کر پھونک ماری اور سو گئے۔ بڑی مزے کی نیند آئی۔ صبح اپنی اہلیہ بشریٰ امیر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ خواتین کے ہمراہ جس کمرے میں وہ سوئی تھیں اس کا بھی یہی حال تھا: کہا! میں نے بھی آیت الکرسی پڑھ کر کمرے کی دیواروں اور چھت کو پھونک ماری اور سو گئی۔ اکثر لوگ ایسے ہی مکانوں میں سو رہے ہیں۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف ہفتے عشرے سے ایسی ہی بلڈنگوں میں رہ رہے ہیں اور سو رہے ہیں۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے اور بہنوں کا اکلوتا ویر ہے مگر لاچار زلزلہ زدگان کے ساتھ ہے۔ مگر میرا اور ان بے بس رہائشیوں کا حکمران کہاں ہے، کاش! وہ اور کچھ نہ کرے، بس اتنی سی مینجمنٹ کر لے کہ وہ اعلان کر دے کہ میں دیر شہر کے دراڑ زدہ مکان میں رات گزاروں گا۔ ہاں ہاں! میں اس وقت تک ایسے مکانوں میں راتیں گزاروں گا جب تک سب کے مکان بن نہیں جاتے۔ اگلی رات چترال میں تو اس سے اگلی رات بمبوریت میں۔ پھر ایون اور گرم چشمہ میں تو اگلی رات شانگلہ میں۔ عمران خان، پرویز خٹک ایسا کر کے دکھلائیں۔ میاں نوازشریف ذرا ایسا منظر دنیا کو دکھلا کر بتلائیں... خود نہ کریں تو کم از کم حکومتی اہلکاروں کو ایسا کرنے کا حکم دیں اور پھر دیکھیں زلزلہ زدگان کے مکانات کس قدر جلد بنتے ہیں؟ موجودہ تیز ترین مواصلاتی دور میں ہیلی کاپٹروں اور گاڑیوں پر اہلکار جائیں گے اور نقدی کے تھیلے لے کر جائیں گے۔ فوراً کام شروع ہو گا، ایسی شاندار اور تیز ترین مینجمنٹ ہو گی کہ دنیا ہمارے حکمرانوں سے سیکھنے آئے گی۔ حضرت عمرؓ کا دور تازہ ہو جائے گا۔ حافظ عبدالرئوف یہی تو کر رہا ہے، اس کے ساتھ ملک بھر کے فلاحی کارکن بھی دن رات ایک کئے ہوئے یہی کچھ کر رہے ہیں مگر سوال پھر یہی ہے کہ حضرت عمرؓ کا کردار جس پر فرض عین ہے وہ کہاںہے؟ وہ کہاں ہے؟